تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
مسلمان اس وقت عجیب صورتحال سے دوچار ہیں ۔ ہر معاملے میں زوال کا شکار ہیں ۔ اس صورتحال کے لئے یہ خود کو نہیں بلکہ کسی نہ کسی بیرونی دشمن کا نام لیتے ہیں ۔ اتنا ہی نہیں کہ یہودیوں ، امریکی سازشوں اور دشمنوں کے ایجنٹوں کو اپنے زوال کا سبب بتاتے ہیں ۔ بلکہ انہیں دل سے یہی یقین ہے کہ اس زوال کا اصل سبب بیرونی سازشیں ہیں ۔ اس میں کسی حد تک صداقت بھی ہے ۔ لیکن سب کچھ اتنا ہی نہیں ہے ۔ بلکہ خود ان کا عمل بھی اس کی وجہ ہے ۔ دوسری جنگ عظیم کے میں بنائے گئے اتحاد نے ایک منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کو تتر بتر کیا ۔ ان کی اجتماعیت ختم کی گئی اور ان کی طاقت کو زائل کیا گیا ۔ یہ اس کا منطقی انجام تھا ۔ لیکن اصل زوال اس سے پہلے ہی شروع ہوچکا تھا ۔ مسلمانوں کے اندر انتشار بہت پہلے سے پایا جاتا تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ آنحصور ﷺ کے دنیا سے رخصت ہونے کے فوراََ بعد عصبیت اور قبائلی خون نے اپنا سر اٹھایا ۔ اس وقت تو کسی طرح سے اس پر قابو پایا گیا ۔ حضرت ابوبکر کی ذہانت اور حضرت عمر کے خوف نے کسی دوسرے کو کامیاب نہیں ہونے دیا ۔ لیکن ان دونوں کی وفات کے بعد عربوں کے اصل مزاج نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا ۔ حضرت عثمان غنی کی سادہ لوحی نے امت مسلمہ کی طاقت کو زائل کرنا شروع کیا ۔ یہاں تک کہ کئی گروہوں نے منظم ہوکر ان کا کام تمام کیا ۔ اس کے ساتھ ہی زوال کا آغاز ہوا ۔ یہاں تک کہ اسلام کی اصل روح یعنی خلافت کی جگہ ملوکیت نے لی ۔ خلافت کے بدلے ملوکیت کسی بیرونی سازش کا نتیجہ تھا نہ دشمنوں کا اس میں کوئی رول تھا ۔ پورا ماڈل رسول اللہؐ کے قریب ترین صحابہ کے ہاتھوں ترتیب پایا ۔ اس وقت اسرائیل کا کوئی وجودتھا نہ ہندوستان کا کہیں ذکر تھا۔ امریکہ سپر پاور تھا نہ یورپ کی منڈیوں نے دنیا پر اپنا غلبہ حاصل کیا تھا ۔ فوجی لحاظ سے مسلمانوں کا پلڑا اب بھی بھاری تھا ۔ معیشت پر ان کا سکہ بٹھایا گیا تھا ۔ معاشرتی اعتبار سے انہیں اعلیٰ رتبہ حاصل تھا ۔ لیکن اقتدار کی کش مکش جاری تھی ۔ یہاں تک کہ خاندان رسول کو اس پر قربان کرکے مسلمانوں کے اخلاقی زوال کا آغاز کیا گیا۔
دیکھا جائے تو مسلمان دنیا میں کثیر تعداد میںموجود ہیں ۔ اتنی تعداد میں ہونے کے باوجود انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ عالمی نقشے پر 56 مسلمان ملک موجود ہونے کے باوجود ان کی کوئی حیثیت نہیں ۔ یہودیوں کی صرف ایک چھوٹی سی سلطنت ہے ۔ ہندووں کا پوری دنیا میں صرف ایک ملک پایا جاتا ہے ۔ پارسی بس گنتی کے کچھ خاندان رہ گئے ہیں ۔ لیکن یہ سارے اقوام بڑی عزت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ ان کا اپنا ایک مقام اور رتبہ ہے ۔ ان کی الگ پہچان ہے ۔ دنیا میں ان کا نام ہے ۔ ان کا رعب داب ہے ۔ ان کی بڑی عزت کی جاتی ہے ۔ دنیا بھر میں ان کی بات اور ان کے خیال کا احترام کیا جاتا ہے ۔ اس کے بجائے مسلمان سخت افرا تفری کا شکار ہیں ۔ ان کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں ۔ یہ بہت ہی بزدل اور مایوس قوم مانے جاتے ہیں ۔ ان کی اپنی کوئی پہچان نہیں ہے ۔ یہ سب سے کمزور قوم کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اپنی کمزور پوزیشن کے اسباب کو ماننے کے بجائے حیلے بہانوں سے کام لیتے ہیں ۔اپنی غلطیوں پر بڑی مہارت سے پردہ ڈالتے ہیں ۔ ترقی اور آگے بڑھنے کے لئے جو کچھ کرنا ہے اس سے منہ پھیر لیتے ہیں ۔ دوسری قوموں نے جوراستے اختیار کئے اور ترقی کی اونچی منزلوں تک پہنچے ان راستوں پر چلنے کے لئے تیار نہیں ۔ بحث و مباحثے خوب کرتے ہیں اور یہ ماننے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوتے کہ ان کی اپنی غلطیوں نے مسلمانوں کو زوال کی آخری حد تک پہنچایا ۔ یہ بات تو خوب جانتے ہیں کہ ایک زمانے میں مسلمان سائنس ، ٹکنالوجی ، حساب ، جغرافیہ ، میڈیکل ، فلسفے اور ایسے ہی دیگر علوم میں بہت آگے تھے ۔ ان مضامین پر خوب دسترس رکھنے والوں کو گناہ گار نہیں بلکہ اسلامی تاریخ کا بڑاسرمایہ سمجھتے ہیں ۔ البتہ آج ایسے راستوں پر چلنا اسلام دشمنی قرار دیتے ہیں ۔ ان راستوں کو جہنم کا راستہ بتاتے ہیں ۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسا کہہ کر اسلام کی اصل تعلیمات کو مسخ کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود خود کو عاشق رسول اور محافظ اسلام قرار دیتے ہیں ۔ یہ تعلیمات مسلمانوں کے اندر خوب اثر پاچکی ہیں ۔ زوال کا بڑا سبب یہی تعلیمات ہیں ۔ مسلمان عشق رسول ؐ کا دم تو بھرتے ہیں لیکن مسلمانوں کو زوال کی حالت سے نکالنے کے لئے تیار نہیں ۔ بلکہ اس زوال کو مزید آگے بڑھانے میں لگے ہیں ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سچا عاشق رسول مسلمانوں کی بیزاری کی حالت پر مطمئن ہو ۔ یہ لوگ بڑے آرام سے بیٹھے ہیں ۔ آرام دہ کرسیوں اور نرم بستروں پر بیٹھ کر اللہ کی تسبیح کرتے ہیں ۔ رسول اور آل رسول پر درود وسلام بھیجتے ہیں ۔ ایسا کرکے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے دین کی بڑی خدمت کی ۔ رسول ؐ کی خوشنودی حاصل کی ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ جب تک مسلمان بے کسی اور بے بسی کی زندگی گزارتے ہیں اور اس صورتحال سے نکلنے کو تیار نہیں ۔ کوئی عبادت ، کوئی تسبیح اور کوئی واویلا اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں وقعت نہیں رکھتا ۔ زبان سے بار بار اللہ کی حمد اور محمد کی محبت کا اعلان کرنا محض زبانی جمع تفریق ہے ۔ اس کا اصل اسلام اور عشق محمدی سے کوئی تعلق نہیں ۔ وہ لوگ جنہوں نے ایمان لایا اور اپنے پیغمبر سے سچے معنوں میں محبت کی وہ مسلمانوں کی بدحالی سے آنکھ نہیں چراتے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ رسول ؐ سے محبت اور عشق کا تقاضا یہی ہے کہ اس کی امت کو صحیح مقام دلایا جائے ۔ مسلمانوں کو بھیک کے ٹکڑوں پر پالنے کے بجائے انہیں مال دار بنایا جائے ۔ انہیں تعلیم کے میدان میں آگے بڑھایا جائے ۔ دنیا کی معیشت پر ان کا ہی کنٹرول ہونا چاہئے ۔ آسمان و امین کی وسعتوں پر ان کا ہی بول بالاہونا چاہئے ۔ یہی اصل عشق رسول ہے ۔ تنگ وتاریک کوٹھریوں یا نام نہاد مدرسوں کی چاردیواریوں کے اندر بیٹھ کر اپنے پیغمبر سے محبت کی جاسکتی ہے نہ عشق رسول کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے ۔ محمد کے امتی بھیک اور مانگے کے ٹکڑوں پر پلتے ہوں ۔ کوئی اندر صوفے اور گائو تکیوں سے ٹیک لگاکر دعویٰ کرے کہ وہ عاشق رسول ہے ۔ ایسا ہر گز نہیں ۔ یہ دھوکہ ہے اور دھوکے باز کبھی عاشق رسول نہیں ہوسکتے ۔ صحیح معنوں میں عاشق رسول وہی ہے جو امت اسلامیہ کو ترقی اور عروج کے مقام تک لے جائے ۔ یا کم از کم اس کے لئے کوشش کرے ۔
