پہلے شادی کے نام پر بیچا اور پھر چند ماہ بعد شوہر کے ہاتھوں ہی جسم فروشی کے بازارمیں دھکیل دی گئی 26 سالہ رادھا (نام بدلا ہوا) اپنی 9 سالہ بیٹی کے حیاتیاتی باپ کے بارے میں نہیں جانتی ہے۔اسے نہیں معلوم کہ اس کے جسم کو نوچنے والے کس درندے کی وہ نشانی ہے۔ ارریہ (بہار کا ایک انتہائی پسماندہ ضلع) سے تقریباً 1200 کلومیٹر دور آگرہ کے ایک نامعلوم کوٹھے پر اسے اس کے شوہر مکیش شرما نے چند روپوں کے لالچ میں بیچ دیاتھا۔ مکیش اتر پردیش کا رہنے والا تھا۔ اس نے شادی کے نام پر پہلے رادھا کو خریدا اور پھر اسے کوٹھے پر بیچ دیا۔وہ کھیت میں مزدوری کرنے والی پاروتی دیوی کی دوسرے نمبر کی بیٹی ہے۔ رادھا کہتی ہیں، ‘ ‘جب میں آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھی، میرے والد کا انتقال ہو گیا۔ ایک دن پانچ لوگ کارسے ہمارے گھر آئے اور اسی شام گھر کے قریب مندر میں میری شادی کر دی گئی۔ وہ لوگ اسی رات مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ شادی کے 6 ماہ تک مجھے ٹھیک سے رکھا لیکن پھرمارپیٹ کا سلسلہ شروع ہو گیا اور پھر ایک دن اس نے مجھے آگرہ کے کوٹھے پر بیچ دیا۔
ادھا ایک سال تک وہاں رہی۔ اس کے بعد وہ کوٹھے کے قریب ہی چائے بنانے والی ایک بوڑھی دادی کی مدد سے بھاکر ارریہ اپنی ماں کے پاس آگئی۔وہ بتاتی ہے کہ ”کسی طرح وہ پتہ پوچھ کر اپنی ماں کے گھر پہنچی۔ اس دوران اس نے بھیک بھی مانگی۔وہ بتاتی ہے کہ یہاں آکر مجھے معلوم ہوا کہ میں دو ماہ کی حاملہ ہوں۔ وہ کہتی ہے کہ میں نے اپنی بچی کو پیٹ میں نہیں مارا۔ اب میں ایک چھوٹی سی دکان سے کچھ پیسے کماتی ہوں اور اپنی بیٹی کو پڑھاتی ہوں۔ لیکن میرے بھائی اور بھابھی مجھے مارتے ہیں اور گھر چھوڑنے کو کہتے ہیں۔“ رادھا، جو خود کو محلے کے شوہدوں سے بچانے کے لیے سندور لگاتی ہے، اب 40 سال کی ہو چکی ہے۔
رادھا کے ساتھ جو کچھ ہوا اسے علمی زبان میں ‘دلہن کی اسمگلنگ’ کہا جاتا ہے، جبکہ مقامی لوگ اسے ‘دلال والی شادی’ کہتے ہیں۔ دلہن کی اسمگلنگ کا مطلب ہے شادی کے نام پر لڑکی کی اسمگلنگ کرنا۔ بھارت کی شمال مشرقی ریاست بہار میں دلہن کی اسمگلنگ یعنی شادی کے جھوٹے واقعات عام ہیں۔ اس طرح کی کہانیاں خاص طور پر مغربی بنگال سے ملحقہ سیمانچل اضلاع کے دیہی علاقوں یعنی کشن گنج، ارریہ، کٹیہار اور پورنیہ میں عام ہیں۔ جہاں تقریباً ہر سال سیلاب جیسی قدرتی آفات کی وجہ سے لوگوں کی زندگیوں میں غربت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلتاہے۔ نیتی آیوگ کی 2021-22 کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہار کی آبادی کا 51.91 فیصد یعنی اس کی نصف سے زیادہ آبادی ملٹی پاورٹی انڈیکس (MPI) کے زمرے میں ہے۔ یہ ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ دوسری طرف بہار اکنامک سروے 2021-22 میں ریاست کے اندر موجود تفاوت کے مطابق سیمانچل کے ارریہ اور کشن گنج اضلاع کی حالت سب سے خراب ہے۔ اس غربت سے نکلنے کی زیادہ تر ‘ناکام’ کوشش میں والدین اپنی بیٹیوں کو شادی کے نام پر چند ہزار روپے میں بیچ دیتے ہیں۔ کبھی یہ سودا پانچ ہزار تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی تیس سے چالیس ہزار تک۔
