• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
جمعہ, مئی ۹, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم جمعہ ایڈیشن

عشق مصطفیٰ: مسلمانوں کا دعویٰ اور حقیقت

Online Editor by Online Editor
2022-11-04
in جمعہ ایڈیشن
A A
عشق مصطفیٰ: مسلمانوں کا دعویٰ اور حقیقت
FacebookTwitterWhatsappEmail

تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ 
مسلمان اس وقت عجیب صورتحال سے دوچار ہیں ۔ ہر معاملے میں زوال کا شکار ہیں ۔ اس صورتحال کے لئے یہ خود کو نہیں بلکہ کسی نہ کسی بیرونی دشمن کا نام لیتے ہیں ۔ اتنا ہی نہیں کہ یہودیوں ، امریکی سازشوں اور دشمنوں کے ایجنٹوں کو اپنے زوال کا سبب بتاتے ہیں ۔ بلکہ انہیں دل سے یہی یقین ہے کہ اس زوال کا اصل سبب بیرونی سازشیں ہیں ۔ اس میں کسی حد تک صداقت بھی ہے ۔ لیکن سب کچھ اتنا ہی نہیں ہے ۔ بلکہ خود ان کا عمل بھی اس کی وجہ ہے ۔ دوسری جنگ عظیم کے میں بنائے گئے اتحاد نے ایک منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کو تتر بتر کیا ۔ ان کی اجتماعیت ختم کی گئی اور ان کی طاقت کو زائل کیا گیا ۔ یہ اس کا منطقی انجام تھا ۔ لیکن اصل زوال اس سے پہلے ہی شروع ہوچکا تھا ۔ مسلمانوں کے اندر انتشار بہت پہلے سے پایا جاتا تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ آنحصور ﷺ کے دنیا سے رخصت ہونے کے فوراََ بعد عصبیت اور قبائلی خون نے اپنا سر اٹھایا ۔ اس وقت تو کسی طرح سے اس پر قابو پایا گیا ۔ حضرت ابوبکر کی ذہانت اور حضرت عمر کے خوف نے کسی دوسرے کو کامیاب نہیں ہونے دیا ۔ لیکن ان دونوں کی وفات کے بعد عربوں کے اصل مزاج نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا ۔ حضرت عثمان غنی کی سادہ لوحی نے امت مسلمہ کی طاقت کو زائل کرنا شروع کیا ۔ یہاں تک کہ کئی گروہوں نے منظم ہوکر ان کا کام تمام کیا ۔ اس کے ساتھ ہی زوال کا آغاز ہوا ۔ یہاں تک کہ اسلام کی اصل روح یعنی خلافت کی جگہ ملوکیت نے لی ۔ خلافت کے بدلے ملوکیت کسی بیرونی سازش کا نتیجہ تھا نہ دشمنوں کا اس میں کوئی رول تھا ۔ پورا ماڈل رسول اللہؐ کے قریب ترین صحابہ کے ہاتھوں ترتیب پایا ۔ اس وقت اسرائیل کا کوئی وجودتھا نہ ہندوستان کا کہیں ذکر تھا۔ امریکہ سپر پاور تھا نہ یورپ کی منڈیوں نے دنیا پر اپنا غلبہ حاصل کیا تھا ۔ فوجی لحاظ سے مسلمانوں کا پلڑا اب بھی بھاری تھا ۔ معیشت پر ان کا سکہ بٹھایا گیا تھا ۔ معاشرتی اعتبار سے انہیں اعلیٰ رتبہ حاصل تھا ۔ لیکن اقتدار کی کش مکش جاری تھی ۔ یہاں تک کہ خاندان رسول کو اس پر قربان کرکے مسلمانوں کے اخلاقی زوال کا آغاز کیا گیا۔
دیکھا جائے تو مسلمان دنیا میں کثیر تعداد میںموجود ہیں ۔ اتنی تعداد میں ہونے کے باوجود انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ عالمی نقشے پر 56 مسلمان ملک موجود ہونے کے باوجود ان کی کوئی حیثیت نہیں ۔ یہودیوں کی صرف ایک چھوٹی سی سلطنت ہے ۔ ہندووں کا پوری دنیا میں صرف ایک ملک پایا جاتا ہے ۔ پارسی بس گنتی کے کچھ خاندان رہ گئے ہیں ۔ لیکن یہ سارے اقوام بڑی عزت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ ان کا اپنا ایک مقام اور رتبہ ہے ۔ ان کی الگ پہچان ہے ۔ دنیا میں ان کا نام ہے ۔ ان کا رعب داب ہے ۔ ان کی بڑی عزت کی جاتی ہے ۔ دنیا بھر میں ان کی بات اور ان کے خیال کا احترام کیا جاتا ہے ۔ اس کے بجائے مسلمان سخت افرا تفری کا شکار ہیں ۔ ان کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں ۔ یہ بہت ہی بزدل اور مایوس قوم مانے جاتے ہیں ۔ ان کی اپنی کوئی پہچان نہیں ہے ۔ یہ سب سے کمزور قوم کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اپنی کمزور پوزیشن کے اسباب کو ماننے کے بجائے حیلے بہانوں سے کام لیتے ہیں ۔اپنی غلطیوں پر بڑی مہارت سے پردہ ڈالتے ہیں ۔ ترقی اور آگے بڑھنے کے لئے جو کچھ کرنا ہے اس سے منہ پھیر لیتے ہیں ۔ دوسری قوموں نے جوراستے اختیار کئے اور ترقی کی اونچی منزلوں تک پہنچے ان راستوں پر چلنے کے لئے تیار نہیں ۔ بحث و مباحثے خوب کرتے ہیں اور یہ ماننے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوتے کہ ان کی اپنی غلطیوں نے مسلمانوں کو زوال کی آخری حد تک پہنچایا ۔ یہ بات تو خوب جانتے ہیں کہ ایک زمانے میں مسلمان سائنس ، ٹکنالوجی ، حساب ، جغرافیہ ، میڈیکل ، فلسفے اور ایسے ہی دیگر علوم میں بہت آگے تھے ۔ ان مضامین پر خوب دسترس رکھنے والوں کو گناہ گار نہیں بلکہ اسلامی تاریخ کا بڑاسرمایہ سمجھتے ہیں ۔ البتہ آج ایسے راستوں پر چلنا اسلام دشمنی قرار دیتے ہیں ۔ ان راستوں کو جہنم کا راستہ بتاتے ہیں ۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسا کہہ کر اسلام کی اصل تعلیمات کو مسخ کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود خود کو عاشق رسول اور محافظ اسلام قرار دیتے ہیں ۔ یہ تعلیمات مسلمانوں کے اندر خوب اثر پاچکی ہیں ۔ زوال کا بڑا سبب یہی تعلیمات ہیں ۔ مسلمان عشق رسول ؐ کا دم تو بھرتے ہیں لیکن مسلمانوں کو زوال کی حالت سے نکالنے کے لئے تیار نہیں ۔ بلکہ اس زوال کو مزید آگے بڑھانے میں لگے ہیں ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سچا عاشق رسول مسلمانوں کی بیزاری کی حالت پر مطمئن ہو ۔ یہ لوگ بڑے آرام سے بیٹھے ہیں ۔ آرام دہ کرسیوں اور نرم بستروں پر بیٹھ کر اللہ کی تسبیح کرتے ہیں ۔ رسول اور آل رسول پر درود وسلام بھیجتے ہیں ۔ ایسا کرکے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے دین کی بڑی خدمت کی ۔ رسول ؐ کی خوشنودی حاصل کی ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ جب تک مسلمان بے کسی اور بے بسی کی زندگی گزارتے ہیں اور اس صورتحال سے نکلنے کو تیار نہیں ۔ کوئی عبادت ، کوئی تسبیح اور کوئی واویلا اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں وقعت نہیں رکھتا ۔ زبان سے بار بار اللہ کی حمد اور محمد کی محبت کا اعلان کرنا محض زبانی جمع تفریق ہے ۔ اس کا اصل اسلام اور عشق محمدی سے کوئی تعلق نہیں ۔ وہ لوگ جنہوں نے ایمان لایا اور اپنے پیغمبر سے سچے معنوں میں محبت کی وہ مسلمانوں کی بدحالی سے آنکھ نہیں چراتے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ رسول ؐ سے محبت اور عشق کا تقاضا یہی ہے کہ اس کی امت کو صحیح مقام دلایا جائے ۔ مسلمانوں کو بھیک کے ٹکڑوں پر پالنے کے بجائے انہیں مال دار بنایا جائے ۔ انہیں تعلیم کے میدان میں آگے بڑھایا جائے ۔ دنیا کی معیشت پر ان کا ہی کنٹرول ہونا چاہئے ۔ آسمان و امین کی وسعتوں پر ان کا ہی بول بالاہونا چاہئے ۔ یہی اصل عشق رسول ہے ۔ تنگ وتاریک کوٹھریوں یا نام نہاد مدرسوں کی چاردیواریوں کے اندر بیٹھ کر اپنے پیغمبر سے محبت کی جاسکتی ہے نہ عشق رسول کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے ۔ محمد کے امتی بھیک اور مانگے کے ٹکڑوں پر پلتے ہوں ۔ کوئی اندر صوفے اور گائو تکیوں سے ٹیک لگاکر دعویٰ کرے کہ وہ عاشق رسول ہے ۔ ایسا ہر گز نہیں ۔ یہ دھوکہ ہے اور دھوکے باز کبھی عاشق رسول نہیں ہوسکتے ۔ صحیح معنوں میں عاشق رسول وہی ہے جو امت اسلامیہ کو ترقی اور عروج کے مقام تک لے جائے ۔ یا کم از کم اس کے لئے کوشش کرے ۔

