تحریر:وسیم احمد خان اصلاحی
اسلام فرد کی تربیت کرنے کو پہلی ترجیح دیتا ہے ۔ جب تک ایک فرد اسلام کے سانچے میں نہ ڈالا جائے معاشرے کو بہتر نہیں بنایا جاسکتا ہے ۔ اسلام نے اجتماعی عبادات کے ساتھ تنہا عبادات کو بھی لازم بنایا ہے ۔ یہ بات صاف ہے کہ ایسی عبادات کا مقصد فرد کی تربیت اور اس کو صالح بنانا ہے ۔ صالح معاشرہ جب ہی وجود میں آسکتا ہے کہ اس معاشرے کے افراد صالح ہوں ۔ اسلام جس نظام کو رائج کرنا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ فرد اور خاندان اس نظام کی بنیادوں سے واقف ہوں ۔ محض واقفیت کافی نہیں بلکہ اس کو ذاتی زندگی کا حصہ بنانے کے لئے تیار ہوں ۔ اسلام ایک مضبوط اخلاقی ، روحانی ، معاشی اور معاشرتی نظام کی تبلیغ کرتا ہے ۔ ایسے نظام کی ترویج سے پہلے ایک فرد کو اللہ کا بندہ بنانے بلکہ نیک بندہ بنانے پر زور دیتا ہے ۔ کوئی بھی معاشرہ ہو اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا ہے جب تک اس کے افراد اس کے تئیں مخلص نہ ہوں ۔ دنیا میں جو بھی نظریے اور نظام رائج ہوئے اسی وقت تک قائم رہ پائے جب تک لوگ انفرادی سطح پر اس کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے رہے ۔ یورپ ، ایشیا اور افریقہ میں پچھلی کئی صدیوں کے دور مختلف انقلاب آئے ۔ نظام بدلے گئے ۔ یہ جب ہی ممکن ہوا کہ لوگ اس کے کواہش مند تھے ۔ کئی سالوں اور دہائیوں تک قائم رہنے کے بعد یہ نظام اس وقت گر کر تباہ ہوگئے جب لوگ ان کے ساتھ محبت کرنے سے احتراز کرتے گئے ۔ اس کے بجائے کئی مذاہب صدیوں سے محفوظ ہیں ۔ کیونکہ لوگ انفرادی سطح پر ان سے قرب اور عقیدت رکھتے ہیں ۔ کئی مذاہب ایسے ہیں جو عقل اور سوچ سے ماورا ہیں ۔ انسانی عقل ان کے ساتھ میل نہیں کھاتی ۔ اس کے باوجود لوگ ان سے جڑے ہیں اور ایسے مذاہب کے پیرو کار سختی سے ان پر کاربند ہیں ۔ یہ جب ہی ممکن ہے کہ ایک فرد کی پیدائش سے لے کر بڑھاپے تک اس کے دائرے کے اندر تربیت ہوئی ہے ۔ فرد کسی نظریے سے جڑ جائے اور اس کو پوری طرح سے قبول کرے تو اس سے الگ ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔ اسلام نے اسی حوالے سے فرد کی تربیت کرنے پر زور دیا ہے ۔ جس زمانے میں بھی ایک فرد کی تربیت کو چھوڑ کر سماج کے اندر انقلاب لانے کی کوشش کی گئی ایسی کوشش دیرپا اور نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی ۔ صوفیا کے لئے یہ بات سب سے مقدم تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی ان کی مخاصمت پر تیار ہوا نہ ان کا راستہ روکا جاسکا ۔ اسلام کو مضبوط کرنے کے لئے ان کی واحد کوشش فرد کی تربیت ہوتی تھی ۔ یہ لوگ اپنے مریدوں کو ذاتی محاسبے پر آمادہ کرتے تھے ۔ محاسبہ زور زبردستی کا عمل نہیں بلکہ ذاتی رغبت کا مادہ ہے ۔ ایسا مادہ پیدا ہوجائے تو فرد کی زندگی بدل جاتی ہے ۔ ایک فرد کی زندگی بدل جائے تو معاشرے کی تبدیلی میں دیر نہیں لگتی ۔
