تحریر:غلام حسن سوپور
کوئی نصف صدی پہلے کی بات ہے جب بارہمولہ کے پارلیمانی حلقہ انتخاب میں الیکشن ہونے والے تھے ، کوئی ایک درجن سے زیادہ امید واروں نے فارم بھر دیئے تھے ، سب امید وار گاؤں گاؤں ، شہر شہر اور گلی گلی جاکر جیت کا دعوٰی کررہے تھے ،
ایک دیہاتی بزرگ نمبر دار صبح صبح ایک آزاد امیدوار کے گھر گیا اور کہا ” بھائی جان مبارک ہو مبارک، آج کی رات کو میں نے ایک خواب دیکھا اور خواب میں آپکو دیکھا ، آپ ایک بڑی شاہانہ کرسی پر بیٹھے تھے سب لوگ آپ کے اردگرد کھڑا تھے اور ایک باریش بزرگ سفید کپڑوں میں ملبوس آپ کی دستار بندی سبز ململ سے کررہا تھا۔ آپ اس الیکشن میں کامیابی حاصل کررہیں ہیں ، میں آپ کو خوش خبری کی مبارک باد دینے آیا ہوں۔”
اس خوش خبری کی وجہ سے امیدوار کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی اور اسے یقین ہوگیا کہ یہ الیکشن وہ جیت رہے ہیں اس وجہ سے اس نے چائے پانی سے دھڑکے لوگوں کا سواگت کیا اور تو اور اس بزرگ نمبر دار کو اس خوش خبری کے عوض ھدیہ بھی چپکے سے جیت میں ڈال دیا۔
یہاں سے نکل کر اس دیہاتی نمبر دار نے رخ دوسرے کانگریسی امیدوار کے گھر کیا اور یہاں پہنچتے ہی اس نے کانگریسی امیدوار کو خوشی خوشی گلے لگایا اور خوش خبری کی مبارک باد دی ،کہا آپ الیکشن جیت رہے ہیں ،
"جناب میں نے کل رات ایک خواب دیکھا اور خواب میں دیکھا کہ آپ ایک شہنشاہ کی کرسی پر بیٹھے تھے اور لوگ آپ کے اردگرد کھڑا تھے ایک بزرگ باریش سفید کپڑوں میں ملبوس آپ کی دستار بندی سبز ململ سے کررہا تھا اور سارے لوگ آپ کو جیت پر شیرینی نچھاور کررہے تھے ”
اس پر کانگریسی پارلیمانی امیدوار خوش ہوا اور دھوم مچادی کہ بررگ نے خوش خبری دی اور چپکے سے ھدیہ بزرگ کی جیب میں ڈال دیا اور خوشی خوشی رخصت کیا ،
اس کے بعد الیکشن ہوا لوگوں نے ووٹ دئیے ، نتائج کا علان ہوا تو یہ دو پارلیمانی آمیدوار بری طرح سے شکست کھا گئے ، اسی دکھ میں ایک دن ان دونوں شکست خوردہ آمیدوار کی ملاقات ہوئی اور ایک دوسرے کو آپ بیتی سنائی، آذاد امیدوار کہتے کہتے سنا رہے تھے کہ جناب میرے پاس ایک بزرگ نے آکر جیت کی خوشی خبری بھی دی تھی میں حیران ہوں کہ میں نے کس طرح سے الیکشن ہارا ،
اس پر دوسرا کانگریسی امیدوار بھی بول پڑا اور کہا جناب آپ فلاں بزرگ کی بات تو نہیں کررہے ہیں تو دوسرے آذاد امیدوار نے اس پر ہاں کردی ۔ اس پر کانگریسی امیدوار نے بڑی تعجب سے کہا کہ یہی بزرگ تو میرے پاس بھی آیا تھا اس نے مجھے بھی خوش خبری جیت کی سبائی تھی ۔ دونوں حیران پارلیمانی امیدوار حیران اور حیران ہوئے اور خود کو کہہ رہے تھے کہ ہم دونوں کو خوش خبری جیت کی ،جو ہار میں بدل گئ مگر کیسے ۔۔۔۔ ،!!! ۔