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

زندگی میں مشکلیں انسان کا مقدر

Next Post

صلاحیتوں کا ارتقاء

Online Editor

Online Editor

Related Posts

معاشرتی بقا اَور استحکام کیلئے اخلاقی اقدار کو فروغ دیجئے

حسن سلوک کی جھلک

2024-12-20
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کی سونامی ! مرض کی دوا کیا؟

2024-12-20
انور شاہ کشمیری بھی مسلکی تصادم کا شکار

انور شاہ کشمیری بھی مسلکی تصادم کا شکار

2024-12-13
File Pic

روحِ کشمیر کا احیاء: تصوف کے ذریعے ہم آہنگی کا فروغ

2024-12-13
سرکاری عہدے داروں کا عمرہ۔۔۔۔کاش یہ رقم محتاجوں پر خرچ ہوتی

سرکاری عہدے داروں کا عمرہ۔۔۔۔کاش یہ رقم محتاجوں پر خرچ ہوتی

2024-11-29
ہاری پاری گام میں حضرت شیخ العالم ؒ (ھ842- ھ757) کا قیام

ہاری پاری گام میں حضرت شیخ العالم ؒ (ھ842- ھ757) کا قیام

2024-11-29
والدین سے حُسن سلوک کی تعلیم

2024-11-08
شیخ نورالدّین ولی کا مرتبہ اور مقام

شیخ نورالدّین ولی کا مرتبہ اور مقام

2024-11-01
Next Post
معشوق احمد: لفظوں کا ساحر

صلاحیتوں کا ارتقاء

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan