• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
ہفتہ, مئی ۱۰, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم ادب نامہ

افسانچے

Online Editor by Online Editor
2022-10-09
in ادب نامہ
A A
افسانچے
FacebookTwitterWhatsappEmail

تحریر:فلک ریاض
چُھٹکارہ
وہ تیز تیز قدموں کے ساتھ اوپر پہاڈی ڈھلان کی طرف جارہا تھا۔۔سارا جسم خون میں تر۔۔بھاری بھرکم چیز کو بازؤو میں لئے گِرتا سنبھلتا دیوانہ وار باگ رہا تھا۔۔کبھی جنگل کے دیو قامت درختوں سے ٹکراتا تو کبھی خونخوار جھاڑیوں میں پھنس جاتا۔۔۔آنکھیں بھی تو نہں تھی ۔۔اس نے جو بھاری چیز اٹھائی ہُوئی تھی اس سے عجیب عجیب آوازیں آرہی تھی۔۔۔جیسے کئی کردار اس چیز سے باہر نکلنے کی انتھک کوشش میں تھے۔۔۔۔۔مگر یہ تھا کہ ان کو کسی بھی کونے۔دَرار ۔۔سوراکھ سے نکلنے نہیں دے رہا تھا۔۔۔۔۔بہت اونچائی پر پہونچ کر اس نے بہت طاقت لگا کر اسے نیچے کھائی میں پھینک دیا۔۔۔۔۔۔
گرِتے گرتے بہت شور و فغاں ہوا۔۔۔۔کانوں کو پھاڑنے والی چینخیں ۔۔واویلا۔۔۔۔۔ماتم۔۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔کچھ دیر بعد سکون۔۔۔خاموشی۔۔۔پورے جنگل میں سناٹا۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن وہ سوچ رہا تھا کہ یہ اتنا بھاری آخر ہُوا کیسے تھا۔۔۔۔
پھر اس کی سمجھ میں آیا کہ اس چیز کے اندر جو دماغ تھا۔۔اس میں کہانیاں تھی۔۔غزلیں تھی۔۔۔نظمیں تھی جو روز و شب ہنگامہ برپا کئے ہوے تھی باہر آنا
چاہتی تھی۔۔۔۔۔وہ ہزاروں کی تعداد میں ان کو باہر نکال چُکا تھا۔۔مگر فائدہ ؟ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔نہ کچھ اس کو فائدہ نہ زمانے کو فائدہ۔۔۔وہ غریب ہوتا گیا۔۔ زمانہ اس کو پڑھ پزھ کر بھی سدُھرنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔۔وہ قلم کار ہوتے ہوے بھی مزدوری کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج اس نے اپنا ذہین سر اپنے جسم سے کاٹ کر پہاڈی سے نیچے پھینک دِیا تو راحت سی محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔۔
. . . . . . . . . . حل
اغواہ۔۔ریپ۔۔۔ایسیڈ حملہ۔۔۔بیوی کی مارپیٹ۔۔۔۔غیرت کے نام پر بہن کا قتل۔۔۔۔دورانِ سفر صنفِ نازک کے ساتھ چھیڑ چھاڑ۔۔۔جہیز نہ لانے پر طعنے۔۔اس نے بچپن سے یہ سب دیکھا۔۔۔مگر اب اس سے دیکھا نہیں جارہا تھا۔۔۔۔اس نے کچھ کرنے کی ٹھان لی۔۔۔وہ خود عورت تھی ۔۔عورت کا درد سمجھ رہی تھی ۔۔اس نے بہت ساری عورتوں کے ساتھ ملِ کر پورے جنگل میں رہنے کا انتظام کیا۔۔۔اور بستی کی تمام عورتوں کو بستی سے نکال کر جنگل میں پہونچایا۔۔۔اور راتوں رات تار بندی سے جنگل اور بستی کے درمیاں سرحد بنائی۔۔۔۔۔مرد سبھی اکیلے رہ گئے ۔۔۔۔۔انہوں نے کئی بار کوشش کی سرحد کو توڈنے کی۔۔مگر عورتوں نے ناکام بنائی۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ایک سال سے وہ جنگلی جانوروں کے ساتھ رہنے لگی۔۔۔انہوں نے بردہ ۔۔چہرہ چھپانا۔۔۔۔بال بند رکھنا سب ترک کیا تھا اب۔۔۔۔جنگلی جانوروں کی نگاہ خراب نہیں تھی۔۔۔۔وہ خوشی خوشی رہنے لگی تھی۔۔۔۔
