
وزیرے اعظم نے ملک بھر میں شعبہ تعلیم کو فعال بنانے کیلئے مختلف قسم کے اقدام اٹھائے ہیں تاکہ عوام تک تعلیم کی بہتر سہولیات فراہم کی جاسکے۔ لیکن ملک کے دیہی علاقوں کی بات کی جائے تو زمینی حقائق اس کے بلکل برعکس نظر اتے ہیں۔ چونکہ تعلیم کا نظام فعال ہونا ازحد ضروری تھا۔ بدقسمتی سے اگر یہ نظام شہروں میں بہتر ہو تو اس کا دیہی عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ جموں و کشمیر ہندوستان کا تاج ہے۔ لیکن اس تاج میں موتی تعلیم سے ہی جڑتے ہیں۔ اگر محکمہ تعلیم کے شعبہ میں یہ حالت ہو گی تو تاج تو رہیگا پر مقام نہیں رہیگا۔ جموں و کشمیر کے متعدد اضلاع کے دیہی علاقے آج بھی محکمہ تعلیم کی جانب سے عدم توجہی کا شکار ہیں۔ ضلع پونچھ جو جموں و کشمیر کا سرحدی اور پسماندہ ضلع کہا جائے تو بیجانہ ہو گا،اس ضلع سے 30کلو میٹر دور پنچایت چکھڑی جہاں آج بھی شعبہ تعلیم زبو حالی کا شکار ہے۔ضلع کی تحصیل منڈی کے بلاک لورن میں آباد اس پنچایت میں چھ پرائیمری اورچار مڈل اسکول ہیں۔ بدقسمتی سے ابھی تک کوئی ہائی سکول نہیں بن سکا ہے۔اگر چہ ان سکولوں میں بھی تعلیمی نظام زبو حالی کا شکار ہے۔تاہم کبھی تو یہ نظام بھی درست ہوگا؟اس حوالے سے گاؤں کے لوگوں سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ گاؤں میں ہائی اسکول نہ ہونے کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم ادھوری رہ جاتی ہے۔لڑکیا تو درکنار بچے بھی مڈل کلاس سے اگے نہیں پڑھ پاتے ہیں۔مقامی خاتون گلشن اختر،جن کی عمر 25 سال ہے، کہتی ہیں کہ چکھڑی بن گاوں جو کہ دس ہزار سے زاید کی آبادی پر مشتمل ہے،یہاں ایک ہائی اسکول کی از حد صرورت ہے کیوں کہ لڑکیاں جب مڈل پاس کرتی ہیں تو ان کے ماں باپ ہائی اسکول میں داخلہ دلانے کی جگح ان کی پڑھائی چھرا دیتے ہیں کیوں کہ ہائی اسکول گاؤں سے 15 کلو میٹر دور پلیرہ میں واقع ہے۔ایسے میں والدین ان کی حفاظت اتنی دور سے نہیں کرسکتے۔جس کی وجہ سے وہ تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں۔
اس حوالے سے گاؤں کی ایک اور باشندہ شاستہ بانوں جن کی عمر 23 سال ہے، ان کا کہنا ہے کہ جہاں ایک طرف خواتین کو برابر حقوق دینے کی بات کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس دیہی علاقوں کی خواتین اس ڈیجیٹل دور میں بھی تعلیمی نظام سے محروم ہیں۔جو بہت ہی افسوس کا مقام ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گاؤں چکھڑی بن جو کہ بہت بڑا علاقہ ہے، جس میں چار مڈل اسکول اور چھ پرایمری اسکول ہیں۔ایسے میں وہاں ایک ہائی اسکول کا ہونا لازمی تھا تاکہ ہمارے بچوں کے ساتھ ساتھ بچیاں بھی دسویں تک اسانی سے تعلیم حاصل کر سکیں۔اس حوالے سے ہم نے ایک متاثرہ بچی سمینہ اختر جن کی عمر 20 سال ہے۔جو کہ گاوں چکھڑی بن میں ہائی اسکول نہ ہونے کی وجہ سے مڈل پاس کر کے تعلیم چھوڑ کر گھریلو کام کاج میں لگ گئی، اس کا کہنا ہے کہ میں ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہوں۔میرے ماں باپ کے پاس اتنی آمدنی کا ذریعہ نہیں کہ وہ مجھے اتنا خرچہ کر کے دور دراز ہای اسکول میں پڑھا سکیں۔شوق تو مجھے بھی بہت تھا کہ میں میٹرک تک اپنی تعلیم مکمل کر سکوں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ گاوں میں ہائی اسکول نہ ہونے کی وجہ سے مجھے تعلیم سے متاثر ہونا پڑاہے۔
نائیب سرپینچ محمد رفیق کہتے ہیں کہ یہ پنچائیت لورن کی سب سے دور دراز اور پچھڑی ہوئی ہے۔ جو چار مہینے لگاتار برف میں لپٹی رہتی ہے اور فصل کے ٹائم میں جنگلی جانوروں کی آمدورفت بہت زیادہ رہتی ہے۔ جسکی وجہ سے بہت سارے جانی نقصانات بھی ہوئے ہیں۔اگر یہاں محکمہ تعلیم کی بات کی جائے تو محکمے کی جانب سے اس پنچائیت میں آٹھ پرائمری اور مڈل اسکول دیئے گئے ہیں۔ جنکی عالی شاں عمارتیں موجود ہیں مگر تعلیم کی طرف اتنا دھان نہیں ہے۔ ان اسکولوں میں پّڑھنے والے بچے اور بچیاں آٹھویں جماعت میں ہی تعلیم کو چھوڑ دیتی ہیں کیوں کہ ہائی اسکول نہیں ہے جسکی وجہ سے اس ڈیجیٹل دور میں بھی یہاں کے بچے اور بچیاں ہائی اسکول اور ہائی سیکنڈری تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہوجاتی ہیں کیوں کہ چکھڑی بن ناگاناڑی سے منڈی پلیرہ اڑائی یا لورن ہائی سکول یا ہائیر سیکنڈری اسکول میں جاناپڑتاہے۔ ان دوردراز پہاڑی اور دشوار گزار علاقوں سے اسکولوں تک جانادشوار ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوچکاہے کیوں کہ ان راستوں سے کئی کئی گھنٹے پیدل سفر کر کے منڈی لورن یا پلیرہ یا اڑائی میں جانا پڑتا ہے۔ ایک طرف حکومت کی طرف سے ڈیجیٹل انڈیااوربیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ جیسے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ وہی دوسری طرف دیہی علاقوں میں ہائی اسکول کی کمی کی وجہ سے بیٹیاں تعلیم سے محروم ہو رہی ہیں۔آخر یہ دیہی علاقوں کی نئی نسل کے ساتھ کیسا انصاف ہے؟ (چرخہ فیچرس)