انتظامیہ نے پچھلے دنوں باغات اور پارکوں میں داخل ہونے کے لئے فیس میں نئی شرحوں کا اعلان کیا ۔ اس حوالے سے محکمہ فلوریکلچر کی طرف سے اطلاع دی گئی کہ نئے سال کے لئے داخلہ فیس نئی شرحوں کے مطابق وصول کی جائے گی ۔ سب سے زیادہ فیس باغ گلہ لالہ میں داخل ہونے والوں سے وصول کی جائے گی ۔ باقی تمام باغات اور پارکوں کے لئے فیس قریب قریب یکساں ہوگی ۔ اس حوالے سے بتایا گیا کہ مقامی شہریوں کے لئے ٹولپ گارڈن میں داخلہ فیس 75 روپے جبکہ غیر مقامی باشندوں کے لئے یہ فیس 200 روپے فی کس ہوگی ۔ البتہ طلبہ اور کم سن بچوں کے لئے داخلہ فیس کی شرح بالغ افراد سے محض نصف ہوگی ۔ اسی طرح باقی پارکوں میں داخلے کے لئے 30 روپے فی کس مقرر کئے گئے ہیں ۔ یہاںبچوں کے لئے صرف 15 روپے ادا کرنے ہونگے ۔ نئی شرحوں کا اطلاق مبینہ طور رواں سال کے مارچ مہینے سے ہوگا اور کسی کو بھی اس فیس کی ادائیگی کے بغیر ان باغات اور پارکوں میں داخل ہونے کی اجازت نہ ہوگی ۔ اس طرح سے محکمے نے آمدنی میں اجافہ کونے کا من بنایا ہے ۔ اگرچہ کئی پارکوں کے لئے داخلہ انتظامات کے لئے ٹینڈر پہلے ہی طلب کئے گئے ہیں ۔ تاہم اندازہ ہے کہ نئے نرخ نامے سے محکمہ فلوریکلچر کو بہتر آمدنی حاصل ہوگی ۔ اس طرح سے ان پارکوں اور باغات کے اندر سیاحوں کے لئے انتظامات میں بہتری لائی جائے گی ۔ کئی لوگ طویل عرصے سے مشورہ دے رہے ہیں کہ سیاحوں کے لئے جدید طرز کے انتظامات کئے جائیں تاکہ واپس جاکر یہ دوسروں کو کشمیر آنے کے حوالے سے خوش کن تاثرات پیش کریں ۔ ایسا کیا جائے تو یقینی طور سیاحوں کا ان مقامات پر رش بڑھ جائے گا ۔ بصورت دیگر اضافی فیس ادا کرنا بار گراں ہوگا ۔ انتظامات میں بہتری لائے بغیر محض انٹری فیس کی شرحوں میں اضافہ بلا سبب تصور کیا جائے گا ۔ ایسی صورت میں انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بننے کے علاوہ اس وجہ سے سیاحت پر منفی اثر پڑ سکتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فیس میں اضافے کے ساتھ ساتھ انتظامات میں بتری لائے جانے پر بھی توجہ دی جائے ۔ ایسا کئے بغیر وہ ہدف پورا نہیں کیا جاسکتا ہے جس کے بارے میں خیالات سامنے آرہے ہیں ۔
انتظامیہ نے ایک ایسے مرحلے پر پارکوں اور باغات میں انٹری فیس کا اضافہ کیا جب رواں سال کے لئے سیاحتی سیزن کا آغار ہونے والا ہے ۔ سیاحت سے جڑے لوگ خاص کر سرکار امید کررہی ہے کہ رواں سال کے دوران بڑے پیمانے پر سیاح کشمیر آئیں گے ۔ اگرچہ پچھلے سال کے دوران سیاح ریکارڈ تعداد میں کشمیر آئے اور کافی عرصے بعد غیر ملکی سیاحوں کو کشمیر میں سیر کرتے دیکھا گیا ۔ اس سے لوگوں کا حوصلہ بڑا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ رواں سال کے دوران بہت زیادہ تعداد میں غیر مقامی اور غیر ملکی سیاح کشمیر آئیں گے ۔ سرما کے دوران بہت کم برف باری ہوئی ۔ طویل خشک سالی کی وجہ سے سیاحوں کی آمد میں کمی واقع ہوئی ۔ برف کا نظارہ کرنے کے لئے جتنی تعداد میں سیاحوں کے آنے کی امید کی جارہی تھی اتنی تعداد میں سیاح تو نہیں آئے ۔ تاہم ہوٹل مالکوں نے کافی کمائی کی اور پچھلے سالوں کے مقابلے میں سیاح بڑی تعداد میں کشمیر آئے ۔ وقت پر بارشیں اور برف باری ہوتی تو لاکھوں کی تعداد میں سیاح کشمیر آتے ۔ لیکن موسم نے ساتھ نہیں دیا ۔ تاہم سیاحوں نے مایوس نہیں کیا ۔ سرما کے تین مہینوں کے دوران سیاح یہاں آکر ٹھہرے اور بڑے آرام سے گھومے پھرے ۔ اب نئے سال کے دوران اس چہل پہل میں مزید اضافہ ہونے کا اندازہ ہے ۔ درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ ہی سیاح کشمیر آنا شروع ہوتے ہیں ۔ باقی علاقوں میں شدید گرمی سے بچنے کے لئے لوگ کشمیر کے صحت افزا مقامات کا رخ کرتے ہیں ۔ پہلگام ، گلمرگ اور دوسرے کئی سیاحتی مقامات ان کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں ۔ اس کے علاوہ سرینگر کے ڈل جھیل میں سیاح کافی راحت محسوس کرتے ہیں ۔ اب محکمہ فلوریکلچر نے انٹری فیس میں جو اضافہ کیا اس کی دیکھا دیکھی میں سیاحت سے جڑے دوسرے لوگ اور ادارے بھی ریٹ میں اضافہ کریں گے ۔ خاص کر ہوٹل اور ہاوس بوٹ مالکان اپنے ہاں ٹھہرنے کے کرایوں میں اضافہ کریں گے ۔ اس میں شک نہیں کہ مہنگائی بڑھنے کے ساتھ کرایوں میں اضافہ لازمی بن جاتا ہے ۔ سرکار بھتہ الاونس میں جو اضافہ کرتی ہے اس کو دیکھ کر پرائیویٹ اداروں کا کرایوں میں اضافہ غیر معقول نہیں ۔ سرکار نے پارکوں میں انٹری فیس میں اضافہ کرکے نجی اداروں کے لئے راستہ کھول دیا ۔ حکومت کو چاہئے کہ اس حوالے سے نظر کھلی رکھے اور کرایوں میں بے تحاشہ اور بلا وجہ اضافے کی اجازت نہ دے ۔ سیاحوں کے استحصال کی کسی طور اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔ اس سے نہ صرف سیاحتی سیکٹر پرمنفی اثر پڑتا ہے بلکہ پوری سوسائٹی بد نام ہوکر رہ جاتی ۔ عام لوگوں کا سیاحوں کے ساتھ رویہ بڑا حوصلہ افزا رہتا ہے ۔ تاہم برے عناصر ہر سماج میں موجود ہوتے ہیں ۔ان سے مہمانوں کو تحفظ دینا لازمی ہے ۔