اور سرحد پر مامور عورتیں پوری چوکسی برت رہی تھی کہ کوئی درندہ بستی سے نکل کر جنگل میں نہ گُس آۓ۔۔۔۔۔۔۔
. . . . . . . جوار باٹا
بیٹی کی شادی دھوم سے ہو رہی تھی۔پورے مکان کو روشنی کے قمقموں سے سجایا گیا تھا۔۔۔۔مہمان دعوت کھا کر نکل رہے تھے۔۔۔رشتہ دار عورتیں سرگوشیوں میں مصروف تھی” ارے دل سے فقیر لوگوں نے پکوایا ہی کیا تھا۔۔۔نہ روگن جوش تھا۔۔۔نہ آبگوش اور نہ پُلاؤ ۔۔۔اس سے تو بہتر تھا دعوت ہی نہ رکھنا۔۔۔۔”سن کر میمونہ خالہ بولی۔۔۔۔شکست خوردہ انسان ہے اشرف۔۔۔۔۔یہ شادی کا وازہ وان نہیں ختم شریف کا نیاز لگا مجھے۔۔۔۔”سب قہقہے مار کر ہنسنے لگے۔۔۔۔اور ادھر تین بیٹیوں کا باپ محمد اشرف کا چہرہ اچانک زرد پڑ گیا تھا۔۔۔کیونکہ موبائیل فون پر پیغام آیا کہ۔۔۔چار مہینہ پہلے جو لون بنک سے لیا اس کی قسط کل سے شروع ہو رہی ہے۔۔۔۔آٹو ڈرائیور پیشے سے اشرف مہمانوں سے مسکرا کر اور ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا ۔۔۔مگر دل کا جوار باٹا پورے جسم میں اُتھل پُتھل مچا رہا۔تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
. . . . . . . عبادت
وہ دن رات عبادت میں مشغول رہتا تھا۔۔۔لیکن نہ کھی کسی پڑوسی کے کام آتا۔۔۔نہ کوئی دعوت قبول کرتا نہ سخاوت کرتا کسی کی۔۔۔۔صدیوں سے دعاؤں میں روتا رہا۔۔۔۔ایک دن دعا۔میں محو تھا آنسو رواں تھے۔۔تو بجلی کے بلب پر نظر پڑی۔۔۔۔۔اس میں ایڈیسن کا مسکراتا چہرہ نظر آیا۔۔۔۔۔پھر دیوار پر رایٹ بریدیرس ۔۔۔گراہم بیل۔۔۔نیوٹن۔۔۔۔گولیلیو۔۔۔۔ماری کیوری۔۔۔۔اینیسٹین ۔۔۔۔وغیرہ بہت سارے انسانوں کے چہرے نظر آیے۔۔۔۔۔
آج اس کے آنسوؤں نے رنگ لایا۔۔۔دعاؤں نے کام کیا
وہ دل میں سوچنے لگا کہ خدا کو ان سب کی عبادت پسند آئی ہوگی یا میری۔۔۔۔۔میں نے کیا کام کیا ۔۔میں کب انسانوں کے کام آیا۔۔۔۔” سوچ کر وہ رونے لگا زور سے اور تڑپ تڑپ کر سجدے میں گرِ گیا۔۔۔۔۔اور دعا کی۔۔۔۔خداوندا مجھے انسانوں کا مدد گار بنا۔۔۔۔۔”

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

شمس الرحمن فاروقی کا تذکرہ

Next Post

اعلان جاری ہے۔ایک تبصرہ

Online Editor

Online Editor

Related Posts

خالد

آخری ملاقات

2024-12-22
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
’’میر تقی میر‘‘ لہجے کے رنگ

میر تقی میر کی سوانح حیات ”ذکر میر“ کا فکری اور تاریخی جائزہ

2024-11-17
ونود کھنہ: پشاور سے بمبئی تک

ونود کھنہ: پشاور سے بمبئی تک

2024-11-17
کتاب کا جائزہ: شہلا رشید کی -رول ماڈلز

کتاب کا جائزہ: شہلا رشید کی -رول ماڈلز

2024-11-13
روشنیوں کا تہوار، اردو شاعری کی نظر میں

روشنیوں کا تہوار، اردو شاعری کی نظر میں

2024-11-03
ادبی چوریاں اور ادبی جعل سازیاں

ادب ، نقاد اور عہدِجنگ میں ادبی نقاد کا رول

2024-11-03
موبائل فون کا غلط استعمال !

موبائل فون!

2024-10-20
Next Post
معشوق احمد: لفظوں کا ساحر

اعلان جاری ہے۔ایک تبصرہ

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan