
فاطمہ ہر گزرتے دن اپنی بدنصیبی کے سبب پریشان رہتی تھی۔محلے والوں اور رشتے داروں کے خوش و خرم اور صحت مند بچے جب بھی اس کی نظر سے گزرتے تھے توہ وہ دل ملول ہوجایا کرتی تھی۔فاطمہ کا شوہر اقبال جب بھی روزی روٹی کمانے گھر سے باہر چلا جاتا تھا تو اکیلے پڑ جانے کے سبب وہ مایوس اور فکرمند رہتی۔اقبال کوبھی بیوی کے اکیلے پن کا صدمہ کھائے جارہاتھا۔اس وجہ سے اس کا کام میں دل نہیں لگتا تھا وہ افسردہ رہتا تھا۔دونوں میاں بیوی کا اکیلاپن اور گھر کا سونا پن دراصل ان کابھانج ہوناتھا۔ان کے گھر کوئی اولاد نہیں تھی اور انھیں یہی فکرلاحق تھی کہ جب دونوں بڑھاپے میں قدم رکھیں گے تو پھر ان کی دیکھ بال اور کوئی پانی پلانے والا بھی نہ ہوگا۔اس صدمے سے میاں بیوی دل برداشتہ ہوتے تھے۔ان کے گھر میں مایوسی کا عالم چھایا رہتا تھا۔اقبال مزدوری کرکے بھی فاطمہ کاپیٹ اور بچے کی پرورش اچھے سے کر سکتا تھا۔اگر انھیں کوئی کمی تھی تو وہ ایک اولاد کی تھی جس کے لیے کوئی بھی انسان ترس سکتا ہے۔ اقبال اور فاطمہ اس پریشانی کے سبب کئی امراض میں مبتلا ہورہے تھے۔خود کی تسلی کے لیے انھوں نے پیر فقیر،آستانوں کے چکر،دوا دارو غرض بہت سے حربے آزمائے لیکن کچھ ہونہیں رہاتھا۔
ایک دن شام کاوقت تھا اور گھڑی میں رات کے آٹھ بج رہے تھے۔اقبال پلنگ پر بیٹھا کسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔اس دوران فاطمہ باہر سے دوڑتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی،اس کی سانس پھولرہی تھی،ہڑبڑاہٹ میں اقبال سے کہنے لگی۔
ارے میاں۔۔۔۔۔کس سوچ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔کیا آپ کو باہر کا شور سنائی نہیں دے رہا،ذرا پتہ کیجئے،محلے میں اس قدر شور کیوں بھپا ہوا۔خیریت تو ہے۔
اقبال باہر نکلتا ہے اور کچھ ہی دیر بعد واپس بھی آجاتا ہے۔
فاطمہ پوچھنے لگتی ہے کیا ہوا تھا باہر،محلے میں شور کس بات کا تھا؟
اقبال کہتا ہے کہ قادر کے دوسرے بیٹے کو پولیس نے گرفتار کر لیاہے۔اقبال ان کا پڑوسی ہوتا ہے جس کے چار بیٹے اور ایک جوان بیٹی ہوتی ہے۔
جب اقبال قادر کے بیٹے کی گرفتاری کی خبر فاطمہ کاسناتا ہے تو وہ کہتی ہے کیوں؟
اقبال۔۔۔۔قصبے کے ایک موبائل فون کی دوکان میں چوری ہوئی ہے اوراسی چوری کے الزام میں قادر کے بیٹے کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔اس وجہ سے باہر لوگوں کی بھیڑ جمع ہوئی ہے جو اس پر لعت و ملامت بھیج رہے ہیں۔وہ کہہ رہے ہیں کہ قادرکے بیٹوں کی وجہ سے محلے کا نام بدنام ہوگیا ہے۔دوسرے گاؤں کا کوئی شخص اپنی بیٹی کو ہمارے گاؤں کیوں بیاہے گا۔اس بدنامی کی وجہ سے باہر بہت شور مچا ہواہے۔
فاطمہ تھوڑی توقف کے بعد پھر سے اسی موضوع کو چھڑتی ہے اوراقبال سے کہتی ہے اب کیا ہوگا۔
اقبال۔۔جو ہونا ہے دیکھا جائے گا۔قادر کے بیٹے محلے والوں کی پریشانی کو بڑھاتے جا رہے ہیں۔ایک سے بڑھ کر ایک کارستانی کر رہے ہیں۔وہ مزید کہتا ہے۔۔۔۔۔
اقبال۔۔۔قادر کا بڑا بیٹا بھی آوارہ گرد ہے اور دن بھر محلے کے دیگر آوارہ گردوں کے ساتھ گھومتا پھرتا ہے۔وہ کسی کام کا نہیں، ایک نمبر کالوفر ہے۔اس وجہ سے وہ اپنے محلے میں نکما اور موالی کے طور پرمشہور ہے۔ کوئی بھی اس کے منہ نہیں لگتا ہے۔ قادر کا تیسرا بیٹا عمران دسویں جماعت تک اچھا پڑھ لکھ رہاتھا لیکن ماں باپ کے لارڈپیار نے اس کو بھی بگاڑ دیا۔ جوں ہی گھر یا باہر کا کوئی شخص،دوست یا رشتہ دار اس کو نصیحت کرنے بیٹھتاہے تو اس کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی۔وہ بھی منہ پھٹ بن گیا ہے۔اس پرکسی کی نصیحت کاکوئی اثر نہیں پڑتا۔