وہی معاشرہ مضبوط قرار دیا جاسکتا ہے جس کے اندر سکون اور اطمینان پایا جاتا ہو ۔ ایسے صحت مند معاشرے کے لئے ضروری ہے کہ ہر کوئی اپنا محاسبہ کرے اور دیکھے کہ اس کا رول کیا ہے ۔ ایک فرد معاشرے کے اندر اپنا رول ادا کرنے سے الگ ہوجائے تو معاشرہ خود بہ خود زوال کا شکار ہوجاتا ہے ۔ ایسے معاشرے زیادہ دیر کے لئے قائم نہیں رہ پاتے ہیں ۔ مسلم معاشرے کے لئے یہ بنیادی ضرورت قرار دی گئی ہے ک اس کے افراد عبادت گزار ہونے کے ساتھ متحرک اور مضبوط ہوں ۔ ایسا جب ہی ممکن ہے کہ ہر فرد اپنے آپ پر نظر ڈالے اور اس چیز کا تجزیہ کرے کہ وہ کس حیثیت کا مالک ہے ۔ اس کی ذات اسلام کے سانچے میں ڈھل جائے تو دوسروں کے لئے پر کشش بن پائے گی ۔ ایسا نہ ہوتو دوسریا س سے نفرت کرنے لگیں گے ۔ کسی مسلمان کے ساتھ نفرت اسلام سے دوری کی وجہ بن جاتی ہے ۔ اسلام کسی مسلمان کی ذات پر کشش نہ بناسکے تو دوسروں کو اپنی طرف راغب نہیں کرسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو کھانے پینے کے آداب سکھائے ہیں ۔ اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے کا طریقہ سمجھایا ہے ۔ کمائی کے ذرایع سمجھائے ہیں ۔ ظلم سے دور رہنے اور مضلوم سے ہمدردی رکھنے کی تغیب دی ہے ۔ دوسروں پر خرچ کرنے کو عبادت قرار دیا ہے ۔ ایسا ایک فرد سے شروع ہوکر پورے معاشرے تک پھیلا دیا گیا ہے ۔ لیکن اصل ٹارگٹ فرد کو بنایا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے نبوت کے تئیس سال اپنے صحاب کی تربیت میں گزارے ۔ ایک لمحے کو بھی اس کام سے اجتناب نہیں کیا ۔ امن کا ماحول ہو یا جنگ کے حالات ہوں ۔ ہر طرح کے حالات میں صحابہ کی تربیت پر توجہ مبذول رہی ۔ مدینے کے اندر مضبوط سٹیٹ قائم ہونے کے بعد یہ فکر کرتے رہے کہ صحابہ کی ذاتی زندگی زوال کی شکارنہ ہوجائے ۔ پھر نبی ؐ کے دنیا سے چلے جانے اور اصحاب رسول ؐ کا زمانہ گزرنے کے ساتھ فرد کی تربیت میں کمی آنے لگی ۔ یہاں تک کہ مال وزر کے انبار لگ گئے ۔ ذاتی تربیت سے ہاتھ کھینچ گیا تو اجتماعی زندگی کے رنگ میں بھنگ پڑگیا ۔ پھر وہ تمام برائیاں لوٹ کر آئیں جن کو اسلام کے ظہور نے پائوں تلے روند دیا تھا ۔ اس کی ایک ہی وجہ رہی کہ ذاتی زندگی تربیت سے خالی کردی گئی ۔ وہ لوگ نہ رہے جو خود صالح تھے اور دوسروں کو صالح بننے کا مشورہ دیتے تھے ۔ وہ اپنا محاسبہ کرتے تھے اور دوسروں کو محاسبہ کرنے پر آمادہ کرتے تھے ۔ ان کا ایک ہی نعرہ تھا کہ اپنا محاسبہ کرلو اس سے پہلے کہ آپ کا محاسبہ کیا جائے ۔