تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
منگل وار کو پورے ملک میں گورونانک کا 553 واں جنم دن منایا گیا ۔ اس موقعے پر گوردواروں میں کیرتھن اور دوسرے مذہبی پروگراموں کا اہتمام کیا گیا ۔ سکھ برادری نے پورے مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ یہ دن منایا ۔ ملک کے تمام گورداواروں میں تقریبات کا اہتمام کرنے کے علاوہ نانک جی کی جنم بھومی کرتار پور میں ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا گیا ۔ اس تقریب میں ہندوستان سے سفر پر گئے کئی سکھ جتھوں نے شرکت کی ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ گوروپورب کے حوالے سے سیاسی رہنمائوں نے نیک خواہشات اور خیر سگالی کے پیغامات جاری کئے ۔ وزیراعظم کے علاوہ دوسرے بہت سے لیڈروں نے گوردواروں میں جاکر وہاں جاری پروگراموں میں شرکت کی ۔ کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے اپنی ہندوستان جوڑو یاترا کے دوران ایک گوردوارے میں جاکر سکھوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ۔ دوسری چھوٹی سیاسی پارٹیوں نے بھی اس موقعے پر سکھ برادری کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا ۔ تاہم مسلمان لیڈروں کی طرف سے ایسی کسی سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا ۔
گورونانک کی سوانح سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایک صوفی منش بزرگ تھے ۔ سماج میں چھوت چھات کی وجہ سے پائی جانی والی صورتحال سے متنفر ہوکر انہوں نے اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کا اعلان کیا ۔ اس زمانے میں ہندومت کا سارا دائرہ کار چھوت چھات کے نظام تک محدود تھا ۔ برہمنوں کا ایک مختصر طبقہ پوری ہندو آبادی پر سوار ہوکر ان کا استحصال کرتا تھا ۔ سارا کام کاج دوسرے طبقات کرتے تھے اور برہمن بڑے آرام سے زندگی گزارتے تھے ۔ برہمنوں کے اس استحصال کو ختم کرنے کے لئے گورونانک نے بھگت کبیر اور دوسرے کئی مسلمان صوفیوں کے حلقے میں شامل ہوکر باضابطہ مہم چلائی ۔ ان کی یہ مہم کامیاب رہی ۔ تاہم برہمنوں نے اس کو برداشت کرنے سے انکار کیا ۔ گوروناک نے پنجاب سے نکل کر کشمیر ، لداخ ، نیپال اور دوسرے کئی علاقوں میں جاکر اپنی تعلیمات کا پرچار کیا ۔ ہر علاقے میں بعض لوگوں نے ان کی باتوں پر توجہ دی اور اس کے حلقہ اثر میں شامل ہوگئے ۔ گورونانک نے از خود سکھ مذہب کا کوئی اعلان نہ کیا ۔ البتہ اپنے پیروکاروں کے لئے کچھ مخصوص نشانیاں مقرر کیں ۔ جن میں سب سے اہم وندچکو کی رسم تھی ۔ ان کے زمانے تک ہر مذہبی گروہ کے اندر نذر ونیاز کے حقدار چند مخصوص گروہ سمجھے جاتے تھے ۔ خاص طور سے ہندووں کے اندر برہمن اور مسلمانوں کے اندر پیروں اور گدی نشینوں کو تمام تر خیرات کا حقدار سمجھا جاتا تھا ۔ اس زمانے میں گورونانک نے پہلی بار اس رسم وروایت کے خلاف عملی مہم شروع کی اور غریبوں کو اس کا اصل حقدار قرار دیا ۔ اس کے بعد ملک کی تمام اقوام نے گورونانک کی عزت کرنا شروع کیا ۔ یہاں تک کہ ان کی موت پر مبینہ طور ایک تنازع کھڑا ہوا ۔ مسلمان دعویٰ کررہے تھے کہ گوروجی کو دفن کیا جانا چاہئے جبکہ دوسرے لوگ اس کی آخری رسومات کے لئے اسے شمشان گھاٹ لینے کے حق میں تھے ۔ یہ تنازع آج تک برقرار ہے اور کئی حلقے یہ ماننے سے انکار کررہے ہیں کہ گورونانک نے کسی الگ مذہب کی تبلیغ شروع کی تھی ۔ ان کا کہنا ہے کہ گورونانک اصل میں ایک مسلمان صوفی تھے اور اسلام کے پیرو کار تھے ۔ سکھوں کی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب میں نانک جی کی تعلیمات کا جو حصہ پایا جاتا ہے اس میں اسلامی تعلیمات کی توصیف کرنے کے علاوہ پیغمبر اسلام کی تعریف میں کئی گوروبانیاںدرج ہیں ۔ قرآن پڑھنے اور نماز ادا کرنے پر زور دیا گیا ہے ۔ یہ ایسی تعلیمات ہیں جن کا سہارا لے کر مسلمان گورونانک کے مسلمان صوفی ہونے پر زور دے رہے ہیں ۔ بعد میں جب علامہ اقبال نے گورونانک کو پنجاب میں اسلامی توحید کا بڑا مبلغ قرار دیا تو اس سے ایک نئی سوچ نے جنم لیا ۔ اقبال چونکہ خود پنجابی کلچر سے واقف تھے ۔ پنجابی معاشرے سے ان کا خاص تعلق تھا اور آپ سکھوں کے رسم ورواج اور تعلیمات سے باخبر تھے ۔ نانک جی کے فلسفے سے آپ بہت متاثر تھے ۔ اس حوالے سے انہوں نے ایک مکمل نظم کہہ کر گورونانک کو خراج عقیدت پیش کیا ۔ لیکن تقسیم ملک نے اس سوچ کو بدل ڈالا اور سکھ اور مسلمان اچانک ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ۔ تاہم گورونانک کے حوالے سے کوئی تفریق نظر نہیں آئی ۔ ان کی تعظیم دونوں طبقے کرتے ہیں اور ان کی تعلیمات کا دونوں حلقوں میں احترام کیا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ جپ جی صاحب کا اردو میں ترجمہ کرنے والا ایک مسلمان فوجی آفیسر تھا ۔ان کے اس ترجمے کو ہر طبقے میں پسند کیا جارہاہے ۔ یہ سب حقایق اپنی جگہ ۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ مسلمان خاص کر مذہبی بنیاد پرست ایک بار پھر گورونانک سے لاتعلق ہورہے ہیں ۔ مسلمانوں کے اندر چونکہ دیوبندی فکر غالب آچکی ہے ۔ اگرچہ بریلوی سوچ کے لوگ آج بھی سب سے زیادہ تعداد میں پائے جاتے ہیں ۔ تاہم نئی نسل پر دیوبندی نظریات سرایت کرچکے ہیں ۔ ایسے نظریے میں صوفی فلسفے کی سرے سے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اس سوچ نے نوجوانوں کو پورے صوفی کلچر سے بدظن کیا ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اپنے صوفی بزرگوں کے ساتھ ساتھ گورونانک سے بھی لاتعلق ہوچکے ہیں ۔ کئی اعتبار سے یہ انتہائی نقصان دہ ہے ۔ مسلمانوں کو گورونانک کے حوالے سے اپنے خیالات میں لچک لاکر گوروپورب کو ایک مشترکہ تہوار بنانا چاہئے ۔ اس سے دونوں طبقوں کے درمیان دوریاں ختم ہونے کا امکان ہے ۔ یہ نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ ایک اعتدال پسند قوم کو سامنے لانے میں مددگار بن سکتا ہے ۔ گورونانک ایک عظیم مبلغ ہونے کے علاوہ بے غرض انسان بھی تھے ۔ انسانیت کی درد ان کی نس نس میں پائی جاتی تھی ۔ انہوں نے اپنے زمانے میں استحصال کے شکار طبقوں کے لئے جو خدمات انجام دیں وہ آج بھی قابل قدر ہیں ۔ اسی کا اثر ہے کہ سکھوں کے اندر خدمت خلق کا جذبہ آج بھی سب قوموں سے بڑھ کر پایا جاتا ہے ۔ جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے ۔ زلزلہ ہو سیلاب ، کورونا وبا ہویا بڑی طاقتوں کا کمزور طبقوں پر بمباری کے واقعات ہوں ۔ سکھ رضاکار سب سے پہلے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں ۔ اس کا سارا کریڈٹ گوروناک کی تعلیمات کو جاتا ہے ۔ اس کی تعظیم صرف سکھوں کے لئے لازم نہیں ۔ بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کی قدر کرنی چاہئے ۔ خاص کر مسلمانوں کو اس کی حمایت میں سامنے آنا چاہئے ۔ مسلمانوں کی ایسے موقعوں پر دوری ایک بڑا جرم ہے ۔
