• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
ہفتہ, مئی ۱۰, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم

لداخ میں اردوکا روشن مینار۔۔۔۔

Online Editor by Online Editor
2022-09-25
in ادب نامہ, مضامین
A A
لداخ میں اردوکا روشن مینار۔۔۔۔
FacebookTwitterWhatsappEmail
تحریر:سبزار احمد بٹ

آج تک اردو دنیا میں جتنے بھی ادیب قلمکار، تواریخ دان، افسانہ نگار اور ناول نگار پیدا ہوئے ہیں ان میں عبدالغنی شیخ لداخی کا نام سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل یے عبدالغنی شیخ 5 مارچ 1936 میں لہہ(لداخ) میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے لداخ ایک دوردراز علاقہ ہے جو 2019 تک جموں وکشمیر کا حصہ ہوا کرتا تھا اور اب ایک الگ مرکزی زیر انتظام خطہ ہے یہ ایک الگ تھلگ علاقہ ہے جو سال کے تقریباً چھے مہینے باقی ملک سے کٹ کے رہتا ہے لداخ کی اپنی ایک تہذیب، تواریخ، ثقافت اور پہچان ہے لداخ کے اس سپوت عبدالغنی شیخ کو لکھنے پڑھنے کا شوق بچپن سے ہی تھا ان کی پہلی تحریر ماہنامہ "پیامِ تعلیم ” میں چھپ گئی ادبی شغف کے علاوہ اداکاری اور کھیل کود میں بھی کافی دلچسپی رکھتے تھے ۔موصوف کو کہانیاں لکھنا بھی اچھا لگتا تھا طالب علمی کے زمانے میں ہی "لوسر اور آنسو ‘ آرزوئیں ‘ اور نوری” جیسی کہانیاں لکھیں عبدالغنی شیخ نے کچھ عرصہ ریڈیو اور ٹی وی پر بھی پروگرام پیش کئے عبدالغنی شیخ نے لداخ کی تواریخ کو محفوظ کرنے میں اپنا اہم کردار نبھایا ہے ۔ لداخ کی تاریخ اور تجارتی اہمیت پر بات کرتے ہوئے عبدالغنی شیخ رقمطراز ہیں کہ ” نہر سویز کے لیے پورٹ جعید جتنی اہمیت رکھتا ہے اتنی اہمیت لہہ بھی وسط ایشیا کی تجارت راستوں کے لیے رکھتا ہے ” عبدالغنی شیخ کا مزید ماننا ہے کہ تجارتی تبادلوں سے لداخ کی تہذیب کی بنیادی نہ ہل سکیں لیکن مغربی تعلیم نے لداخ کی تہذیبوں کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔یاد رہے کہ عبدالغنی شیخ ایک مورخ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب ادیب اور افسانہ نگار بھی ہیں ان کے ابھی تک چار افسانوں مجموعی منظر عام پر آ چکے ہیں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ "زوجیلا کے آرپار”1970 میں شائع ہوا اس افسانوی مجموعے میں ان کے دس افسانے شامل ہیں اس افسانوی مجموعے میں زوجیلا کے پہاڑوں میں رہنے والے لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے اور پانچ کہانیوں میں ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والے لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ "دوراہا” ہے جو 1993 میں منظر عام پر آیا ہے اس میں تیئیس افسانے شامل ہیں۔اس افسانوی مجموعے کو کافی سراہا گیا اور اس پر تبصرے بھی کئے گئے ہیں عبدالغنی شیخ نے اپنے افسانوں میں عام اور بظاہر معمولی دکھائی دینے والے واقعات کو بہت خوبصورتی کے ساتھ کہانی کا روپ دیا ہے۔