تحریر:ضیاءالمصطفی نظامی
حضرت خواجہ معین الدین چشتی قدس سرہ کی زندگی کا ہر باب اطاعت خداوندی اور اتباع سنت نبویﷺ کا آئینہ دار تھا ۔ برصغیر میں اسلام کی دلکش بہاریں آپ کی دعوت وتبلیغ اور رُشد و ہدایت کا نتیجہ ہیں ۔
یوں تو ہندوستان میں اسلام کا چراغ آپ کے ورودِ مسعود سے پہلے منور چکا تھا مگر آپ کے گلشن ہدایت کی ایسی ہوا چلی جس سے سرزمین ہند میں شمع اسلام کا چراغاں ہی چراغاں ہو گیا ، آپ کی نگاہ ولایت جس پر پڑی دل کی دنیا بدل گئی آپ کے خلفاء سرزمین ہند پر جہاں تشریف لے گیے کفر وشرک اور الحاد و بے دینی کا اندھیرا چھٹتا چلا گیا ۔
حضور خواجہ غریب نواز کی ولادت 537 ھ کو سرزمین سجستان یاسیستان (موجودہ ایران) کےعلاقہ “ سَنْجَر “ میں ہوئی اس لیے آپ کو سنجری کہا جا تا ہے آپ کی سن ولادت کے متعلق تذکرہ نگاروں کے مابین اختلاف ہے لیکن محققین نے 537 ھ ہی کو ترجیح دیا ہے ۔
آپ کے والد گرامی کا نام سید غیاث الدین اور والدہ کا نام ام الورع ہے ، آپ نجیف الطرفین سید تھے آپ کا نسب نامہ پدری گیارہ واسطوں سے سیدنا امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ تک پہونچتا ہے ۔
اور نسب نامہ مادری بھی گیارہ واسطوں سے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے ملتا ہے ۔
آپ کے والد ماجد حضرت سید غیاث الدین حسن بڑے متقی و پرہیز گار تھے ۔
جب حضرت خواجہ غریب نواز کی عمر مبارک پندرہ سال کی ہوئی تو والد محترم کا سایہ سر سے اٹھ گیا وراثت میں ایک باغ اور پن چکی ملی جس کی آمدنی ان کا ذریعہ معاش تھا جس سے آپ کی بسر اوقات ہوتی تھی ۔ سید نظیر علی اجمیری اپنی کتاب معین الاولیاء میں حضرت خواجہ غریب نواز کی شانِ غریب نوازی کا ایک واقعہ تحریر فرماتے ہیں : حضرت خواجہ غریب نواز اپنے بچپن میں ایک عید کے موقع پر نہایت عمده لباس زیب تن کیے ہوۓ نماز دوگانہ ادا کر نے عید گاہ کی جانب تشریف لے جارہے تھے راستے میں آپ کی نگاہ ایک لڑکے پر پڑی وہ لڑکا اندھا تھا اور پھٹے کپڑے پہنے ہوئے تھا آپ اس لڑکے کو دیکھ کر رنجیدہ ہوۓ اور فوری طور پرشان غریب نوازی کو جوش آیا آپ نے اپنے کپڑے اتار کر اس غریب اور اندھے لڑکے کو دے دیئے اور خود پرانے کپڑے پہن کر اس لڑ کے کواپنے ساتھ لے گئے ۔
حضرت خواجہ غریب نواز علوم ظاہری کی تلاش میں جنگلوں ، پہاڑوں صحراؤں ، دریاؤں کو عبور کر کے بڑی صعوبتیں برداشت کرتے ہوۓ سمرقند سے بخارا پہنچے چونکہ اس وقت بغداد سمرقند و بخارا اسلامی علوم وفنون کے مرکز تھے اور وہاں پہونچ کر اس وقت کے متبحر عالم دین مولا نا حسام الدین بخاری جیسی عظیم المرتبت شخصیت سے علوم ظاہری کی تعلیم حاصل کی ۔
حضرت غریب نواز 551 ھ میں بغدا سے سفر حرمین شریفین کے لیے روانہ ہوۓ ۔اور 552 ھ میں ہارون پہونچے وہاں حضرت خواجہ عثمان ہارونی کے دست حق پرست پر بیعت کی تھی،تقریباً 20 سال تک پیرومرشد کی بارگاہ میں مصروف مجاہدہ رہے ۔
557 ھ میں جب حضرت خواجہ غریب نوازہندوستان کے لیے روانہ ہوئے اس وقت آپ بغداد میں مقیم تھے ۔ بغداد سے چل کر آپ ہمدان پہونچے ہمدان سے تبریز تشریف لے گئے تبریز میں آپ حضرت ابوسعید تبریزی سے ملے جوشیخ جلال الدین تبریزی کے پیر و مرشد ہیں ۔ تبریز سے آپ استر آباد کے لیے روانہ ہوئے وہاں آپ نے شیخ ناصر الدین استر آبادی سے ملاقات کی اور وہاں سے بخارا پہونچے اس سفر کے متعلق حضرت خواجہ غریب نواز بیان فرماتے ہیں کہ :دوران سفر بخارا میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی یہ از حد مشغول تھا لیکن نابینا تھا میں نے اس سے دریافت کیا کہ کب سے نابینا ہوۓ ؟ عرض کیا: جب میرا کام کمالیت کو پہونچا اور وحدانیت وعظمت پر نگاہ پڑنی شروع ہوئی تو ایک دن میری نگاہ غیر پر پڑگئی غیب سے ندا آئی : ” اے مدعی ! دعوی تو ہماری محبت کا کرتا ہے مگر غیر کی طرف دیکھتا ہے ۔ جب یہ آواز سنی تو ایسا شرمندہ ہوا کہ بات تک نہ ہوسکی بارگاہ خداوندی میں التجا کی کہ جو آنکھ دوست کے سوا غیر کو دیکھے اندھی ہو جاۓ ابھی یہ بات اچھی طرح کہنے بھی نہ پایا تھا کہ دونوں آنکھوں کی بصارت چلی گئی ‘ ‘ ۔ حضرت خواجہ غریب نواز وہاں سے خرقان تشریف لے گیے وہاں پہونچ کر آپ نے حضرت ابوالحسن خرقانی کے مزار مقدس پر حاضری دی اور باطنی فیوض و برکات سے سرفراز ۔ ہوۓ ۔ خرقان سے سمر قند کے لیے روانہ ہوۓ اس سفر کے متعلق حضرت خواجہ غریب خود فرماتے ہیں :’ ’ ہنگام مسافرت جب میں سمرقند میں تھا وہاں ابواللیث سمرقندی کے مکان کے قریب ایک مسجد تھی اس کی محراب کے قبلہ رخ ہونے کے متعلق ایک دانش مند نے اعتراض کیا لیکن میں نے اسے محراب کے صیح قبلہ رخ ہونے کا بالمشاہدہ اطمینان کرادیا ‘ ‘ ۔
سمرقند سے مدینہ تشریف لے گیے وہاں خواجہ ابوسعید ابوالخیر کے مزار مقدس سے باطنی فیوض و برکات سے شادکام ہوۓ ۔ پھر چشت ہوتے ہوۓ ہرات روانہ ہوۓ ہرات میں آپ مجاہدات وریاضات میں مشغول رہے حضرت شیخ عبداللہ انصاری کے مزار مقدس پر حاضر ہوکر آپ نے باطنی فیوض حاصل کیے بسا اوقات پوری پوری رات مزار کے قبہ میں بیداررہتے تھے ۔ دھیرے دھیرے آپ کی بزرگی اور کشف وکرامات کی شہرت ہرات میں پھیلنے لگی لوگ جوق در جوق آپ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے آپ کو شہرت نام ونمود اور مخلوق کی بھیڑ نا پسند تھی پس آپ ہرات سے چل دیے اور سبزہ دار جو افغانستان میں واقع ہے تشریف لے گیے سبزہ دار میں کچھ دن قیام فرما کر آپ نے ہندوستان کا رخ فرمایا شادماں فورٹ ہوتے ہوۓ آپ مورخہ 10 محرم الحرام 521 ھ مطابق 1نومبر 1165 ءملتان رونق افروز ہوئے ۔ ملتان سے لاہور تشریف لے گیے لاہور میں حضرت شیخ علی ہجوری جودا تا گنج بخش کے لقب سے مشہور ومعروف ہیں کے مزار مقدس پر اعتکاف فرمایا آپ کا حجرہ جس میں آپ نے اعتکاف فرمایا آج بھی مرجع خاص و عام ہے ۔ وہاں سے روانہ ہوتے وقت آپ نے یہ شعر پڑھا ۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کا ملان رارہنما
پھر لاہور سے دہلی روانہ ہوئے اور دہلی پہونچ کر راج محل کے سامنے قیام فرمایا مخلوق خدا جوق در جوق آپ کے پاس جمع ہونے لگی اور آپ کی روح پر ور باتوں سے اپنی تشنگی بجھانے لگی۔آپ کے ورود مسعود کی برکتوں سے اسلام کی شعائیں پھیلیں اور پھیلتی چلی گئیں کفر و شرک کے دائرے سمٹتے گے مصطفی جان رحمت ﷺ کے غلاموں کی تعداد بڑھتی گئی ، اپنے مرید وخلیفہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کا کی قدس سرہ کو دہلی میں چھوڑ کر آپ دارالخیراجمیرمعلی کا قصد فر مایا ۔
خواجہ خواجگان سلطان الہند سرکارغریب نواز قدس سرہ جس وقت اجمیر معلی تشریف لاۓ اس وقت اجمیر کا راجہ پرتھوی راج چوہان تھا جسے رائے پتھورا بھی کہتے ہیں اور 587 ھ میں ورود اجمیر ہوا ۔
حضور خواجہ خواجگاں نے تقریباً54 سال تک اپنی دعوتی تبلیغی سرگرمیاں پھیلا کر ملک ہندکو روحانیت کا عظیم مرکز بنادیا روحانیت کے عظیم مبلغ سلطان الہند سرکارغریب نواز قدس سرہ نے6 رجب 633ھ مطابق16/مارچ 1236 ء کو وصال یار کا جام نوش فرمایا نماز عشاء کے بعد حجرہ پاک کا دروازہ بند ہوا اورجب نماز فجر کے لیے دروازہ کھولا گیا تو حضور خواجہ خواجگاں وصال یار کی لذت سے آشنا ہوکر غریق رحمت الہی ہو چکے ہیں اور پیشانی مبارک پر یہ غیبی تحریرمنقش ہے ہذا حبیب اللہ مات في حب اللہ ۔
