
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے ۔ اِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا (سورة الشرح -۶)
یقیناً دشواری کے ساتھ آسانی ہے۔ تو بیشک دشواری کے ساتھ آسانی ہے۔ انسان کے لیے سولہات کا سامان میسر ہے تاہم زندگی گزارنے کے دوران مشکلوں کا سامنا بھی پڑ رہا ہے لیکن ہر مشکل کے بعد آسانی ہیں ہوتی ہے جو قدرت کا واضح طریقہ ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مشکلات کے بعد آسانی اور دشواریوں کے بعد ان سے چھٹکارا ایسی چیزیں ہیں کہ اگر ان کا صحیح ادراک ہوجائے تو یہ بہت سے نقصانات و فسادات سے نجات کا باعث بن سکتی ہیں۔ لیکن طرفہ تماشایہ ہے کہ اکثر لوگ ان سے ناواقفیت کی بناء پر بڑی بڑی غلطیوں کا ارتکاب کر جاتے ہیں۔ بہت سارے لوگ ایسے ہیں کہ جب انھیں کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ کوئی بہت بڑا شر اپنے الاو لشکر سمیت ان پر حملہ آور ہوگیا ہے۔ اس سے خلاصی کے تمام راستے مسرود اور تمام دروازے بند ہوچکے ہیں۔ ایسے شخص کو اپنے آپ سے کوفت ہونے لگتی ہے ، وسیع و عریض زمین اس کو تنگ پڑ جاتی ہے ،اسکا حسن ظن بدظنی میں بدل جاتا ہے۔وہ اپنے قدرے بہتر حالات سے متعلق مضطرب ہوجاتا ہے اور تمام مسائل اسے مشکل آنے لگتے ہیں اور ان مسائل کے حل کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ہے اور ایسے دولاب میں پڑجاتے ہیں اور ان مشکلوں سے نکلنے پر کوئی یقین نہیں رکھتے ہیں۔البتہ متقین اور اہل خرد کا معاملہ اس سے بہت مختلف ہوتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فراہم کردہ رہنمائی کی بدولت اس سے مختلف موقف کے حامل ہوتے ہیں۔ان کے ذہنوں میں نقش ہوتا ہے کہ اللہ نے ان کے ساتھ ایسا سچا وعدہ کیا ہے جس کی وہ خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ وہ وعدہ یہ ہے کہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ، ہر تنگی کے ساتھ فراخی اور ہر کرب کے پہلو میں کشادگی ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کسی وقت کسی انسان پر ایسے مشکل پڑ جاتے ہیں۔اس دوران اس کو خود یہ اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ مشکل آسان ہو جائیں گے جبکہ اس کے نزدیک میں رہنے والے جو اس کے حالات سے واقفیت رکھتے ہیں کو بھی لگتا ہے کہ اس شخص کو ان مشکلوں سے نکلنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کیونکہ اس پر ایسے ہی حالات منڈ لاتے رہتے ہیں۔لیکن جب اچانک وہ مشکلوں سے نکلتا ہے تو سب کے سب شسد رہو کر رہ جاتے ہیں کیونکہ اللہ رب العزت کے پاس کسی مسئلے کا حل کرنے میں کوئی دیر نہیں لگتی ۔ وہ انسانوں کا کیا بلکہ تمام مخلوقات پر بھر پور قدرت رکھتا ہے خالق کل اور مالک دو جہاں ہیں اس کی قدرت کے سامنے سب کچھ ہیچ ہے۔ مشکلوں میں ڈالنا اور آسانی فراہم کرنا خدائے واحد کی سنت ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس پر یقین رکھیں کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہوگی۔ اس کے لیے ایمان و یقین کو مضبوط و مستحکم بنانا رازمی ہے۔
اللہ تعالیٰ القرآن الكريم ۔(سورة الشرح) میں فرماتا ہے۔
فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ۔ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا
اللہ تبارک و تعالیٰ تکرار اور تاکید کے ساتھ دو دو دفعہ فرماتا ہے کہ ” سختی کے ساتھ آسانی، دشواری کے ساتھ سہولت ہے “۔
مشکلات سے گھبرانا نہیں چاہئے:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ کسی مشکل ،مصیبت یا دشواری کے آجانے کی وجہ سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ سے مشکل اور مصیبت دور ہو جانے اور دشواری آسان ہو جانے کی امید رکھتے ہوئے دعا کرنی چاہئے،اللّٰہ تعالیٰ نے چاہا تو بہت جلد آسانی مل جائے گی۔اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىهَاؕ-سَیَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا۠‘‘( طلاق:۷)
اللہ تعالیٰ کسی کو تکلیف نہیں دیتاہے مگراسی کی جو اس نے اسے دیا ہے اللہ تعالیٰ تنگ دستی کے بعد جلد ہی آسانی پیداکردے گا۔ اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین یا رب العالمین ۔