کسی کسی موقع پر تو واقعات کو جوں کا توں پیش کیا ہے اور ان پر حقیقت کا گماں ہوتا ہے forsaking peradise عبدالغنی شیخ کا تیسرا افسانوی مجموعہ ہے جو سال 2001 میں شائع ہوا ہے دراصل یہ اردو اور لداخی زبان میں لکھے گئے بارہ افسانوں کا انگریزی ترجمہ ہے جو امریکہ کی ایک خاتون نے کیا ہے عبدالغنی شیخ نے اگر چہ اپنے افسانوں میں نصیحت کا پہلو نہیں اپنایا ہے تاہم انہیں انسانی اقدار جیسے محبت، انسان دوستی، ہمدردی اور ایثار پر پورا بھروسہ ہے جو ان کے افسانوں میں خوب جھلکتا ہےان کا چوتھا افسانوی مجموعہ 2015 میں” دو ملک ایک کہانی” نام سے شائع ہوا اس افسانوی مجموعے میں 45 افسانے شامل ییں جن میں لوگوں کے روزمرہ کے مسائل کے ساتھ ساتھ چند افسانے طنز و مزاح پر بھی لکھے گئے ہیں عبدالغنی شیخ نے اپنے افسانوں میں اخلاقی قدریں، سماجی نابرابری، طبقاتی کشمکش، رشوت خوری جیسے موضوعات کو پیش کیا ہے عبدالغنی شیخ کی افسانہ نگاری کو دیکھ کر اگر یوں کہا جائے کہ انہوں نے لداخ میں افسانہ نگاری کی جوت کو جلائے رکھا ہے تو بیجا نہ ہوگا عبدالغنی شیخ کی افسانہ نگاری پر بات کرتے ہوئے راشد سیسوامی رقمطراز ہیں کہ
"بعض مقامات پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے چشم دید واقعات کو من و عن تحریر کی شکل دی ہے لیکن ایسی تحریروں میں بھی اخبارات کی رپورٹ کا رنگ نہیں ہوتا ” عبدالغنی شیخ کے مختلف افسانوں پر تجزیاتی جائزہ بھی لیا گیا ہے عرفان عالم اس حوالے سے لکھتے ہیں "دو ملک ایک کہانی رشتوں اور ورثے کی تقسیم کا المیہ، 1947 کی ہجرت کے دوران مہاجرین نے اکثر و بیشتر بڑے شہروں میں مکمل سکونت اختیار کی ۔ان کے افسانے جہاندیدہ کا تجزیاتی جائزہ ڈاکٹر الطاف انجم نے لیا ہے جبکہ عرفان عالم نے ان کے ایک اور افسانے دو ملک ایک کہانی کا ہجرت کے اضطراب کا کلامیہ کے نام سے تجزیاتی جائزہ لیا ہے موصوف نے اس افسانے کی تلنیکی ہیت پر بھی بات کی ہے ۔انہوں نے سفر نامے بھی تخلیق کئے ہیں "سفر نامہ روم و استنبول” اور سفر نامہ انگلستان اور برازیل ” عبدالغنی شیخ کے مشہور سفرنامے ہیں. عبدالغنی شیخ کو دنیا کے مختلف ممالک میں منعقد ہونے والے سمناروں میں شرکت کا موقع ملا ہے جہاں انہوں نے مختلف موضوعات پر تقاریر اور اپنے مضامین پڑھ کر اپنا لوہا منوایا ہے ۔موصوف نے سات قسطوں پر مشتمل ‘”انجام ” نام کا ڈرامہ بھی تخلیق کیا ہے اس ڈرامے کے ہر منظر کا جائے وقوعہ لداخ ہی ہے اور اس پورے ڈرامے میں لداخ کا روایتی ماحول دکھانے کی بہترین کوشش کی گئی ہے۔عبدالغنی شیخ کے نام ادبی دنیا کی مشہور ہستیوں نے خطوط بھی لکھے ہیں اور مضامین بھی ان پر لکھے گئے ہیں خطوط لکھنے والوں میں شمیم طارق، ایم عالم، عظیم الدین عظیم، ٹی این راز، حسن ساہو اور عشاق کشتواڑی جیسے لوگ شامل ہیں ٹی این راز عبدالغنی شیخ کو لکھے گئے خط میں رقمطراز ہیں کہ
"مکرمی شیخ صاحب
آجکل میں قلم، قلمکار اور کتاب نامی مقالہ پڑھ کر آپ کا قلم چومنے کو جی چاہتا ہے واقعی قابل صد ستائش و تحسین ہے”جبکہ ڈاکٹر شہاب للت اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ "اداکار” آپ کی حقیقت نگاری پر دال ہے یہی دیکھ کر حد درجہ طمانیت ہوئیکہ آپ ابھی تک سرگرم تخلیق ہیں ورنہ عمر کی تیکھی ڈھلان پر آگر کر پڑھنے لکھنے سے تعلق رفتہ رفتہ کم ہوتا جاتا ہے ۔” ایسے درجنوں خطوط ہیں جن میں ادب کے شائقین نے عبدالغنی شیخ کے کام کو سراہا ہے ۔عبدالغنی شیخ کی تصانیف پر نہ صرف مضامین تبصرے لکھے گئے ہیں بلکہ ان کی شخصیت پر مضامین بھی قلمبند کئے گئے ہیں ان پر مضامین تحریر کرنے والوں میں محمد یوسف ٹینگ، راشد عزیز، گلشن آرا، پریمی رومانی، قدوس جاوید، دیپک بدکی،بلراج بخشی، مشتاق احمد وانی، نور شاہ اور آفاق عزیز کے علاوہ بہت سارے لوگوں نے لکھا ہے۔معزرت کے ساتھ عرض کرنا چاہوں گا کہ ان سبھی لوگوں کے نام لینا ممکن نہیں ہے ۔