گزشتہ دو دہائیوں سے ‘بھومیکا وہار’ نام کی ایک تنظیم اس علاقے میں دلہن کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس حوالے سے تنظیم کی سربراہ شلپی سنگھ کا کہنا ہے کہ ایسے معاملات میں زیادہ تر جاننے والے یا قریبی رشتہ دار دلالی کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے علاقے میں معاشی طور پر کمزور خاندانوں پر نظر رکھتے ہیں اور جب خاندان میں کوئی مشکل ہوتی ہے تو وہ لڑکی کے والدین یا کسی رشتہ دار کو پیسے کا لالچ دے کر دوسری ریاست کے آدمی سے شادی کروا دیتے ہیں۔ لڑکیوں کے والدین کو چند ہزار روپے دے کر شادی کی تقریب چھپ چھپ کر کی جاتی ہے۔ ان شادیوں کا کوئی عوامی جشن نہیں منایا جاتا۔ اکثر والدین یا رشتہ داروں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کی بیٹی کی شادی کہاں ہو رہی ہے؟لڑکے کی آمدنی حقیقت میں کیا اور کتنی ہے؟سال 2016-17 میں تنظیم نے ارریہ اور کٹیہار میں دس ہزار خاندانوں کے سروے میں ایسے 142 معاملے پائے تھے۔ اس میں سب سے زیادہ شادیاں اتر پردیش میں ہوئیں، اس کے بعد ہریانہ، راجستھان، دہلی اور پنجاب کا نمبر آتا ہے۔
ان شادیوں میں کچھ خوش نصیب لڑکیاں بھاگ کر اپنے گھر واپس آگئیں، جب کہ کچھ پر ‘لاپتہ’ کا لیبل لگایا جاتا ہے۔ 35 سالہ شیاما (نام بدلا ہوا) ان خوش نصیب لڑکیوں میں سے ایک ہے۔ وہ اپنے تین بچوں کے ساتھ اپنے والدین کے گھر واپس بھاگ کر آگئی ہے۔ لیکن اس کی اس ‘خوش کسمتی’ میں ایک بہت مشکل اور تھکا دینے والی زندگی بھی شامل ہے۔اسے مزدور کے طور پر کام کرنے کے لیے روزانہ صبح 7 بجے سے فارم پہنچنا پڑتا ہے۔ کھیتوں میں محنت مزدوری کرنے کے بعد شام کو اس کی جگہ اس کے گاؤں کا چوک بازار ہے جہاں وہ سبزی بیچتی ہے۔ اس کی مدد سے وہ اپنے بچوں کی پرورش کر رہی ہے۔ شیاما کو اس کے اپنے بھائیوں سریندر اور وریندر نے بیس ہزار روپے میں بیچ دیا تھا، جو پنجاب میں مزدوری کرنے گئے تھے۔ شیاما کہتی ہیں، ”میرا بھائی شادی میں نہیں آیا تھا۔ کچھ لوگ ماں کے سامنے شادی کر کے پنجاب لے گئے۔ شوہر نے مجھے ایک گھر میں رکھا اور کچھ دنوں کے بعد مجھ پر دوسرے مردوں سے تعلقات قائم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ میں انکار کرتی تو شراب پی کر مارتا تھا۔ وہ تین سال تک کسی نہ کسی طرح زندہ رہی اور پھر اپنے بچوں کے ساتھ وہاں سے بھاگ گئی۔یہاں تک کہ وہ بغیر ٹکٹ ٹرین میں سفر کرنے کی وجہ سے پولیس کے ہاتھوں پکڑی بھی گئی۔ لیکن وہ کہتی ہے کہ ایک شرابی شوہر کے ساتھ رہنے سے جیل بہتر تھی۔
