تحریر :ڈاکٹر جی ایم بٹ
سوپور میں کچھ روز پہلے ایک کم سن طالبہ نے دریا میں چھلانگ لگاکر خود کشی کی ۔ خود کشی کے اس واقعے کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ غربت سے تنگ آنے کا سانحہ ہے ۔ مرحومہ کا والد پہلے ہی فوت ہوچکا ہے ۔ گھر میں آمدنی کا کوئی معقول ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے روزمرہ کی ضروریات پورا کرنا ممکن نہ ہوا تو طالبہ نے آتم ہتھیا کی ۔ پہلے اسے معمول کی خبر قرار دے کر نظر انداز کیا گیا ۔ لیکن اصل صورتحال سامنے آئی تو سب دھنگ ہوکر رہ گئے ۔ چودہ پندرہ سال کی ایک حساس بچی نے خودکو اس قدر بے بس پایا کہ جان دینے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نظر نہ آیا ۔ سوپور میں پیش آیا خود کشی کا یہ واقعہ کسی ایک فرد کاالمیہ نہیں بلکہ پورے سماج کی بے حسی کی عکاسی کرتا ہے ۔ یہ مسلم سماج کا ایک المناک حادثہ ہے ۔ ایک ایسا سماج جہاں سماج سدھار کمیٹیاں ، خیراتی ادارے ، یتیم خانے اور بیت المال چپے چپے پر قائم ہیں ۔ ایک ایسی معصوم جان کی ضروریات پورا کرنے میں تمام ادارے ناکام رہے جس نے دن کی روشنی میں جان دے کر پورے سماج پر ایک دھبہ چھوڑ دیا ۔ اس کے بعد بھی ہم خواب خرگوش میں مست رہیں تو وہ دن دور نہیں جب ہمارا سارا سماج اپنے ہی آنسووں میں ڈھوب کر نیست و نابود ہوجائے گا ۔
شمالی کشمیر کا علاقہ اس حوالے سے بڑا ذرخیز علاقہ ہے کہ یہاں ہر محلے اور ہر بستی میں انسانی فلاح و بہبود کے ادارے پائے جاتے ہیں ۔ ان اداروں کے سفیر پورے کشمیر میں گشت لگائے رہتے ہیں ۔ ہاتھ میں سفارت نامہ اور رسید بک لئے یہ گھر گھر جاکر صدقہ ، زکوات اور خیرات جمع کرتے ہیں ۔ بڑی تعداد میں ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو خالص لڑکیوں کے لئے قائم اداروں کے لئے چندہ جمع کرتے ہیں ۔ ایسے اداروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے آس پاس پائے جانے والے مستحق افراد کو تلاش کرکے ان کی زندگی کی ضروریات پورا کریں گے ۔ لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے ۔ یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ ایک ایسی لڑکی کو تلاش نہیں کیا جاسکا جس کے گھر میں چولہا جلانے کے لئے کچھ بھی موجود نہیں ۔دو یا تین افراد پر مشتمل ایک مختصر خاندان کی کفالت کرنے سے ہم قاصر رہے تو ہماری زندگی کا کیا مقصد ہے اور ہمارے مسلم سماج میں انسانیت کی کیا قدر ہے ۔ خود کشی سے پہلے کتنے دن اور کتنے مہینے اس لڑکی نے کوشش کی ہوگی کہ اس کی ضروریات پورا ہوجائیں ۔ کتنی ساتھیوں اور سہیلیوں کو اس نے عیش کرتے دیکھا ہوگا ۔ کتنی ہم جولیوں کو اس نے ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی گزارتے دیکھا ہوگا ۔ یہاں تک کہ کم تری کا شکار ہوکر اس نے اپنی جان جان آفرین کے حوالے کی ۔ ہمارے علما اس موقعے پر بھی ہمیں سکھاتے ہیں کہ خود کشی کتنا بڑا گناہ ہے ۔ ان کے فتوے اس بات کے ارد گرد گھومتے ہیں کہ خود کشی کرنے والے سے کیسے حساب لیا جائے گا ۔ اس دوران انہوں نے صدقہ و خیرات کے نام پر جو کچھ جمع کیا اس کی آمدن اور خرچ کا ان سے یہاں کوئی حساب ہے نہ وہاں کوئی باز پرس ہے ۔ خیرات جمع کرنے اور اسے اپنی عیاشیوں پر خرچ کرنے والے کس طرح آرام کی نیند سوتے ہیں یہ سمجھنا مشکل ہے ۔ سوپور اور اس کے آس پاس رہنے والے امیر کبیر لوگوں کو کیا یہ احساس ہے کہ ان کی دولت ایک معصوم کی جان بچانے کے کام نہ آسکی ۔ یہی کروڑوں سے کھیلنے والے لوگ گردن اوپر کرکے مدرسوں اور مسجدوں کی تعمیر کے لئے لاکھوں روپے اداکرتے ہیں ۔ وہاں ان کے نام کا بڑا چرچا ہوتا ہے ۔ وہاں ان کی خاص تعظیم ہوتی ہے ۔ ایک مفلوک الحال گھر کی مدد کرکے یہ نام کمانے میں کامیاب نہ ہوتے ۔ لیکن اس کے عوض انہیں جو انعام ملنے والا تھا وہ اس سے بہت بڑا انعام تھا جو دستاربندیوں اورسالانہ جلسوں کے موقعوں پر انہیں حاصل ہوتا ہے ۔پتہ نہیں کہ یہ لوگ کن غلط فہمیوں کا شکار ہیں ۔ ان کی سمجھ میں اسلام کی بنیادی تعلیمات کیوں نہیں آتی ہیں ۔ یہ ملائوں اور مولویوں کے جھانسے میں کیسے آتے ہیں ۔ صدقات اور خیرات کا اصل اسلامی فلسفہ ان کی سمجھ میں کیوں نہیں آتا ۔ اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود کہ جو کچھ یہ دین کے نام پر دیتے ہیں وہ صحیح جگہ خرچ نہیں ہوتا ۔ اس کے باوجود یہ ٹھگوں اور چوروں کے دائرے سے نکل نہیں آتے ۔ مسجدوں کے کلس تعمیر کرنے اور مدرسوں میں دیگیں پکانے کا اب مقصد کیا ہے جب ہماری ہمسائیگی میں ایک کلی کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی ۔ ہماری بستیوں میں رنگ و روغن اور آسمان سے چھوتی عمارتوں کا مقصد کیا ہے ۔ مسجدوں کے میناروں اور مدرسوں کے گنبدوں کی کیا قیمت ہے ۔ ہماری بستی میں ایک گھر ایسا بھی رہا ہے جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں ۔ ان کی غیرت انہیں ہاتھ پھیلانے کی اجازت بھی نہیں دیتی ہے ۔ یہاں کے معزز شہریوں کو کبھی اس بات کا خیال تک نہ آیا کہ ان کے پاس جاکر ان کی حالت زار سے متعلق جانکاری حاصل کریں ۔ ان کے جاننے والوں کو کبھی ضمیر نے نہیں ٹوکا کہ ان کی ضرورتوں کا جائزہ لیں ۔ ہمارے بڑے بڑھوں کو اس بات کا غم ہے کہ کتنے لوگوں نے مدرسوں سے سند حاصل کی ۔ جب ہی دین زندہ ہے اور مسلمان آباد ہیں ۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ان چیزوں سے کسی کا پیٹ نہیں بھرتا ۔ ہم فاقہ مستوں کا پیٹ کاٹ کر امیروں کے پیٹ بھرتے ہیں ۔ غریبوں سے ان کا لقمہ چھین کر امیروں کی گاڑیوں میں تیل بھرنے کے لئے دیتے ہیں ۔ ایسے لوگ نہ دین کے محافظ ہیں نہ دینداری کے تقاضے پورا کرتے ہیں ۔ جان لو کہ یہ لوگ جمعہ کو مسجدوں میں اس واقعے پر خوب آنسو بہائیں گے ۔ قرآن اور احادیث کا حوالہ دیں گے ۔ ایسا کرکے غریبوں کو غیرت دلائیں گے اور انہیں خیرات کرنے پر آمادہ کریں گے ۔ لیکن یہ خیرات کسی غریب کے گھر میں دو روٹیاں لانے کے بجائے پھر انہیں مولویوں کی جیبوں میں جائے گا ۔ یہ ان کے عیش و عشرت کے سامان بہم کرے گا ۔ کل کسی غریب گھر کی بہو بیٹی پھر خود کشی پر مجبور ہوگی ۔لیکن ہماری غیرت نہیں جاگے گی ۔ ہم جس دام فریب میں آج ہیں کل اسی میں پھنسے ہونگے ۔ دنیا میں ان پھندوں سے نکلیں گے نہ آخرت میں نجات ملے گی ۔
