تحریر:ارم نعیم
’’ناشکرا‘‘ ہر چند کہ اس لفظ سے ہماری پرانی شناسائی ہے، بارہا یہ ہماری سماعت سے گزرا ہوگا، خود مجھے اپنی بے قناعتی کے سبب اپنے والدین سے سننا پڑا ہے،مگر جو اصل بات ہے وہ یہ ہے کہ ہم کبھی تنہائی میں بیٹھ کر اس پر غور و خوض کیوں نہیں کرتے کہ آخر انسان کے وجود سے یہ ایک خراب عادت کی طرح کیوںکر منسلک ہوگئی ہے؟ قرآن کریم میں بھی اللہ نے فرمایا کہ ’’ بے شک انسان ناشکرا ہے‘‘ اور اس کی زندہ جاویدمثال ہمیں روزمرہ کی زندگی کے ساتھ ہر دوسری جگہ ملتی ہے کہ ہم ایک شئے کے حصول پر ٹھیک طرح خوش بھی نہیں ہو پاتے اور دوسری کی تمنّا میں الجھ جاتے ہیں۔
بقول غالبؔ
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
آخر ہم ایسے کیوں ہو گئے ہیں کہ دنیا میں کوئی ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرے تو ہم جلدی سے شکریہ یا تھینک یو کہہ کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں اور لمحہ بھر کے لئے بھی یہ تصور نہیں کرتے کہ اگر آ ج سرِراہ ہماری گاڑی بند ہونے پر کسی نے ہمیں پیٹرول دے کر ہماری مدد کر دی،یا ہم کہیں گرگئے اور کوئی بہت جلدی میں جانے والا شخص رُک کر ہماری مدد کیلئے آگیا ،یا ہماری بس چھوٹ گئی ہو اور کوئی ہمیں لفٹ دے دے، تو ہم بھی کبھی ایسے موقعوں پر لوگوں کے کام آنے کا عزم کرلیں اور خود کو ملنے والی مدد پر خدا کا شکر ادا کریں۔ کیونکہ ہمیشہ ہم پر نعمتیں دولت کی صورت میں نہیں برستیں ، یہ تو اللہ کی طرف سے ہماری کسی نیکی کے عوض ہمیں دوسری صورتوں میں نواز دی جاتی ہیں اسلئے نیکیوں پر خود عمل کرنے اور اس کو آگے بڑھانے کا کام ہمیں فرض سمجھ کر کرنا چاہئے۔
مگر اس کے بر عکس ہم نے تو یہ ٹھان رکھی ہے کہ اگر ہمارے ساتھ حسنِ سلوک رکھا جائے ، ہمارے والدین یا بزرگوںکی دعائوں کے پیشِ نظر نیکیوں کا معاملہ رکھا جائے تو ہم اس نیکی ،مدد یا اچھے کام کو مثلِ زنجیر آگے نہ پروتے ہوئے اسے وہیں زمیں دوز کردیتے ہیں ، بس ایک لفظ ادا کرتے ہوئے کہ آپ کا بہت شکریہ ۔ مقامِ فکر یہ ہے کہ کیا ہماری اخلاقیات ہمیں یہی سکھاتی ہیں؟
چونکہ سکّے کے دو پہلو ہیں لہٰذا اسکی دوسری تصویر بھی دیکھئے کہ اگر ہمارے ساتھ ہمیشہ بھلا یا نیکی کرنے والا کوئی شخص ایک دفعہ کسی مجبوری کے پیشِ نظر ساتھ دینے سے قاصر ہو جائے تو اب ہم اس بات کااثر کچھ یوں لیںگے کہ اس سے ترکِ تعلق کا سوچ لیتے ہیں، جب اس کا ذکر ہو تو ہمارے لہجے میں ناگواری کا تاثر ہوتا ہے اور اتنا ہی نہیں بلکہ دل میں یہ ارادہ بھی کرلیتے ہیں کہ جب اوروں نے اس معاملے میں ہماری مدد نہ کی تو ہم دوسروں کے کام کیوں آئیں؟،اور یوں برائی کی وہ جڑ جو پہلے ہی پنپنے کو بے چین و بے تاب تھی وہ بآسانی اپنے پائوں پسارتی چلی جاتی ہے۔
یہ ا نسانی فطرت بھی ہے کہ ہم ہر چند کہ دوسروں کی اچھائیوں کا ذکر دوسروں میں نہ کریں لیکن ان کی خامیوں ،برائیوں اور عیبوں سے اجتناب برتنا ہمارے بس میں نہیں ہوتا ۔ یہ سطحی رویہ ہم نے فقط انسانوں کی جماعت تک محدود نہیں رکھا بلکہ ہم نے اپنے خالق و مالک کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا ہے کہ جب وہ ہمیں نوازتا ہے تو ہم بہت دلجوئی سے ان نعمتوں کے شکر گزار نہیں ہوتے مگر جوں ہی کسی آزمائش میں پڑتے ہے تو فوراََ اس سے گلہ شکوہ کرنے لگتے ہیں ۔ اسی اثنا میں اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب کے سامنے اپنی مصیبتوں کا رونا روئے بغیر دم نہیں لیتے۔ اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سورہ یونس کی آیت نمبر ۱۲ ؍ میں فرمایا
