سرینگر، 28 اکتوبر:
جنوبی ضلع اننت ناگ کے حلقہ انتخاب کوکرناگ کو صوفی بزرگ شیخ نُورالدین نورانی (رح) نے چشموں کے شہر کوکرناگ کو برنگ کے خطاب سے نوازا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ قدرت نے برنگ کی سر زمین کو انگنت نعمتوں سے نوازا ہے، وادی برنگ میں قدرت نے نہ صرف اپنے جلوے بکھیر کر رکھ دیئے ہیں بلکہ یہاں کی زرخیز زمین بیش قیمتی اور نایاب چیزوں کو پنپنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے، انہیں چیزوں میں وادی برنگ کا آخروٹ بھی شامل ہے۔
وادی گل پوش میں آخروٹ کا کاروبار بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے، اگرچہ یہاں رواں برس آخروٹ کی پیداوار کافی اچھی ہوئی ہے، تاہم بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ اس کاروبار سے جڑے ہزاروں افراد کو انکی محنت کا پھل نہیں مل پا رہا ہے۔ کشمیر میں سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی آخروٹ کی فصل تیار ہو جاتی ہے۔ یہ خشک میوہ لوگوں کے روزگار کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ وادی کشمیر کی کثیر آبادی سیب کی صنعت کے ساتھ ساتھ آخروٹ کا کاروبار بھی کشمیر میں بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے۔ آخروٹ کی پیداوار زیادہ تر کشمیر کے بالائی علاقوں میں کثرت سے ہوتی ہے۔
وادی میں ستمبر کے آخر تک آخروٹ پوری طرح سے پک جاتے ہیں اور درختوں سے آخروٹ اتارنے اور چھلکوں سے باہر نکالنے کے بعد آخروٹ کو پانی میں صاف کیا جاتا ہے، اس کے بعد دھوپ میں پہلے خشک کیا جاتا ہے۔ آخروٹ کی کاروبار سے کشمیر کی معیشت کو نہ صرف فائدہ حاصل ہوتا ہے بلکہ یہاں کی آبادی کے ایک کثیر حصے کو روزگار بھی حاصل ہوتا ہے، وادی میں اخروٹ کی پیداوار بڑھنے کے بعد ملک کے ساتھ ساتھ اب اسے عالمی منڈیوں میں بھی فروخت کیا جاتا ہے۔ تاہم اس صنعت سے وابستہ جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے حلقہ انتخاب کوکرناگ کے کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ گذشتہ کئی برسوں سے مقامی منڈیوں میں یہ کاروبار کافی متاثر ہوا ہے، اخروٹ کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے کاشت کار پریشانی کا شکار ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تک حکومت کی جانب سے اخروٹ کی تجارت کو بڑھانے اور کاشت کاروں کی مدد کے حوالے سے اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے ہیں، مقامی اور ملکی منڈیوں میں اخروٹ کی قیمت میں کافی کمی ہوئی ہے۔ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ ہمیں اس کی معقول قمیت نہیں ملتی ہے اور مرکزِی حکومت بھی اس کو فروغ دینے کے لیے کوئی خاص اقدام نہیں کرتی ہے۔کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ اگر اخروٹ کو بین الاقوامی مارکیٹ میں بیجا جاتا تو اس سے ہمیں کافی فائدہ پہنچتا، پھر بھی ہم اپنی فصل کو جموں کی منڈیوں میں بیچنے کے لیے لے جاتے ہیں تاہم ہمیں وہاں کوئی معقول قمیت نہیں ملتی ہے، حالانکہ مرکز کے زیر انتظام جموں کشمیر انتظامیہ بھی اس کاروبار کو فروغ دینے کے حوالے سے قاصر ہیں، جس کی وجہ سے کاروباریوں کو نقصان سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔
کاشتکاروں نے انتظامیہ سے درخواست کی ہے کہ وہ اخروٹ کی صنعت کو فروغ دینے کے حوالے سے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے، انہوں نے یو ٹی سرکار کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت پر بھی زور دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے میں دلچسپی دکھا کر کاشتکاروں کو معقول رقومات دلانے میں ان کی مدد کرے، تاکہ اس شعبے سے وابستہ افراد مایوسی کا شکار ہو پائیں۔