عبدالغنی شیخ نے "صنم نربو” نام کی سوانح حیات بھی تحریر کی ہے یہ سوانح عمری انہوں نے لداخ کے ایک انجینئر صنم نربو کی شخصیت سے متاثر ہو کر لکھی مزکورہ سوانح متاثر کن اور سبق آموز سوانح ہے جو قاری کو ایک سچے،دیانتدار اور ایماندار شخص سے متعارف کراتا ہے عبدالغنی شیخ کی سوانح نگاری پر جواد جالب امینی نے ایک مدلل مضمون بھی تحریر کیا ہے ۔عبدالغنی شیخ کے قلم سے بہترین مضامین بھی نکلے ہیں ان کے چند مشہور مضامین یوں ہیں۔دنیا کے پچاس مشہور ترین ناول، لداخ کا جغرافیائی محل وقوع، تبت میں آباد کشمیری مسلم اسرارالحق مجاز ،لداخ کے بعض عقائد و اوہام وغیرہ دیکھا جائے تو عبدالغنی شیخ نے نثر کی تقریباً تمام اصناف میں طبع آزمائی کی ہے وہ ناول نگاری میں بھی پیچھے نہیں رہے انہوں نے 1977 میں "وہ زمانہ” اور 1978 میں "دل ہی تو ہے”نام کے بہترین ناولیں شائع کی ہیں ناول "وہ زمانہ” کو کشمیر مرکنٹائل سرینگر نے شائع کیا مزکورہ ناول ایک تواریخی ناول ہے جس میں لداخ کی تاریخ کو الفاظ کا جامہ پہنایا گیا ہے” دل ہی تو ہے” ناول کو بھی کشمیر مرکنٹائل سرینگر سے شائع کیا اس ناول کو 1980 میں کلچرل اکادمی جموں وکشمیر کی جانب سے بہترین کتاب کے اعزاز سے نوازہ گیا ہے یہ ایک رومانی ناول ہے جس میں حسن وعشق کی داستان پیش ہوئی ہے "وہ زمانہ” ناول سے ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ عبدالغنی شیخ کو ناول نگاری پر مکمل گرفت حاصل تھی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے تاریخ جیسے مشکل موضوع کو ناول کا جامہ پہنایا ہے ناول "وہ زمانہ "پر جان محمد آزاد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
۔”۔اسی دوران آپ کا ناولٹ وہ زمانہ شائع ہوا جس میں 1947 سے پہلے کے لداخ کی معاشرتی، ثقافتی، اور مجلسیی زندگی اور اس کے بعد ہونے والی تبدیلیوں کو جزئیات، مزاحیہ اور دلکش پیرائے میں پیش کیا گیا ہے ”
موصوف کی ایک اور کتاب ” اسلام اور سائنس ” 2009 میں شائع ہوئی ۔جس کی پانچ سو کاپیاں ہاتھوں ہاتھ بک گئیں ان کی ایک کتاب” قلم قلمکار اور کتاب” کو مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات نے شائع کیا یے جبکہ ان کی ایک اور کتاب” لداخ محققوں اور سیاحوں کی نظر میں "کو نیشنل بک ٹرسٹ نے شائع کیا ہے اس کتاب میں عبدالغنی شیخ نے لداخ کے تاریخی جھروکے، علاقائی خصوصیات، آبادی کھیت، آثارِ قدیمہ، عبادت گاہوں اور حکومتوں کے بارے میں تفصیل سے بات ہوئی ہے لداخ میں پائی جانے والی جڑی بوٹیوں اور ان کے طبی فوائد پر بھی بات کی گئی ہے دیکھا جائے تو عبدالغنی شیخ ایک درجن سے ذائد کتابوں کے مصنف ہیں ایک دوردراز اور پسماندہ علاقے میں رہنے کے باوجود انہوں نے اردو کی جو خدمت کی ہے وہ قابل سرہانہ ہے۔ ان کی چند تحریرات جیسے ’’ کتابوں کی دنیا ‘‘ اور ’’لداخ کی سیر ‘‘ کو ریاستی حکومت نے 1979ء میں منعقدہ بچوں کے بین الاقوامی صد سالہ میلے میں ایوارڈ سے نوازا۔ان کی لکھی گئی کہانی” دادی اماں” کو جموں وکشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن نے انگریزی میں ترجمہ کر کے دسویں کے نصابی میں شامل کیا جبکہ ان کے ایک بہترین اور معلوماتی مضمون "سلک روٹ” کو گیارہویں کے اردو نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔مہاراشٹر سرکار نے بھی ان کی تحریروں کو نصاب کا حصہ بنایا ہے انگریزی سے ترجمہ کی ہوئی ایک کہانی "آوی لے” کو بھی ریاستی سکول بورڈ آف ایجوکیشن نے دسویں کے نصاب میں شامل کیا گاندھی جی کی حیات اور فلسفہ پر لکھی گئی ان کی تحریر کو بھی انعام سے نوازہ گیا ہے لداخ کے تہزیب و تمدن پر عبدالغنی شیخ نے "لداخ تہزیب و ثقافت "نام کی ایک تصنیف بھی تخلیق کی ہے جسے کریسنٹ پبلیکیشن جموں نے شائع کیا اس کے علاوہ لداخ، محققوں اور غیر ملکی سیاحوں کی نظر میں، Reflection on ladakh, Tibet and central Asia اور لداخ کی تاریخ کے اہم گوشے ایسی تصانیف ہیں جو عبدالغنی شیخ نے لدا خ کے موضوع پر لکھی ہیں لداخ تہذیب و ثقافت کو عبدالغنی شیخ کا شہکار مانا جاتا ہے اس کتاب کو مکمل کرنے کے لیے موصوف کو عرق ریزی کا سامنا کرنا پڑھا اس بارے میں عبدالغنی شیخ خوف لکھتے ہیں۔
"یہ اردو میں لداخ پر اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جو میرے پنتالیس سال کی تحقیق اور ریاضت کا ثمرہ ہے اس میں لداخ کی تاریخ، ثقافت، تمدن، یادگاروں، اہم مقامات، مذاہب، شخصیات، لوک ادب، زبان اور جنگلی جانوروں کے بارے میں روشنی ڈالی گئی ہے "لداخ کی تارکے اہم گوشے” عبدالغنی شیخ کے تحقیقی مضامین کا ایک مجموعہ ہے راشد عزیر اس کتاب کو جدید دور کی ویڈیو ریلوں سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کتاب کو لداخ کا قاموس قرار دیتے ہیں اس کتاب میں لداخ کی جعغرافیائی کیفیتوں اور تاریخ پر تفصیل سے بات ہوئی ہے "عبدالغنی شیخ کا طرز و تحریر سہل اور عام فہم ہے وہ زندگی کے گوناگوں تجربوں اپنی کہانیوں کے موضوع چن لیتے ہیں اور وہ معمولی چیز یا واقعہ ست شہ پاکر اس کے ارد گرد اپنی کہانی کے تانے بانے بنتے ہیں ان باتوں کا اظہار کاچواسفندیار خان نے عبدالغنی شیخ کے بارے میں "شیخ صاحب سے میری شناسائی ” نامی مضمون میں کیا ہے
عبدالغنی شیخ کا کلام اگر چہ اردو میں ہے تاہم ان کا بیشتر کلام انگریزی، ہندی، ملیالم ،کشمیری بنگالی گجراتی اور تیلگو زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔جس سے انہیں بہت زیادہ شہرت ملی ہے بہت کم ایسے ادیب اور قلمکار ہیں جنہیں جیتے جی اتنی شہرت ملی ہے جتنی عبدالغنی شیخ لداخی کو ملی۔عبدالغنی شیخ کی چند کہانیاں ریاست سے باہر کے معتبر رسالوں جیسے” بانو” اور "شمع” میں بھی شائع ہوئی” ان دنوں شمع میں چھپنا آسان نہیں تھا میری ایک کہانی بلا عنوان شائع ہوئی تو رسالے کے مدیر یونس دہلوی نے مجھے خط لکھا کہ آپ کی کہانی کو بہت زیادہ پسند کیا گیا ہے تقریباً چھ ہزار قارئین نے عنوان ارسال کئے ہیں ان باتوں کا اظہار عبدالغنی شیخ نے خود سلیم سالک کے ساتھ دئے گئے ایک انٹریو میں کیا۔مزکورہ انٹریو "گفتگو بند نہ ہو” کے عنوان سے شائع ہوا ہے عبدالغنی شیخ کی شخصیت کے بارے میں بہت سارے ادیبوں اور معتبر قلمکاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کی ہے جن میں راشد سہسوامی، علی باقر، اسداللہ وانی، وحشی سعد اور ابرار رحمانی جیسے لوگ سر فہرست ہیں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عبدالغنی شیخ کے ادبی کارناموں کو ایک چھوٹے سے میں مضمون میں قلمبند کرنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔لیکن یہ چند حروف لکھ کر میں اپنے حصے کا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اللہ کرے کہ ان کا سایہ اردو ادب پر تادیر بنا رہے کیونکہ اردو دنیا کو ایسے سپوتوں کی ابھی ضرورت ہے (آمین) عبدالغنی شیخ کے ادبی کارناموں کو دیکھ کر بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