ابھی کچھ دن پہلے کی ہی بات ہے،محلے کی اوقاف کمیٹی کے ممبران نے قادر کو ایک نوٹس بھیجا تھا جس میں انھوں نے اس قادر کے منجھلے بیٹے کے تعلق سے لکھا تھاکہ ”ایاز۔۔۔۔ہم نے ایاز کو نشیلی ادویات کا استعمال کرتے ہوئے کئی بار پکڑااور پھر معاف بھی کیا۔آج اسے ایک بار پھر ان نشیلی ادویات کے کاروبار میں پکڑا گیا۔ ان کے ساتھ دو اور لڑکوں کو بھی اوقاف کمیٹی کے ممبروں نے رنگے ہاتھوں پکڑا ہے۔ اسے باربار سدھرنے کا موقع دیا گیا لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہورہا۔اس لئے وارننگ کے طور پر اب یہ آخر نوٹس بھیجا جا رہاہے۔اگلی بار پگڑا گیاتو اسے پولیس کے حوالے کر دیا جائے گا۔ “
اقبال بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید کہتا ہے۔۔۔
لیکن قادر کی اکلوتی بیٹی سائمہ بہت ہی قابل اور ذہین ہے۔ وہ اسکول میں ہمیشہ امتحان میں اچھی کارکردگی دکھاتی ہے۔ نتائج ظاہر ہونے کے دن اکثر اس کو اسکول میں انعامات ملتے رہتے ہیں۔آس پڑوس کے سارے لوگ سائمہ کی بے حد عزت کرتے ہیں۔
اس دوران کچھ وقت گزر جاتا ہے۔اقبال اور فاطمہ کی زندگی بھی کسی طرح کٹتی جاتی ہے۔محلے والے بھی اپنے اپنے کام میں مگن ہوتے ہیں۔لیکن اس اثنا ء میں ایک نزدیک کے اسکول میں چیخنے کی آواز سنائی دی۔
جب باہر اسکول گراونڈ میں بیٹھے اساتذہ نے رونے کی آواز سنی،تو وہ سب اس کمرے میں داخل ہوئے جہاں سے چیخنے کی آوازیں آرہی تھیں۔کمرے میں داخل ہونے پر وہ دیکھتے ہیں کہ قادرکی بیٹی سائمہ ایک بینچ پر زار و قطار رو رہی ہے۔
اساتذہ پوچھنے لگتے ہیں۔۔۔بیٹا سائمہ کیا ہوا۔۔کیوں رو رہی ہو۔
بولو بیٹا۔۔۔بولو
سائمہ۔۔۔۔۔۔بڑی عاجزانہ انداز میں اور رو رو کے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ سر مجھے سب لڑکے لڑکیاں اسکول میں طعنے دیتے ہیں کہ تمہارے بھائیوں کو بار بار سماج دشمن کاموں میں ملوث پایا جاتا ہے۔۔۔وہ بہت گندے کام کرتے ہیں۔ان کی وجہ سے ہمارا جینا مشکل ہوگیاہے۔
اساتذہ سائمہ کو کسی طرح خاموش کرتے ہیں اور اسے دلاسا دے کر اس کے گھر چھوڑ دیتے ہیں اور آئندہ ایسا کرنے سے ڈانٹتے ہیں۔اس کے اساتذہ اسے کہتے ہیں کہ تم ایک اچھی اسٹوڈنٹ ہو۔تمہیں بہت آگے بڑھناہے۔ایسا نہیں کرنا چاہیے۔تم سمجھدار ہو۔آئندہ ایسا مت کر نا۔
جب اگلے دن سائمہ کے والدین اسے اسکول جانے کے لئے کہتے ہیں۔تو وہ صاف انکار کردیتی ہے۔اس کے لوفر بھائی آوارہ گردی میں لگے رہتے ہیں اور ان کی اکلوتی بہن گھر میں اکیلی پریشان اور سوچ میں ڈوبی رہتی ہے کیوں کہ اس والدین اس کے لیے بازار سے نئے کپڑے خریدنے کے بہانے چلے گئے ہوتے ہیں۔
جب میاں بیوی شام کے وقت گھر لوٹتے ہیں تو وہ اپنی بیٹی کی لاش کو باتھ روم میں لٹکی ہوئی دیکھتے ہیں۔ اس نے خودکشی کر لی تھی اور یہ واقعہ دونوں میاں بیوی کے لئے قیامت صغریٰ سے کم نہ تھا۔۔
چوں کہ اقبال اور فاطمہ بھی ان کے پڑوسی تھے اور ا ن کے پورے حال سے واقف تھے۔جب اس صورت حال پر بات کرنے بیٹھتے ہیں تووہ اس نتیجے پہ پہنچتے ہیں کہ ایسی اولاد سے انسان کا بے اولاد ہونا ہی بہتر ہے۔پھر ان کے دل کو بھی تسکین ہوتی ہے۔
