تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
ایک ایسے سماج میں جہاں لوگ بڑی تعدادمیں نماز پڑھتے ہیں ۔ روزہ رکھتے ہیں ۔ ہر سال حج کے لئے جاتے ہیں ۔ بلکہ نوافل کااہتمام بھی کرتے ہیں ۔ نیکیوں کی ترغیب بھی دیتے ہیں ۔ وعظ کہنے اور تبلیغ کرنے والے دستے بھی نظر آتے ہیں ۔ اس کے باوجود ایسا سماج صحیح راستے پر نظر نہیں آتا ۔ جو لوگ دین کے لئے محنت کرتے ہیں وہ شکایت کرتے ہیں کہ سماج کو سدھارنا ممکن نہیں ہورہاہے ۔ ایسے سماج میں جہاں ایک طرف مسجدیں آباد ہیں ۔ جدید طرز کی نئی مسجدیں برابر تعمیر ہورہی ہیں ۔ لوگ غریبوں کی اعانت بھی کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود سماج صحیح خطوط پر نظر نہیں آتا ہے ۔ یہ سماج اسلامی طریقوں کا حامل سماج قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ۔ اس سماج کے اندر عبادات کے ساتھ ساتھ بہت سی خرافات بھی نظر آتی ہیں ۔ نماز پڑھنے والوں کے معاملات دیکھے جائیں تو ٹھیک نہیں ہیں ۔ اسلامی عبادات پر کاربند افراد کے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات دیکھیں تو مایوسی ہوتی ہے ۔ سنتوں کی تلقین کرنے والوں کے اعزا و اقارب کے ساتھ تعلق کے بارے میں معلوم کریں تو شکایتوں کا ڈھیر لگ جاتا ہے ۔ ہم حیران ہیں کہ ایسا تضاد کیوں ہے ۔ جو لوگ اسلام اور اسلامی عبادات کے ساتھ اس قدر محبت رکھتے ہیں ان کے اندر جھول کیوں نظر آتا ہے ۔ جب لوگ اسلامی اصول وضوابط پر عمل کرنے کو تیار ہیں تو اجتماعیت میں ان اصولوں کو کیوں نظر انداز کرتے ہیں ۔ مسلمانوں کی تجارت بے ضابطگیوں کی شکار ہے ۔ ان کی معیشت افراتفری کی شکار ہے ۔ ان کے لین دین میں دھوکہ دہی ہے ۔ ان کے وعدوں پر کبھی عمل نہیں ہوتا ہے ۔ ان کی بان کے شر سے کوئی محفوظ نہیں ہے ۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا دینی ضابطوں کے مطابق نہیں ہے ۔ مجموعی طور ہمارا سماج خستہ حالی کا شکار ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سماج کو سدھارنا اور صحیح اسلامی خطوط پر چلانا مشکل ہورہاہے ۔
اسلام کا اصل ٹارگٹ فرد ہے اور مقصود ریاست ہے ۔ فرد کے سدھرجانے کے بعد کام مکمل نہیں ہوتا ۔ بلکہ ایک ایسی برادری قائم ہونی چاہئے جو پوری کی پوری اسلامی رنگ میں رنگی ہوئی ہو ۔ یہاں کسی طور دھوکہ دہی نہیں ہونی چاہئے ۔ ایسا نہ ہو کہ آپ مسلمان بھی ہیں اور ناپ تول میں گڑ بڑ بھی کرتے ہیں ۔ آپ مسلمان بھی ہیں اور اپنی ڈیوٹی میں تساہل بھی کرتے ہیں ۔ آپ مسلمان بھی ہیں اور تجارت میں خود غرضی سے کام لیتے ہیں ۔ آپ مسلمان بھی ہیں اور کھرے کھوٹے میں تمیز نہیں کرتے ہیں ۔ آپ مسلمان بھی ہیں اور لین دین میں صحیح نہیں اترتے ہیں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے علما مغربی سماج کے پیچھے پڑے ہیں ۔ وہاں کی عریانیت ان کو نظر آتی ہے اور ہاتھ دھوکر اس کا پیچھا کررہے ہیں ۔ لیکن وہاں کے سماج میں جو سنتیں عام ہیں وہ کسی کو نظر نہیں آتی ہیں ۔ وہاں صفائی کا جو اہتمام وہ بھی ان کو کھٹکتا ہے ۔ گندگی میں پلے بڑھے اور غلاظت کے عادی ان ملائو ں کو یہ معلوم نہیں کہ صفائی کا اہتمام اسلام کی تعلیم ہے ۔ اس کو آدھا ایمان بتایا گیا ہے ۔ مغربی سماج میں جو دیانت داری پائی جاتی ہے اس کی مثال دینا ملائوں پر حرام ہے ۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ ساری عمر دیانت اور سچائی کی تعلیم دیتے رہے ۔ حق تو یہ ہے کہ اسلام کے نفاذ سے پہلے رسول ؐ کی ذات کو جو اثر پورے مکہ پر تھا وہ ان کی صداقت اور امانت کی وجہ سے تھا ۔ ان صفات کی تاکید انہوں نے اعلان نبوت کے بعد بھی کی ۔ لیکن ہم ان چیزوں کو اسلام سے ماورا سمجھتے ہیں ۔ ہمارے پاس جو بنگلے ہیں ۔ جو کوٹھیاں ہیں ۔ جو موٹر اور گاڑیاں ہیں ۔ ہمارے پاس جو ٹھاٹھ باٹھ ہے سب مغرب کی دین ہے ۔ یہ ہمارے لئے حرام نہیں ۔ بلکہ عین دین ہے ۔ اللہ کی عنایت ہے ۔ لیکن وہاں سماج کے اندر جو سدھار پایا جاتا ہے وہ ہمیں نظر آتا ہے نہ اس پر ہم چلنے کو تیار ہیں ۔ مغرب کی تقلید ہم پر حرام ہے ۔ وہاں کی دیانت داری ہمارے مزاج سے میل نہیں کھاتی ۔ وہاں کا ادب اور احترام ہمارے لئے بارگراں ہے ۔ وہاں کا ورک کلچر ہمارے لئے کسی مصیبت سے کم نہیں ۔ حالانکہ یہ سب کچھ ہمارے دین کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے ۔ وہاں دھوکہ دہی کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ دوسروں کو دھوکہ دینا وہاں کسی کے وہم وگمان بھی نہیں ۔ عجیب بات ہے کہ ہمارے اندر یہ دھوکہ دہی کہاں سے آئی ۔ دین میں دھوکہ دہی گناہ ہے ۔ غیر مسلموں کے اندر دھوکہ دہی نہیں پائی جاتی ۔ پھر یہ کہاں سے ہم نے سیکھا ۔ یہ ہنر مسلمان معاشرے میں کہاں سے آیا ۔ اس کی تربیت ہمیں کہا ں سے ملی ۔ ہمارے یہاں جو نام نہاد علما پائے جاتے ہیں سب دھوکہ دہی کے عادی ہیں ۔ ان کی جو شان و شوکت ہے دھوکہ دہی کی دین ہے ۔ لوگوں اور سرکار کو دھوکہ دے دے کر انہوں نے اپنی پوزیشن بنائی ۔ دین پر اجارہ داری انہوں نے دھوکہ دے کر حاصل کی ۔ انہوں نے زمینوں پر قبضہ دھوکہ دے کر کیا ۔ انہوں نے غریبوں سے ان کی اراضی دھوکہ دے کر ہڑپ کی ۔ انہوں نے اپنے لئے کمائی کے جو وسائل تلاش کئے لوگوں کو دھوکہ دے کر تلاش کئے ۔ یہ آج بھی جوکچھ کماتے ہیں غلط سلط بتاکر کمارہے ہیں ۔ لوگوں سے دین کے نام پر خیرات حاصل کی جاتی ہے ۔ لیکن خود ہڑپ کر لے جاتے ہیں ۔ ان کا کوئی حساب نہیں ۔ ان پر کوئی آڈٹ نہیں ۔ ان کے لئے کوئی کھاتی نہیں ۔ آمدن و خرچ کا کوئی حساب نہیں ۔ کوئی کتاب نہیں ۔ حرام عام شہریوں کے لئے بڑا گناہ ہے ۔ خود انہیں جنت کی سرٹفکیٹ ہے ۔ جب علما ہی دین کی پابندی سے بری ہیں تو سماج میں دین کا غلبہ کیسے ہوگا ۔ سماج میں دین کی لائنوں پر سدھار کیسے ہوگا ۔ یہ مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ دھوکہ دہی سے حاصل کیا گیا زرق وبرق لباس پہننے والے دوسروں کو لباس پر پیوند لگانے کی تعلیم دیں اور لوگ اس پر عمل کریں ممکن نہیں ۔ وازہ وان کھانے والے دوسروں کو فجول خرچیوں سے اجتناب کرنے کو کہیں تو اس پر عمل ممکن نہیں ۔ جن کی اپنی اولادیں بے راہ ہوں وہ دوسروں کے راپ رو بن جائیں ممکن نہیں ۔ جب سماج میں کوئی مثالی کردار نہیں تو سماج کو سدھارنا ممکن نہیں ۔
