تحریر:میر غلام حسن
موت ایک اٹل حقیقت ہے ۔ موت سے کوئی بھاگ نہیں سکتا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی انکار کر سکتا ہے ۔ دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جو جزا و سزا کا انکار کرتے ہیں ، جنت و جہنم کا انکار کرتے ہیں لیکن ایسا کوئی نہیں ملے گا جو موت کا انکار کرتا ہو ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا مشاہدہ انسان اپنے سر کی دو آنکھوں سے دن رات اپنے محلے اور کوچوں میں کرتا ہے اللہ کا قرآن میں ارشاد ہے’’ تو کہہ موت وہ جس سے تم بھاگتے ہو وہ تم سے ضرور ملنے والی ہے پھر تم پھیرے جاؤ گے ۔ اس چھپے اور کھلجاننے والے کے پاس پھر جتلائے گا تم کو جو تم کرتے تھے۔(سورہ جمعہ)
اس ارشاد خداوندی سے پتہ چلتا ہے کہ موت سے کوئی بھاگ نہیں سکتا اور نہ ہی کوئی اپنے کئے ہوئے کے جزا و سزا سے بچ جائے گا۔ انسان کو جو مہلت زندگی عطا کی گئی ہے بہت ہی مختصر دور حیات ہے ۔ یہ دور فانی ہے ، دور زوال ہے اور انسان کو ہر حال میں اس دنیا سے نکلنا ہوگا ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ فانی دنیا کی محبت اور مٹھاس نے لالچی انسان کو اپنی زنگینیوں میں ایسا پھنسایا ہے کہ یہ قبر اور حشر و نشر اور یہاں تک یوم جزا کو بھی بھول گیا ہے ایک صاحب نے اس کی کیا بہترین مثال لکھی ہے کہ ’’ایک شخص جنگل میں چلتا تھا اس نے اپنے پیچھے ایک شیر آتے دیکھا ۔ڈر کے مارے بھاگنے لگا ۔ جب تھک گیا تو آگے ایک گھڑا دیکھا ، گھڑے میں جان بچانے کی چاہت ظاہر کی تواس میں اژدھا نظر آیا۔اب آگے اژدھے کا خوف اور پیچھے شیر کا خوف ۔ اسی اثنا میں ایک درخت کی ٹہنی پر نظر پڑی اور اس پر چڑھ پڑا ۔ مگر معلوم ہوا کہ اس درخت کی جڑوں کو دو سیاہ و سفید چوہے کاٹ رہے ہیں ۔ بہت ہی ڈر گیا کہ اب جلدی ہی درخت کی جڑیں کٹ جائیں گی اور پھر میں گر جاؤں گا اور بعد میں شیر اور اژدھے کا شکار بن جاؤں گا ۔ اچانک اس کو اوپر کی طرف ایک چھت شہد کا نظر آیا اور شہد حاصل کرنے اور پینے میں مست ہوگیا کہ نہ خوف شیر رہا اور نہ خطرۂ اژدھا ۔ کہ اچانک درخت کی جڑیں کٹ گئی اور یہ شخص گر پڑا تو شیر نے پھاڑ کر گڑھے میں گرا دیا اور اژدھے کے منہ میں جا پہنچا ۔ اس مثال میں جنگل سے مراد دنیا ہے اور شیر موت ہے کہ انسان کے پیچھے لگی ہوتی ہے اور گھڑے کو قبر کی مثال پیش کیا گیا ۔ جو انسان کے آگے ہے اور اژدھا اعمال بد ہیں کہ قبر میں ڈسیںگے اور دو چوہے سیاہ و سفید دن اور رات ہیں درخت گویا عمر ہے اور شہد کا چھت دنیائے فانی کی غا فل کر دینے والی لذّت ہے کہ انسان ان کی فکر میں موت ، قبر اور جواب دہی سب چیزوں سے غافل ہوجاتا ہے اور پھر موت کے آنے پر حسرت و ندامت کے سوا کچھ ساتھ نہیں جاتا ہے اس لئے انسان کو چاہئے کہ وہ زندگی کے مختصر دور کو اللہ کی طرف سے امانت سمجھ کر گذارے اور اعمال صالحہ کر کے اپنی قبر کو بچائے اور اپنے کئے کا مثبت جواب دینے کی تیاری کرے ۔ مہلت زندگی بہت ہی قلیل ہے ۔ آخر انسان کو اس فانی دنیا سے نکلنا ہے ۔ مرنے کے بعد کی پہلی منزل قبر ہوگی ۔ قبر باغیوں کے لئے تنگ ہوگی ۔ اصل میں جو چیز ان اہم حقیقتوں سے انسان کو دور کرتی ہے وہ ہے یقین کی کمزوری ۔ اگر یقین پختہ ہو تو پھر اعمال صالحہ کی طرف رغبت بڑھ جاتی ہے اور جب اعمال صالحہ ہو ںتو پھر انسان مرنے سے نہیں ڈرتا ہے اس لئے کہ اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے اپنے حقیقی رب سے ملنا ہے اور اس کی نعمتوں کی لذّت کو حاصل کرناہے ۔یہ یقین آدمی میں صرف اس وقت پیدا ہو جاتا ہے جب اس کے اندر خدا کا خوف ہو اور آں حضورﷺ کا عشق ہو۔ آج کی مادی دنیا میں صرف وہی لوگ اسلام کی طرف راغب ہوجائیں گے جن کے اندر پختہ شعور ہو اور جن کو اسلامی اقدار کی سمجھ ہو۔ ایسے لوگ نہ خود اللہ کی رحمت سے مایوس ہوجاتے ہیں اور نہ ہی اوروں کو مایوسی کی تعلیم دیتے ہیں۔ اس لئے کہ انہوں نے زندگی کی حقیقت سمجھ لی ہوتی ہے اور موت کی اصل حقیقت سے بھی یہ لوگ باخبر ہوتے ہیں ۔ آج کے اس مادی دور میں بھی اللہ کے مقبول اور پیارے بندے اس کوشش میں لگے ہیں کہ اللہ کے بندوں تک دعوت حق پہنچ جائے اور لوگ دنیا اور آخرت کی حقیقت کو سمجھیں اور یہ سلسلہ نہ رکنے والا سلسلہ ہے ۔ امت میں علماء حق آتے رہیں گے اور ان کا کام یہی ہوگا کہ وہ لوگوں کو حق وسمجھانے کی کوشش کریں گے ۔بات واضع ہے کہ تبلیغ اہم اور مقدس مشن ہے ۔ دعوت حق کو عام کرنا ہر مسلمان کی ذمّہ داری ہے اور دعوت دین کو قبول کرنے میں ہی انسانوں کی نجات ہے ۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم زندگی کی اصل حقیقت کو سمجھیں اور موت کے بعد آنے والی زندگی کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں۔
بقول اقبالؒ:
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی
ہے یہ شام زندگی صبح دوام زندگی
