
دورِحاضر میں انسان نے کافی ترقی کی اور کئے جارہاہے۔ اپنے رہنے،چلنے،اٹھنے اور بیٹھنے غرض زندگی کے تمام تر معاملات میں انسان نے اپنی آسائش کے سارے انتظام کئے ہیں۔چلنے کے لئے خوبصورت گاڑی،پہننے کے لئے قیمتی لباس اور رہنے کلئے اونچا گھر بناتا ہے۔زندگی کی اس بھاگ دوڑ میں انسان جہاں ضروریات زندگی کے تمام انتظام اپنے لئے مہیا رکھتا ہے وہیں پر انسان سکون جیسی عظیم نعمت کے لئے ترستا ہے۔سماج میں رہنے والا ہر فرد یہ اعتراف کرتا ہے کہ اسکی بنیادی ضروریات اچھی طرح پوری ہوتی ہے مگر سکون قلب سے محروم ہے۔دراصل ہم تیز رفتاری کے اس دور میں مادیت پرستی اور خواہش پرستی میں ڑوب گئے ہیں ہماری ضروریات کبھی بھی اعتدال میں نہیں ہوتی جبکہ اسلام میں اعتدال رکھنے کی کافی تاکید کی گئی ہے۔ہم مغربیت کی تقلید کرکے کبھی بھی سکون قلب جیسی عظیم نعمت کو پانہیں سکتے یہ ہماری غلط فہمی ہے کہ مغربی تہذیب اور مغربی طرزِ زندگی کو اپناکر ہم پرسکون رہ سکتے ہیں۔آج انسان کمانے میں مست ہے دن رات کمائی کرکے یہ خیال نہیں رکھتا کہ کیا یہ کمائی حلال ہے یا حرام اس کی اس کو پرواہ نہیں ہوتی ہے۔بے سکون اور بے چین رہنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ آجکی نئی نسل خرافات،اسراف اور بے حیائی میں ڑوب گئی ہے اور پھر پرسکون رہنے کے لئے انٹرنیٹ پر سرچ کرتے ہیں ارے بھئی آپکا ضمیر اندر سے زخمی ہوگیا ہے جسکی مرمت کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تب جاکے آپ اپنے اپکو پرسکون بنا سکتے ہیں۔دور حاضر میں اگرچہ انسان نے ترقی کے سارے منازل طے کئے وہیں ذہنی مریضوں،زندگی سے ہارے لوگوں،ڑپریشن اور دیگر کئی مصائب سے دوچار ہوۓ لوگوں کی تعداد بھی کافی عروج پر دیکھنے کو ملتی ہے۔انسان پرسکون رہنے کے لئے خواہشات کا امبار لئے زندگی کی پٹری پر آیا ہے جسکی وجہ سے بعد میں اُسے پچھتاوا کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔کم میں گزارا کرنا اور کم میں اللہ کا شکر بجالانا ایک ایسا مثبت عمل ہے جوانسان کے پرسکون رہنے میں کلیدی رول ادا کرسکتاہے۔شکر کرنا اللہ ربّ العزت کو بہت پسند ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ترجمہ "اور میرا شکر کرو اور میری ناشکری مت کرو (البقرہ:١٥٢)
ترجمہ:”اگر تم میرا شکر کروگے تو البتہ ضرور میں تمہیں زیادہ دوں گا” (ابراہیم:٧)
حدیث شریف میں آیا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ان دلوں کو اس طرح زنگ لگ جاتا ہے جس طرح لوہے کو پانی لگنے سے زنگ لگ جاتا ہے۔پوچھا گیا کہ اس کی صفائی کیسے ممکن ہے؟آپﷺ نے فرمایا”موت کو کثرت سے یاد کرنا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا”
بے سکونی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہم قرآنی تعلیمات اور نبی کریمﷺ کی سنتوں سے دور ہوگئے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ ہمارا ماضی کتنا تابناک ہے۔اپنے اسلاف کی محنتوں کی وجہ سے دینی تعلیمات سے روشناس ہوۓ۔مگر افسوس کہ اب ہم نے اسلاف کو ہی بھلا دیا ہے۔قرآن مجید کا مطالعہ اور اسکی تلاوت سے جہاں انسان کو کافی زہنی فہم وادراک حاصل ہوتا ہے وہیں پرسکون رہنے کے لئے کلام مجید کی تلاوت کرنا کافی ضروری ہے۔مگر ہم پڑھنے نہیں اور اگر پڑھتے بھی ہیں مگر سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔بروز محشر نبی کریمﷺ اللہ تعالیٰ سے کہیں گےکہ،
ترجمہ”یاربّ ! میری قوم اس قرآن کو بالکل چھوڑ بیٹھی تھی”(الفرقان:٣٠)
کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک اخبار میں پڑھا کہ ہندوستان کے ایک مشہور ومعروف فلمی اداکار نے یہ اعتراف کیا کہ جب وہ بے سکون اور بے چین ہوتا ہے تو اس وقت وہ قرآن مجید کی تلاوت سے اپنے آپکو پرسکون بناتا ہے۔اس سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سکون وہ واحد شے ہے جو پیسوں سے حاصل نہیں ہوتا۔سکون اگر کسی چیز سے حاصل ہوسکتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے احکام،قرآنی تعلیمات اور نبی اکرمﷺ کی سنتیں ہیں۔اللہ سے دُعا ہے کہ ہمیں قرآن مجید پڑھنے سمجھنے اور نبی اکرم ﷺ کی سنتوں کو اپنی زندگی میں لانے کی توفیق عطا فرماۓ تب جاکر ہم پرسکون اور خوشحال زندگی بسر کر سکیں گے۔