’’اور جب (ایسے) انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہمیں اپنے پہلو پر لیٹے یا بیٹھے یا کھڑے پکارتا ہے، پھر جب ہم اس سے اس کی تکلیف دور کردیتے ہیں تو وہ (ہمیں بھلا کر اس طرح) چل دیتا ہے گویا اس نے کسی تکلیف میں جو اسے پہنچی تھی ہمیں (کبھی) پکارا ہی نہیں تھا ۔‘‘
قارئین کرام! آخرایسا کیوں ؟ اور کب تک چلے گا؟ کیا ان باتوں پر غور وخوض کی ضرورت نہیں؟ ہم اپنی قیمتی اور چھوٹی سی زندگی کے کتنے ہی اوقات فضول مشاغل مثلاً فلمیں دیکھنے،رقص و موسیقی سے لطف اندوز ہونے اورکسی کی برائی یا غیبت کرنے میں ضائع کر دیتے ہیں ،لیکن کیا اپنے معاشرے میں نئی نسلوں کو صحیح سمت دینا ہماری ذمہ داری نہیںکہ جو کمیاں یا خامیاںہم میں ہیں وہ ان میں نہ ہوں؟ یوں بھی سائنس و ٹیکنالوجی کی بڑھتی مداخلت اور موجودہ سیاست کی تعصب آمیزی نے دنیا و مافیہا کے نظام کو درہم برہم کر دیا ہے ۔ اس صورت میں ایک صحتمند معاشرے کی تخلیق و نشو و نما فقط ہمارے رویوں پر منحصر ہے کہ ہم خود میں ایسی اچھی تبدیلی لائیں کہ دوسرے ہم سے متاثر ہونے کے ساتھ اس راہ کو اپنائے بغیر نہ رہ سکیں۔
آپ کو بخوبی علم ہے کہ جب فرعون کا ظلم و ستم عروج کو پہنچا تو خدا نے حضرت موسٰی کو بھیجا جن کے پاس کوئی فوج،کوئی لشکر، کوئی ساز و سامان نہیں مگر اللہ پر ان کے یقین ،استقامت،شکر گزاری ،صبر و قناعت، حوصلے اور عزم نے انہیں اس دریا میں بھی راستہ دلایا کہ جس میں قومِ فرعون ڈوب گئی، کیونکہ ان لوگوں نے اللہ کی نعمتوں پر کبھی بھی شکر ادا کرنا گوارہ نہیں کیا ،اور فرعون جھوٹی خدائی کے نشے میں ایسا چور تھا کہ اسکے سوچنے سمجھنے کی قوت ہی صلب ہو گئی تھی ۔ آپ کو قارون کی ناشکری بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ جس کے خزانوں کی کنجیاں دورانِ سفر نہ جانے کتنے اونٹوں پر ساتھ جاتی تھی لیکن اس پر بھی دولت کی ہوس یوں سوار تھی کہ نہ تو کبھی اپنے پروردگار کا شکر گزار ہوا اور نہ اس دولت سے مخلوقِ خدا کی مدد کی۔ اس کے غرور و تکبّر نے اس کا کیا حشر کیا؟
اس کے ساتھ ہی آپ کو حضرت ابراہیم ؑ کا واقعہ بھی ازبر ہوگا کہ خدا کے حکم پر صبر و شکر کے ساتھ اپنی عزیز ترین شئے یعنی بیٹے اسمٰعیل ؑکو قربان کرنے نکلے ہیں اور پھر اللہ نے ان کی شکر گزاری پر انہیں بیٹا بھی لوٹایا اور اپنا خلیل بھی بنالیا۔
یہ واقعہ بھی آپ کو یاد ہوگا کہ کس طرح امام حسینؓ ابنِ علیؓ ، یزید کے ظلم و جبر اور جور و ستم کی پروا نہ کرتے ہوئے صبر و شکر کے ساتھ حق پر قائم رہے یہاں تک کہ اہلِ خانہ کے بعد اپنی جان بھی قربان کردی ۔
یہ ہوتا ہے شکر والوں کا اصل مقام و مرتبہ کہ وہ اپنے شکر،صبراور ذکرسے بڑی بڑی پریشانیوں اور غموں سے آزاد کر دیئے جاتے ہیں اور پھررہتی دنیا تک عرش تا فرش سُرخ رو ہو جاتے ہیں ۔ تو پھر ہم سارے اشرف المخلوقات کیوں نیکیوں کی جانب قدم بڑھانے سے ڈرتے ہیں،کیا ان مقدس ہستیوں کے اسوہ کو ہم اپنی زندگی میں شامل نہیں کرسکتے؟