روایاتِ خسروی کا منظرنامہ اورحضرت خواجہ حسن نظامیؒ

Next Post

چانہِ انمانہ آفتاب پکو۔ سید امین تابش کی کتاب

Online Editor

Online Editor

Related Posts

سوامتو پراپرٹی کارڈ:  دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

سوامتو پراپرٹی کارڈ: دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

2024-12-27
خالد

آخری ملاقات

2024-12-22
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
’’میر تقی میر‘‘ لہجے کے رنگ

میر تقی میر کی سوانح حیات ”ذکر میر“ کا فکری اور تاریخی جائزہ

2024-11-17
ونود کھنہ: پشاور سے بمبئی تک

ونود کھنہ: پشاور سے بمبئی تک

2024-11-17
کتاب کا جائزہ: شہلا رشید کی -رول ماڈلز

کتاب کا جائزہ: شہلا رشید کی -رول ماڈلز

2024-11-13
روشنیوں کا تہوار، اردو شاعری کی نظر میں

روشنیوں کا تہوار، اردو شاعری کی نظر میں

2024-11-03
ادبی چوریاں اور ادبی جعل سازیاں

ادب ، نقاد اور عہدِجنگ میں ادبی نقاد کا رول

2024-11-03
Next Post
معشوق احمد: لفظوں کا ساحر

چانہِ انمانہ آفتاب پکو۔ سید امین تابش کی کتاب

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan