شوکت محمود شوکت
بہت دنوں سے آسمان پر بادل گھوم رہے تھے مگر بارش تھی کہ برسنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی _کسانوں کے ساتھ عام لوگ بھی پریشان تھے ، یہ تیسرا سال تھا کہ وقت پر بارش نہیں ہو رہی تھی ۔ پچھلے دوسال بھی قحط کی نذر ہو گئے تھے اور اب یہ تیسرا سال بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں نہیں ، بارش ہو گی اور ضرور ہو گی آمنہ نے پنگھٹ ہر پانی بھرتے ہوئے راشدہ سے پر امید انداز میں کہا۔
مجھے نہیں لگتا کہ بارش ہو ، کیوں کہ سات دنوں سے بادل چھائے ہوئے ہیں ، سورج اپنا منہ نہیں دکھا رہا مگر، بارش کا ایک قطرہ بھی زمین پر نہیں پڑ رہا ۔ راشدہ نے مایوسی کے انداز میں جواب دیا۔
دونوں کی گفتگو ابھی جاری تھی کہ دور سے دونوں کو ایک شکاری ان کی طرف آتا ہوا دکھائی دیا ۔انھوں نے شکاری سے بارش ہونے یا نہ ہونے کے متعلق رائے لی ۔ مگر ، شکاری کو تو اس وقت سخت پیاس لگی ہوئی تھی ،اس نے کوئی جواب دینے کی بجائے ، آمنہ اور راشدہ سے پانی مانگا، پانی پیتے ہی وہ کسی شکار کی تلاش میں نکل گیا کیوں کہ صبح سے وہ اپنے گھر سے نکلا تھا، شام ہونے کے قریب تھی ، اسے کوئی شکار ابھی تک نہیں ملا تھا ، وہ سخت پریشان تھا ، گھر میں کھانا پینے کے لیے سامان بھی کم رہ گیا تھا۔ آج اس کا ارادہ تھا کہ کم از کم ایک فاختہ ہی مل جائے تو اسے مار کر گھر لے جائے کیوں کہ اس کا چھوٹا بیٹا ، بہت دنوں سے گوشت کا تقاضا کر رہا تھا، مگر ، شکاری کے ہاتھ شام تک تو کچھ بھی نہیں آیا تھا ۔ اس کے مالی حالات بھی ٹھیک نہیں تھے کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے گوشت خرید سکے۔
یوں لگتا تھا کہ قحط سالی کی وجہ سے پرندے ( چڑیا ، چکور ، بلبل ، کوئل ، فاختہ ، مینا، تیتر ، بٹیر وغیرہ ) اور دوسرے جنگلی جانور(ہرن ، خرگوش وغیرہ) سب گاؤں کے جنگل سے ہجرت کر گئے تھے ، پورے گاؤں میں قحط کے اثرات نمایاں ہو چکے تھے ۔ فصلیں تباہ ہو رہی تھیں۔ درخت خشک ہو رہے تھے ۔ کنوؤں میں سے پانی کم ہو رہا تھا۔ ان حالات میں جہاں مخیر حضرات اور صاحب ثروت لوگ پریشان تھے وہاں متوسط اور غریب لوگوں کی حالت نا گفتہ بہ تھی۔
دوسرے دن جمعہ تھا۔ مولوی صاحب نے بارش کے لیے بہت دعائیں مانگیں اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ہمارے گاؤں میں کوئی ایسا بد بخت شخص مکین ہے جس کی وجہ سے اللہ کی رحمت برسنے کا نام نہیں لے رہی۔ لہذا ، میری گزارش ہے کہ وہ رات کی تاریکی میں یہ گاؤں چھوڑ دے تا کہ بارش ہو۔ اب لوگ اور پریشان ہو گئے کہ ایسا شخص بھلا کون ہو سکتا ہے ۔ خیر ! ہر شخص اپنے تئیں خود کو گناہ گار متصور کرتے ہوئے ، رات کی تاریکی میں گاؤں چھوڑ گیا۔ اس طرح پورا گاؤں تقریبا صبح خالی ہو گیا، مگر بارش پھر بھی نہ ہوئی۔ اگلے دن ، تمام لوگ پھر اپنے گاؤں واپس آئے اور مولوی صاحب سے دست بستہ عرض کہ کہ مولوی صاحب اب آپ کچھ دنوں کے لیے گاؤں سے کہیں چلے جائیں۔ دوسرے دن مولوی صاحب نے وہ گاؤں چھوڑ دیا۔ کہتے ہیں۔ کہ مولوی صاحب کے جاتے ہی بارش شروع ہوئی اور لگاتار چار دن بارش برستی رہی اور لوگ خوش حال ہو گئے۔
