
کائینات کا مالک صرف اللہ ہے اور کائینات کی ہر شیٔ اسی کی ہے ۔اللہ کی قدرت بہت وسیع ہے اور اسی وسیع قدرت کی وساطت سے یہ دنیا بھی رواں دواں ہے، اللہ نے انسان کو پیدا صرف اسلئے کیا ہے تاکہ وہ اپنے خالق حقیقی کی بندگی اور عبادت کرے تاکہ اس کا رب اس سے راضی ہوجائے اور بندہ بھی اللہ کے آگے سرخ رو ہوجائے ۔ اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے اور پھر اس کو دنیا میں ۱۰سال ،۲۰سال، ۳۰سال، ۴۰سال،۵۰سال، ۶۰سال عمر کے دئے یا اس سے زیادہ عمر بھی عطا کی ہو ۔ اس مدت عمر کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ اللہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون احسن اور بہترین عمل کرے گا۔ گویا تخلیق موت اور زندگی صرف اس لئے ہوئی ہے تاکہ اللہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون افضل عمل کرے گا؟کون پیاسے کو پانی پلائے گا؟کون گرتے کو اٹھائے گا؟کون فاقہ مست کو کھلائے گا؟ کون ننگے کو پہنائے گا؟ کون کمزور کی مدد کرے گا؟ کون راہ سے بھٹکے کو راہ دکھائے گا؟ کون مظلوم کو ظلم سے بچائے گا؟ اس طرح کے کام احسن کام کہلاتے ہیں۔ غرض خالق حقیقی کو راضی کرنا ہی مقصد زندگی ہے۔ جس شخص کے اندر استحضار موت ہو اور دنیا سے نکل جانے کا پورا یقین ہو، وہی انسان اپنے آپ کو برائیوں سے بچاتا ہے اور نیکیوں کے فروغ میں ہی اپنا اصل وقت خرچ اور صرف کرتا ہے۔ دنیا میں رہ کر جس انسان نے بھی آخرت پر پورے یقین کے ساتھ نیکی کی اللہ نے اس کو کامیابی سے نوازنے کی خوش خبری دی ہے ، انسان کے اعلیٰ کردار کا معیار یہ ہے کہ وہ دنیا میں رہ کر اللہ کی خوش نودی کے لئے اللہ کے کمزور بندوں کی دلجوئی اور مدد کرے اور انھیں خوش رکھنے کی کوشش کرے، ان کو ان کے جائیز اور بنیادی حقوق سے محروم نہ کرے بلکہ ان کے دکھ درد میں شریک ہوکر ان کے جذبات اور حساسات کی قدر کرے۔ کوئی انسان کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، اس کو چاہئے کہ وہ اپنے سے کم درجہ کے لوگوں کے ساتھ رحم دلی اور خوش اسلوبی کے ساتھ پیش آئے ۔ تب ہی کہیں جاکر انسان اپنے اعلیٰ اور ارفع مقام کو پالینے میں کامیاب ہو سکتا ہے ۔ زمین پر غرور اور اکڑ کے ساتھ چلنے والے اللہ کو پسند نہیں ہیں ۔ غرور اور گھمنڈ سے انسان ذلیل اور خوار ہوجاتا ہے بلکہ وہ عقل کا دیوالیہ ہوجاتا ہے ۔ اللہ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ نرم اور انکساری سے چلنے والے اللہ کو بہت ہی پسند ہیں ، ایسے لوگ کامیاب اور کامران ہوجاتے ہیں ، ہمارے رسول محترمﷺ کا فرمان ہے کہ ’’اللہ ایسے انسان پر رحم فرماتا ہے جو دوسروں پر رحم کرے، اسلئے رحم دلی سے کام چلانا چاہئے ۔ رحم دلی اور نرمی سے دوسروںکے ساتھ پیش آنا ہی آدمی کے لئے سب سے اچھی نشانی ہے۔ انسان جس حال میں بھی ہو ، اسے چاہئے کہ وہ ہر حال میں انسانیت کا دامن پکڑ کے رکھے اور دنیا میں رہ کر ایسے کام کر ے کہ اس کے جانے کے بعد بھی دنیا اس کو اچھے انداز میں یاد کرے، نہ کہ ایسے زندگی گذارے کہ اس کے عمل کو دیکھ کر لوگ اس کو بڑی ناراضگی کے ساتھ یاد کریں گے۔
مشہور واقعہ ہے کہ ایک بادشاہ کا اپنے ملک میں کسی کسان کے باغ کے پاس گذر ہوا۔اسے پیاس لگ رہی تھی۔ اس نے کچھ پینے کی خواہش ظاہر کی تو کسان نے محض ایک مسافر کی خدمت کے جذبے سے باغ سے انار توڑ کر نچوڑا تو ایک ہی انار کے رس سے پیالہ بھر گیا۔ بادشاہ کو تعجب بھی ہوا اور دل میں یہ فاسد خیال بھی آگیا کہ کسی نہ کسی بہانے سے اس باغ کو ہتھیا لینا چاہئے۔ کچھ دنوں کے بعد وہ دوبارہ وہیں سے گذرا اور اس نے ازخود انار کا رس پینے کی خواہش ظاہر کی ، کسان نے کئی انار نچوڑے تب جاکر بڑی مشکل سے پیالہ بھرا ۔ بادشاہ نے حیران ہوکر پوچھا کہ پہلی بار تو ایک ہی انار سے پیالہ بھر گیا تھا۔ اب کی بار کئی انار کیوں نچوڑنے پڑے؟ کسان یہ نہیں جانتا تھا کہ میں اپنے ملک کے بادشاہ سے مخاطب ہوں، اس نے سیدھے سادے دیہاتی انداز میں جواب دیا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے بادشاہ کے دل میں کھوٹ آگیا ہے، اور اس نے کسی پر ظلم کا ارادہ کر لیا ہے۔ اس واقعہ سے سبق ملتا ہے کہ ایک تو انسان اپنے منصب کے ساتھ انصاف کرے اور ساتھ ساتھ اپنے ماتحتوں کا بھی خیال رکھے۔ انسان اپنے آپ کو جواب دہ سمجھے، کیوں کہ ایک دن اسکو ضرور اپنے کئے کا حساب دینا ہوگا جس کو
Day of the judgement کہتے ہیں اس روز کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا ۔ جس کسی نے کسی کی حق تلفی کی ہوگی اسکو اسی کا حق چکانا پڑے گا۔ اسلئے انسان کو چاہئے کہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو اپنے لئے امانت سمجھے اور ان کی قدر کرے ۔ان کو رب کے دیئے ہوئے احکامات کے تحت ہی استعمال کرے تاکہ آخرت میں سرخ روئی حاصل کرے ۔ آج ہم سنہ ہجری کے مطابق سال کے پہلے مبارک اور محترم ماہ ماہِ محرم الحرام کے متبرک ایام سے گذر رہے ہیں ۔اس ماہ کی حرمت روز اوّل سے چلی آرہی ہے اسلئے یہ مہینہ بھی متبرک اور حرمت والے مہینوں میں سے ہے۔ جب ہم اس ماہ کی دسویں تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو اسکو تاریخ اسلام میں یوم عاشورا ٓء کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اسی روز بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و جور سے نجات ملی ہے۔ گویا یہ دن عظیم اور متبرک بھی ہے ۔ سنہ ۶۱ھ میں اسی ماہ مقدس کی دس تاریخ کو میدان کربلا میں آں حضورﷺ کے نواسے حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں اور اہل بیت کو یزیدی لشکر نے شہید کیا۔ جب کہ امام عالی مقامؓ نے پامردی اور اولولعزمی سے یزیدی فوج کا مقابلہ کر کے ایک ایسی تاریخ رقم کی کہ رہتی دنیا تک ان کے جرأت اور ہمت کو یاد رکھا جائے گا۔
بقول شاعر:
اُف! یہ جادہ جسے دیکھ کر جی لرزتا ہے
کیا مسافر تھے جو اس راہ گذر سے گذرے
حضرت امامؓ راہ حق کے وہ مسافر تھے جنھوں نے حق کی راہ میں اپنی ہر عزیز شیٔ قربان کر کے ایک ایسی تاریخ رقم فرمائی کہ قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے اس میں سبق اور نصیحت ہے۔ آپؓ نے اصولوں کی بلندی اور اونچائی کے لئے راہ عظیمت اختیار کر کے انسانیت کے لئے ایسے نقوش چھوڑ دئیے کہ دنیا ان کو اسلام عقیدت پیش کرے گی ۔
بقول شاعر:
پیش کرتی رہے گی شہادت حسینؓ کی
آزادیٔ حیات کا یہ سرمدی اصول
چڑھ جائے کٹ کے سر تیرا نیزے کی نوک پر
لیکن تو فاسقوں کی اطاعت نہ کر قبول
حضرت امامؓ نے سفر آخرت کی راہ لیتے ہوئے بھی حق کا بول بالا فرمایا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ وفا نبھائی۔ حضرت امام عالی مقامؓ نے اسلامی کاروان کے رہبروں کو سبق دیا کہ آپسی محبت اور شفقت سے ہی تم ساحل مراد تک پہنچ سکو گے اسکے بغیر آپ کے صفحوں کی مضبوطی ناممکن اور غیر یقینی ہے۔ امام عالی مقامؓ کے ساتھی بھی وفا شعار اور محب تھے ۔ وہ امام عالی مقامؓ کے حکم کی اطاعت عمل میں لاتے ہوئے جان جانِ آفرین کے حوالے کر گئے ۔ نیزوں اور تلواروں کے سائے میں دادشجاعت دیتے چلے اور آخری دم تک لڑتے رہے اور دنیا کو نیکی کا اعلیٰ اور ارفع تصور دیتے چلے۔
بقول شاعر:
یہ شہادت گاہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
نبی محترمﷺ نے امام حسینؓ کی عظمت خود بیان فرمائی ہے کہ حسنؓ اور حسینؓ دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں ۔ بات صاف ہے کہ حضرت امام حسنؓ وہ عظیم انسان تھے کہ حضورﷺ نے خود ان کی تعریف بیان فرمائی ہے۔ رسولﷺ کے اس نواسے نے کھل کر لوگوں سے کہا کہ مسلمانوں کا امیر وہی ہوسکتا ہے جو صالح اور با صلاحیت بھی ہو۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی حضرت امام حسینؓ کے حقیقی پیروکار ان کے مشن کو زندہ رکھنے میں محو جدوجہد ہیں۔ وہ مشن یہی تھا کہ اصولوں کی بالادستی ہو نہ کہ فاسقوں کی۔ حضرت امام حسینؓ نے نیکی اور اچھائی کے لئے جہد مسلسل جاری رکھ کر عظیم فریضہ انجام دیا ۔ صدیاں بیت گئیں کہ آج بھی شہداء کربلا کو سلام عقیدت پیش کیا جاتا ہے اور با شعور اور حلم و علم والے لوگ انھیں دل سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔
بقول شاعر:
انسان کو بیدار ہونے دو
ہر شخص پکارے گا ہمارے ہیں حسینؓ
