ڈاکٹر جی ایم بٹ
مسلمان بحیثیت مجموعی اسلام کے لئے بڑے فکرمند نظر آتے ہیں ۔ اس بات کے باوجود کے مبلغ شور مچارہے ہیں کہ مسلمان اسلام سے دور ہوگئے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں لوگ اسلام کی ہم سے زیادہ عزت کرتے تھے ۔ اسلام کے حق میں زیادہ مخلص تھے اور اس کے اصولوں پر زیادہ عمل پیرا تھے ۔ حالانکہ ھقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔ ایک صدی پہلے بہت کم لوگ اسلامی شریعت سے واقف تھے ۔ مسجدیں اتنی زایدہ نہیں تھیں جتنی کہ آج ہیں ۔ مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد بھی بہت کم ہوتی تھی ۔ یہ صحیح ہے کہ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ مسجدوں اور نمازیوں کی تعداد بھی بڑھ گئی ۔ اس کے علاوہ خواندگی کی شرح میں بھی اضافہ ہوا اور لوگوں نے اسلامی تعلیمات کی بہتر جانکاری حاصل کی ۔ وجہ کچھ بھی ہو ۔ تاہم اس ھقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پہلے کے مقابلے میں آج اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ مشاہدے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن پڑھنے اور اس کی تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔ آج پہلے کے مقابلے میں زیادہ حفاظ ، شیخ الحدیث اور مفتی بستیوں میں نظر آتے ہیں ۔ آج ہر بستی میں اسلامی علما پائے جاتے ہیں ۔ نوجوان طبقہ اسلام کے بہت قریب دکھائی دیتا ہے ۔ اپنی ظاہری شکل وصورت کے لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کے شیدائی بہت بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں ۔ البتہ افسوس اس بات کا ہے کہ اسلامی تعلیمات کا عملی مظاہرہ بہت کم نظر آتا ہے ۔ عبادات کے لئے لوگ فکر مند ہیں ۔ لیکن اسلامی اخلاق ، اسلامی بھائی چارہ اور اسلامی کردار کا کہیں مظاہرہ نہیں کیا جاتا ہے ۔
اسلام نے اس بات کی تاکید کی ہے کہ اپنے آس پاس اسلامی تعلیمات کا عملی مظاہرہ کیا جائے ۔ ہمسایے کو تنگ نہ کرنا ، ناپ تول میں انصاف برتنا اور ماحول کو صاف رکھنا ایسی تعلیمات ہیں جن سے معاشرے میں اسلام کا اظہار مطلوب ہے ۔ ان اوصاف سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام ایک باوقار نظام فراہم کرتا ہے ۔ اس نظام پر عمل کیا جائے تو معاشرے میں عدل وانصاف قائم ہوسکتا ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمان اسلام کے عائلی اور تعزیراتی نظام کے نفاذ پر زور تو دیتے ہیں ۔ لیکن اسلام کے اخلاقی نظام کے لئے فکر مند نہیں ۔ اسلام کے مخصوص لباس کو اپنانے پر زور تو دیتے ہیں ۔ لیکن شرم وحیا اور اخلاقی اوصاف کے لئے فکر مند نہیں ۔ جو اصل چیز ہے اس کو نظر انداز کرکے دوسرے ارکان کو اپنانے کے لئے تگ و دو کرتے ہیں ۔ اصل چیز یہ ہے کہ اسلام کا کوئی نمونہ آج ہماری نظروں کے سامنے ہے یا نہیں ۔ خود ساختی اسلامی لباس پہننے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اسلام ہماری زندگی میں قابل عمل ہے ۔ بلکہ ہمارے کردار سے جو مسیج دوسروں تک پہنچتی ہے وہ اس کے منافی ہے ۔ ظاہری حلیے کے لحاظ سے ہم دوسروں سے بظاہر الگ ہیں ۔ لیکن عمل اور کردار کے لحاظ سے انتہائی پست اور پسماندہ ہیں ۔ ہمارا اٹھنا بیٹھنا ، بات کرنے کا انداز اور دوسرے طور طریقے سب سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں جدید دنیا کی ہوا تک نہیں لگی ہے ۔ ہم معمولی باتوں پر لڑتے جھگڑتے ہیں ۔ اس کے برعکس دوسری اقوام بڑے بڑے مسائل افہام و تفہیم سے حل کرتے ہیں ۔ ان کے اندر ہم سے زیادہ شائستگی پائی جاتی ہے ۔ ان کے اندر ہم سے زیادہ مروت پائی جاتی ہے ۔ وہ ہماری نسبت مسائل وک حل کرنے کا ادراک رکھتے ہیں ۔ وہ ہم سے زیادہ خوف کھانے والے ہیں ۔ اللہ کے خوف اور آخرت کے عذاب کا ہم چرچا تو کرتے ہیں ۔ لیکن اس کا اپنی عملی زندگی سے مظاہرہ کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہیں ۔ ہم اسلام کے نفاذ کے لئے بڑے فکر مند ہیں ۔ ہم اس چیز کے لئے قربان ہونے کو تیار ہیں کہ غیر مسلموں پر اسلام نافذ کریں ۔ لیکن اپنے آپ پر اسلام نافذ کرنے پر آمادہ نہیں ہیں ۔ اپنا اس حوالے سے احتساب کرنے کو تیار نہیں ۔ جو لوگ غیر مسلم دوسرے لوگوں کو آرام پہنچانے کے لئے کوشاں ہیں ۔ جو اپنے ماحول کو پاک و صاف رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جو رشوت کے خلاف صف آرا ہیں ۔ جو امن و سلامتی کے لئے کوشاں ہیں ۔ انہیں ہم بتاتے ہیں کہ آپ کا طریقہ صحیح نہیں ۔ ہم ہی اس دنیا میں اعلیٰ و ارفع ہیں ۔ وہ لوگ جب ہماری عملی زندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں تو سخت مایوس ہوجاتے ہیں ۔ وہ ہمیں گھپلوں کا حصہ دیکھتے ہیں ۔ وہ ہمیں دھوکہ دہی میں ملوث پاتے ہیں ۔ وہ ہمیں لالچی دیکھتے ہیں ۔ ان کی نظر ہم دھوکہ باز ہیں ۔ بددیانت ہیں ۔ بدخواہ ہیں ۔ہر معاملے میں تنگ نظر اور کند ذہن ہیں ۔ معاشرے کی خدمت میں سب سے پیچھے ہیں ۔ اس کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام بہت جلد دنیا پر غالب آجائے گا ۔ اسلام کے داعی اسلام کے باغی ہیں ۔ ایمان کا دعویٰ کرنے والے ایمانداری سے خالی ہیں ۔ اسلام کو صفائی کا پیامبر ماننے والے صفائی کا خیال نہیں رکھتے ۔ جہاں بیٹھتے گندگی کا ڈھیر جمع کرتے ہیں ۔ جہاں کاروبار کرتے بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ۔ اقرا کا نعرہ بلند کرنے والے تعلیمی لحاظ سے سب سے پسماندہ قوم ہیں ۔ یہ ہماری اصل امیج ہے ۔ اس دوران ہماری خواہش ہے کہ اسلام کا نٖفاذ ہوجائے ۔ یہ قانون قدرت کے خلاف ہیں ۔ اسلام کے نفاذ سے پہلے اس کے نظام کو اپنانا ہوگا ۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا ۔ اسلام کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنا ہوگا ۔ آج اسلام کے شیدائی تو پائے جاتے ہیں ۔ لیکن اسلام کے مطیع اور تابعدار نظر نہیں آتے ۔ اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے والے جگہ جگہ نظر آتے ہیں ۔ لیکن اسلام کے احکامات پر عمل کرنے والے کہیں دکھائی نہیں دیتے ۔ یہ دوہرا اسلام ہے ۔ یہ اسلام کے ساتھ دھوکہ ہے ۔ یہ اپنے آپ کے ساتھ دھوکہ ہے ۔ یہ دورنگی چھوڑ کر جو آپ چاہیں وہی ہوگا ۔ دوسری اقوام کو اپنی صفات عام کرنے کے لئے وعظ و نصیحت کی کوئی مہم نہیں چلانا پڑی ۔ ان کی عملی زندگی نے ان کے اصول وضوابط دنیا بھر میں رائج کئے ۔ اسلام جب تک لوگوں کی عملی زندگی کا حصہ تھا یہ ہر جگہ نافذ تھا ۔ آج بھی ایسی کوئی صورت نکل آئے تو اسلام خود بہ خود غالب آئے گا ۔