اگر ہم نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو سال 2021 میں بہار میں انسانی اسمگلنگ کے 111 معاملے درج ہوئے جو 2020 میں 75 تھے۔ اسی قومی سطح پر، 2021 میں 2,189 مقدمات درج ہوئے جو 2020 میں 1714 تھے۔ اتر پردیش کے چائلڈ پروٹیکشن کمیشن کی ممبر، سچیتا چترویدی، جہاں بہار سے دلہن کی اسمگلنگ بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے، کہتی ہیں، ”سب سے زیادہ بچوں کی اسمگلنگ کے شکار پکڑے جاتے ہیں، بہار میں بچوں کی سب سے زیادہ تعداد ہوتی ہے۔ انہیں تعلیم، شادی وغیرہ کے نام پر لایا جاتا ہے۔ لکھنؤ کے چارباغ ریلوے اسٹیشن پر بھی کئی فرضی شادی کے کیس پکڑے گئے ہیں۔ لیکن انسانی سمگلنگ کی یہ سیاہ تصویر اعداد و شمار میں کیوں درج نہیں کی جا رہی ہے؟ اس کا جواب ارریہ کے رام پور کوڈر کٹی پنچایت کی سرپنچ پمی سنگھ نے دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ”یہ لوگ اتنے غریب ہیں کہ ان کی پہلی فکر اپنے پیٹ میں لگی آگ کو بجھانا ہے۔ان کا ماننا ہوتا ہے کہ کورٹ اور پولس اسٹیشن کے چکر کون لگائے گا؟ باقی پولیس والے گھر میں پوچھ گچھ کے لیے آئیں گے تو بدنامی کا اندیشہ رہے گا۔
25 سالہ جمنا (نام بدلا ہوا) بھی پولیس اسٹیشن نہیں جانا چاہتی۔ اس کی ماں رقیہ دیوی اسے شادی کے نام پر بیچنے کی بات نہیں کرنا چاہتی۔ لیکن جمنا واضح طور پر کہتی ہیں کہ ”مجھے پنجاب میں 8000 میں فروخت کیا گیا تھا۔ میرا شوہر سب سے تعلقات قائم کرنے کو کہتا تھا۔اسی لئے میں وہاں سے بھاگ گئی، لیکن جب ہم تھانے جائیں گے تو ہمارے والدین کے نام بھی سامنے آئیں گے۔ پھر اپنے پیٹ کی آگ کو بجھانے کا انتظام کریں یا پولیس اسٹیشن کا چکر کاٹیں؟ اس سلسلے میں ارریہ کے پولیس سپرنٹنڈنٹ اشوک کمار سنگھ کا کہنا ہے، ”اس طرح کے معاملات پولیس کے علم میں نہیں آتے ہیں۔ اغوا یا اس جیسے کیسز شادی کی نیت سے ضرور ہوتے ہیں جس پر قانونی کارروائی بھی کی جاتی ہے۔ لیکن دوسری ریاستوں سے دلہا کے آنے کی بات سحی نہیں ہے۔ یہ واضح ہے کہ ایسے معاملات میں کوئی موثر قانونی سقم نہیں ہے۔ دوسری طرف ایسا لگتا ہے کہ اس جرم کو سیاسی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ اس کی ایک مثال ایک بڑی قومی پارٹی کی ہریانہ یونٹ کے رہنما کا 2014 میں دیا گیاوہ متنازعہ بیان ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ”اگر ان کی پارٹی ہریانہ میں انتخابات جیتتی ہے تو بہار سے لڑکیوں کو وہاں کے نوجوانوں سے شادی کے لیے لایا جائے گا۔“
ارریہ سے گزرنے والے این ایچ 27 کے کنارے اپنے چھوٹے گھروں میں رادھا، شیاما، جمنا جیسی لڑکیوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ انہوں نے اس جہنم کی زندگی کو اپنا مقدر مان لیا ہے۔ لیکن کیا وہ سب اپنی زندگی سے کچھ چاہتی ہیں؟ کیا آپ کو اپنے بچوں سے کوئی امید ہے؟ اس کے جواب میں تین بچوں کی ماں شیاما نہ تو روزگار، نہ صحت اور نہ تعلیم کی بات کرتی ہے۔ بلکہ ٹھنڈی سانس لے کر وہ صرف یہ کہتی ہے کہ ”میری بیٹی کی شادی قریب ہی کہیں ہو جائے۔ میں اس کی شادی بھکاری سے کروا سکتی ہوں، لیکن میں کسی دوسرے دیس (ملک) میں شادی نہیں کروں گی۔ شاید حکومت اور اہلکار اس کے درد کو سمجھنے میں ناکام ہیں، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اب تک ‘دلہن کی سمگلنگ’ کے واقعات کو سختی سے روکنے کے لیے زمین پر اثر نظر آتا۔یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا اوارڈ 2022کے تحت لکھا گیا ہے۔ (چرخہ فیچرس)