تحریر:سہیل ارشد
قرآن میں اللہ نے اپنے دین کے پیغام کو سپاٹ نثر میں پیش نہیں کیا بلکہ اس نے اپنے کلام کو پراثر، اور بلیغ بنانے کی لئے ایک ایسے اسلوب کا استعمال کیا جو قرآن سے پہلے نازل ہونے والے صحیفوں میں کیا گیا تھا۔ انجیل، توریت اور زبور اور دیگر آسمانی صحیفوں میں کم و بیش یکساں اسلوب کی کارفرمائی نظرآتی ہے اور یہی اسلوب قرآن اور دیگر آسمانی صحیفوں کو دنیاویی یا انسانی متون سے ممیز کرتا ہے۔
آسمانی صحیفوں میں بیان کے کئی طریقوں اور تمشیلوں اور استعاروں کا استعمال کیا گیا ہے۔ انہی میں سے ایک طریقہ متوازیت ہے ۔ متوازیت کو بات کو پراثر اور معنی خیز بنانے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ اس طریقہ ء کلام میں دو متضاد کیفیات کو ایک ساتھ پیش کیا جاتا ہے جس سے قاری کے ذہن میں کسی بات کے دونوں پہلو روشن ہو جاتے ہیں۔اس کے علاوہ کبھی کبھی ہم معنی جملے بھی پیش کئے جاتے ہیں جس سے بات میں زور پیدا ہو جاتا ہے۔ اس طرح متوازیت کی کئی اقسام ہیں۔ مثال کے طور پر بائبل سے متوازیت کی کچھ مثالیں پیش ہیں۔
وہ عقل مند ہیں
بدی کے لئے
لیکن نیکی کے لئے
آن کے پاس کوئی علم نہیں
جیریمیاہ۔(22:14)
بھلائی کسی چیز میں نہیں
سوائے اس کے جو رب کی طرف سے آئے
اور جو بدی ہے
وہ شیطان کی طرف سے آئے۔
(.بک آف مورون ۔اومنی ..1:25)
مندرجہ بالا دونوں آیتوں میں نیکی اور بدی کے تضاد کو پیش کیا گیا ہے۔ نیکی کو اللہ کی طرف سے اور بدی کو شیطان سے منسوب کیا گیا ہے۔ دوسری آیت میں منکروں اور گناہ گاروں کے طرز فکروعمل پر طنز کیا گیا ہے۔ منکرین سمجھتے ہیں کے وہ عقل مند ہیں اور اس لئے وہ جو کررہے ہیں وہی درست ہے۔ اور اس زعم میں وہ بدی کررے ہیں۔ جبکہ جو دراصل نیکی ہے اس کی سمجھ ان کے پاس نہیں ہے۔
کبھی کبھی ہم۔معنی فقرے بھی لائے جاتے ہیں جو ایک فضا تیار کرتے ہیں۔ اس طرح کے بیانئیے کو ہم معنی بیانیہ کہتے ہیں۔ یہ بھی متوازیت کی ایک شکل ہے۔ اس کی مثال بائبل میں جگہ بجگہ ملتی ہے۔ مثال کے طور پر حضرت عیسی علیہ السلام کی دوبارہ آمد کے زمانے کی منظرکشی کے لئے متوازیت کی صنعت استعمال کی گئی ہے۔
وہ دن ہے
قہر کا دن
پریشانی کا دن
مصیبت کا،
ضائع ہونے کا دن
اور تنہائی کا،
تاریکی کا دن
اور مایوسی کا،
بادلوں کا دن
اور گہری تاریک کا
.(زیفانیہ۔:15۔1.)
اس آیت کا مفہوم۔یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد کا دن منکروں اور ظالموں کے لئے قہروغضب , مایوسی اور بے کسی کا دن ہوگا۔ ان کی ساری حکمت اس دن ضائع ہوجائے گی۔
قرآن میں بھی متوازیت کی صنعت کئی مقامات پر استعمال کی گئی ہے جس سے کلام۔میں زور اور بلاغت آگئی ہے۔
قرآن میں کئی مقامات پر مومنوں پر اللہ کے انعامات اور کافروں پر اللہ کے غضب کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور دونوں باتوں کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے تاکہ قاری پر کفر کے نقصان اور ایمان کے فائدے کا ادراک ہو جائے۔ ایک آیت پیش ہے۔
منافق مرد اور منافق عورتیں سب کی ایک چال ہے۔ سکھلائیں بات بری اور چھڑائیں بات بھلی۔ بھول گئیے اللہ کو سو بھول گیا وہ انکو۔ بیشک منافق وہی نافرمان ہیں۔ وعدہ دیا ہے اللہ نے منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور کافروں کو دوزخ کی آگ کا۔ پڑے رہینگے اس میں وہی بس ہے ان کو۔ اور اللہ نے ان کو پھٹکار دیا اور ان کے لئے عذاب ہے برقرار رہنے والا۔”۔(التوبہ۔67۔68).
۔”اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں سکھلاتے ہیں نیک بات اور منع کرتے ہیں بری بات سے اور قائم رکھتے ہیں نماز اور دیتے ہیں زکوة اور حکم پر چلتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کےوہ لوگ ہیں جن پر رحم کرے گا اللہ بیشک اللہ زبردست حکمت والا ہے۔ وعدہ دیا ہے
اللہ نے ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو باغوں کا کہ بہتی ہیں جن کے نیچے نہریں رہا کریں انہی میں اور ستھرے مکانوں کا رہنے کے باغوں میں اور رضا مندی اللہ کی ان سب سے بڑی ہے۔ یہی ہے بڑی کامیابی۔”(التوبہ ۔71۔72)
دوسری جگہ منکروں کو دوزخ کی طرف ہانکےجانے اور مومنوں کو جنت کی طرف کی طرف لے جائے جانے کا ذکر متوازیت کی عمدہ مثال ہے۔
۔۔”اور ہانکے جائیں جو منکر تھے دوزخ کو گروہ گروہ۔.اور ہانکے جائیں وہ لوگ جو ڈرتے رہے تھے اپنے رب سے جنت کو گروہ گروہ۔ ۔”(الزمر۔71۔72).
سورہ الیل میں مومنوں کو درجہ بدرجہ آسائش کی طرف اور منکروں کو درجہ بدرجہ عسرت کی طرف لے جانے کا ذکر ہے۔ یہ بھی متوایت کی ایک عمدہ مثال ہے۔
.”۔”تو اس کو ہم سہج سہج پہنچائینگے آسانی میں (الیل ۔7).
۔۔”سو اس کو سہج سہج پہنچائینگے سختی میں۔”(الیل۔10).
اگلی آہت میں یہ کہا گیا ہے کہ اللہ مومنوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے اور شیطان اپنے پیروکاروں کو روشنی سے اندھیرے کی طرف لے جاتا ہے۔یہ بھی متوازیت کی ایک عمدہ مثال ہے۔
اللہ مددگار ہے ایمان والوں کا نکالتا ہے ان کو اندھیروں روشنی کی طرف ۔اور جو لوگ کافر ہیں ان کے رفیق ہیں شیطان نکالتے ہیں ان کو روشنی سے اندھیروں کی طرف ۔”(البقرہ۔257).
دوسری آیت میں اللہ اپنی قدرت کا احساس دلانے کے لئے دو متضاد حالات کا بیان کرتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو ہمیشہ کے لئے دن رہ جائے اور انسان رات کو ترس جائے اور چاہے تو ہمیشہ رات رہ جائے اور انسان کے لئے زندگی دشوار ہو جائے۔
تو کہہ دیکھو اگر اللہ رکھ دے تم پر رات کو ہمیشہ کے لئیے قیامت کے دن تک کون حاکم ہے اللہ کے سوائے کہ لائے تم کو کہیں سے روشنی پھر کیا تم سنتے نہیں۔ تو کہہ دیکھو اگر رکھ دے اللہ تم پر دن ہمیشہ کو قیامت کے دن تک کون حاکم ہے اللہ کے سوائے کہ لائے تم کو رات جس میں آرام کرو پھر کیا تم دیکھتے نہیں۔”(القصص۔71۔72)
متوازیت کی ایک اور بلیغ مثال سورہ ھود میں ہے۔
سو جو لوگ بد بخت ہیں وہ تو آگ میں ہیں ان کو وہاں چیخنا ہے اور دھاڑنا ہے۔اس میں ہمیشہ رہیں جب تک رہے آسمان زمیں مگر جو چاہے تیرا رب۔ بیشک تیرا رب کرڈالتا ہے جو چاہے۔ اور جو لوگ نیک بخت ہیں سو جنت میں ہیں ہمیشہ رہیں اس میں جب تک رہے آسمان اور زمین مگر جو چاہے تیرا رب بخشش ہے بے انتہا۔۔”(ھود ۔107۔۔108).
مختصر یہ کہ جہاں قرآن میں بیان کے دیگر طریقے استعمال کئے گئے ہیں وہیں متوازیت کی صنعت کا بھی استعمال کیا گیا ہے جس کی وجہ سے کلام کے حسن, تاثیر اور معنویت میں اضافہ ہوگیا ہے۔
(نیو ایج اسلام)
