
اسلام نے خلق کو اللہ کا عیال کہہ کراس بات کی طرف اشارہ کیا کہ بنی نوع انسان کے آپسی تعلقات کس قدر خوشگوار ہونے چاہیے۔حدیثِ قدسی ہے کہ ’مخلوق اللہ کا عیال ہے. ‘حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس عیال کو اللہ اپنی ذات کے ساتھ منسوب کر رہا ہے، جو اس بات کا متقاضی ہے کہ مزکورہ کنبے کا ہر فرد دوسرے فرد کو ایک ہی خالق کے عیال کا حصہ سمجھ کر ہمیشہ اس کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ روا رکھے. یہ ذہن میں رہے کہ خالق اپنے عیال کے ظاہر سے بھی واقف ہے اور دلوں کے اندر مخفی بھیدوں سے بھی واقف ہے۔ایک ہی کنبہ اور ایک ہی خاندان کے افراد ہونے کی حیثیت سے ہر فرد پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کو کوئی نقصان یا ایذا نہ پہنچائے، اسی طرح وہ اپنے اہل خانہ سے کبھی حسد کرے نہ ہی اس کے لئے دل میں بغض رکھے۔جب تک ایک دوسرے کے تئیں خیرخواہی پر مبنی جذبات نہ ہوں تو منفی جذبات کا پیدا ہونا یقینی ہے. نتیجتاً ہر فرد دوسرے فرد کی کمزوریاں ڈھونڈنا شروع کرتا ہے اور ان اخلاقی برائیوں کو جگہ دیتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے سورة ا لحجرات میں روکا ہے۔ان ہی برائیوں میں ایک برائی ہے ’عیب جوئی‘۔قرآن پاک میں تجسس(عیب ڈھونڈنا) سے منع کیا گیا ہے۔امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں :’تجسس ‘کہتے ہیں کسی چیز میں کرید کرنے کو اور تجسس کہتے ہیں ان لوگوں کی سرگوشی پر کان لگانے کو جو کسی کو اپنی باتیں سنانا نہ چاہتے ہوں۔تجسس کرنے والے کے ہاتھ جب کوئی کمزوری آتی ہے تو وہ اس کو اچھالتا ہے، انسان کی فطرت میں نسیان ہے، اس وجہ سے انسان غلطیاں بھی کرتا ہے ایسے میں ایک ہی کنبے کے افراد ہونے کی حیثیت سے ہونا یہ چاہئے تھا کہ ہم ایک دوسرے کی کمزوریوں کو دور کرتے نہ کہ اچھالتے. جب فرد میں حسد اور بغض جیسی منفی برائیاں پیدا ہوتی ہیں تو وہ ہمیشہ اس ٹوہ میں رہتا ہے کہ کب دوسرے کی کمزوری ہاتھ لگے اور اس کی عزت کو سر عام نیلام کردے. اسلام تو چاہتا ہے کہ ہر فرد دوسرے فرد کے عیبوں کو چھپائے نہ کہ انہیں منظرعام پرلائے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص کو حضرت ابن مسعود ؓکے پاس لایا گیا اور کہا گیا کہ اس کی داڑھی سے شراب کے قطرے گر رہے ہیں. آپ نے فرمایا ہمیں بھید ٹٹولنے سے منع فرمایا گیا ہے. اگر ہمارے سامنے کوئی چیز ظاہر ہو گئی تو ہم اس پر پکڑ سکتے ہیں۔(ابوداود)
مسند احمد میں ہے کہ عقبہ کے کاتب وجین حضرت عقبہ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ میرے پڑوس میں کچھ لوگ شرابی ہیں میرا ارادہ ہے کہ میں داروغہ کو بلا کر انہیں گرفتار کرادوں ۔آپ نے فرمایا ایسا نہ کرنا بلکہ انہیں سمجھاؤ بجھاؤ؛ ڈانٹ ڈپٹ کر دو ، پھر کچھ دنوں کے بعد آئے اور کہا وہ باز نہیں آتے؛ اب تو میں ضرور داروغہ کو بلاؤں گا. آپ نے فرمایا افسوس افسوس تم ہرگز ہرگز ایسا نہ کرو. سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے فرمایا ‘جو شخص کسی مسلمان کی پردہ داری کرے اسے اتنا ثواب ملے گا جیسے کسی نے زندہ درگور کردہ لڑکی کو بچا لیا ۔” کسی زندہ دفن کرنے والی لڑکی کو بچانے پر جو اجر ملتا ہے وہی کسی کے عیب چھپانے پر، کس قدر اجر ہے،لیکن آج کل کے میڈیا اور سوشل میڈیا کے دور میں عیب ڈھونڈنا باقاعدہ ایک فن بن گیا ہے۔اس سے چینل کی ٹی آر پی بڑھ جاتی ہے؛ جو زیادہ سے زیادہ تجسس کرے، جو لوگوں کے پرسنل لائف کے راز ٹٹولے، یہی حال سوشل میڈیا کا بھی ہے۔ لوگوں کی کمزوریاں اچھالنا اب عام سی بات بن گئی ہے جو جتنے راز اور پرسنل کمزوریوں کو اچھالتا ہے اس کو اتنے likes ملتے ہیں ۔ہمارے ہاں ان رسائل اور اخبارات کی سرکولیشن زیادہ ہوتی ہے جو چٹ پٹی خبریں شائع کرتا ہے،لوگوں کی پرسنل لائف میں جھانکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر فرضی اکاؤنٹ بنا کر کسی کے سامنے مقابل جنس بن کر پیش آنا اور اس کے بعد چیٹنگ کو لے کر لوگوں میں اسے بدنام کرنا؛ عام سی بات ہے. لوگوں کے اکاؤنٹ ہیک کرکے عیب ڈھونڈنا موجودہ دور میں عیب جوئی کی ایک قسم ہے.
عیب جوئی کی وجہ سے آپسی تعلقات میں بگاڑ آتا ہی ہے ساتھ میں کوئی مثبت کام بھی نہیں ہوتا. احادیث میں لوگوں کے مخفی عیب کو ڈھونڈنے پر سخت وعید سنائی گئی ہے ۔حدیث میں آتا ہے: ” اے لوگو جو زبان سے ایمان لے آئے ہو مگر ابھی تمہارے دلوں میں ایمان نہیں اترا ہے ، مسلمانوں کے پوشیدہ حالات کی کھوج نہ لگایا کرو ، کیونکہ جو شخص مسلمانوں کے عیوب ڈھونڈنے کے درپے ہوگا اللہ
اس کے عیوب کے درپے ہو جائے گا اور اللہ جس کے درپے ہو جائے اسے اس کے گھر میں رسوا کر کے چھوڑتا ہے۔ ”
اس کا ایک پہلویہ بھی ہے کہ عیب ٹٹولنے سے منع کیا گیا ہے، ایک دوسرے سے لاتعلق ہونے سے نہیں بلکہ مومنین کی تو یہ صفت ہی بیان کی گئی ہے کہ وہ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔مومن کبھی نہیں چاہے گا کہ اپنے اہل خانہ کا کوئی فرد کسی مشکل میں ہو. اسلام اس چیز سے فرد کو روکتا ہے کہ وہ لوگوں کے کمزور پہلوؤں کو اجاگر کرے. اسلامی حکومت ہر کسی برائی پر قدغن لگاتی ہے لیکن کبھی لوگوں کے گھروں کے اندر نہیں جھانکتی۔حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور کا ایک واقعہ ہے،’ایک مرتبہ رات کے وقت آپ نے ایک شخص کی آواز سنی جو اپنے گھر میں گارہا تھا۔ آپ کو شک گزرا اور دیوار پر چڑھ گئے۔ دیکھا کہ وہاں شراب بھی موجود ہے اور ایک عورت بھی۔ آپ نے پکار کر کہا اے دشمن خدا ، کیا تو نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تو اللہ کی نافرمانی کرے گا اور اللہ تیرا پردہ فاش نہ کرے گا ؟ اس نے جواب دیا امیرالمومنین جلدی نہ کیجیے۔ اگر میں نے ایک گناہ کیا ہے تو آپ نے تین گناہ کیے ہیں۔ اللہ نے تجسس سے منع کیا تھا اور آپ نے تجسس کیا۔ اللہ نے حکم دیا تھا کہ گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور آپ دیوار پر چڑھ کر آئے۔ اللہ نے حکم دیا تھا کہ اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اجازت لیے بغیر نہ جاؤ اور آپ میری اجازت کے بغیر میرے گھر میں تشریف لے آئے۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی غلطی مان گئے اور اس کے خلاف انہوں نے کوئی کارروائی نہ کی ، البتہ اس سے یہ وعدہ لے لیا کہ وہ بھلائی کی راہ اختیار کرے گا۔‘تجسس کبیرہ گناہ ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس گناہ کے مضر اثرات کا احساس نہیں۔ عیب ڈھونڈنے سے نا صرف ایک فرد اپنی عاقبت خراب کرتا ہے بلکہ اس کی زندگی پر بھی منفی اثرات پڑتے ہیں اور ایسے افراد سے معاشرہ کبھی تعمیر نہیں ہوتا، بلکہ معاشرے میں بگاڑ ہی پیدا ہوتا ہے۔
