تحریر: ڈاکٹر جی ایم بٹ
ہم جس زمانے میں رہتے ہیں یہ خود غرضی کے عروج کا زمانہ ہے ۔ انسان کی تمام تر دلچسپی اپنا اسٹیٹس اونچا کرنے سے جڑی ہے ۔ ذاتی مرتبہ بڑھانے کے لئے غلط اور صحیح راستے کے تعین کی کسی کو فکر نہیں ۔ یہ کوئی عجیب بات نہیں ۔ بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ یہی زمانے کا تقاضا ہے ۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ زندگی کی بقا مالی استحکام پر منحصر ہے کوئی مادی وسائل سے انحراف نہیں کرسکتا ہے ۔ آمدنی کے زیادہ سے زیادہ وسائل تلاش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ ایسا پہلی بار نہیں ہورہاہے ۔ ماضی میں بھی ایسے مراحل آئے ہیں جب زندہ رہنے کے لئے مادی سہاروں کی ضرورت محسوس کی گئی ۔ بلکہ survival کا جو نظریہ بنا وہ انہی ضرورتوں کے پیش نظر سامنے آیا ۔ اس کی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ بہت سے قبیلے اس وجہ سے زوال پذیر ہوئے بلکہ ان کا وجود مٹ گیا کہ انہوں نے زندہ رہنے کے ظاہری اسباب اور مادی وسائل نظر انداز کئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے پندرہ سو سال پہلے اپنے صحابہ سے اہل وعیال کو پالنے اور ان کے لئے روزی روٹی کے وسائل مہیا رکھنے کی ترغیب دی ۔ کسی صحابی نے اپنی اراضی کا بڑا حصہ جب اللہ کی راہ میں دینے کا عندیہ ظاہر کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے اہل وعیال کے لئے بچاکے رکھو تاکہ آپ کی موت کے بعد وہ محتاج نہ بن جائیں ۔ اس کے بعد جو حصہ اضافی ہو وہی اللہ کی راہ میں خرچ کرو ۔ اس سے انکار نہیں کہ اسلام نے مال وزر کے انبار لگانے سے منع کیا ہے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا بڑا اجر بتایا ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ غربت اور محتاجی کو پسند نہیں کیا ہے ۔ آنے والی نسلوں کا خیال رکھنے کی تعلیم بھی دی ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں دو اسلام ہیں ۔ ایک علما نے اپنے لئے مخصوص کیا ہوا ہے ۔ دوسرا عام لوگوں کے لئے بنادیا گیا ہے ۔ ہمارے نام نہاد علما یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اپنا مال علما کی تجوریوں میں جمع کرو جب ہی جنت کے حقدار بنو گے ۔ ہمارے علما لاکھوں اور کروڑوں میں کھیل رہے ہیں ۔ عام لوگ سرکار سے مفت چاول اور دوسری مراعات لے کر زندگی گزار رہے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ پسماندہ طبقے سرکاری گھاٹوں سے جو مفت چاول حاصل کررہے ہیں ہمارے علما اس سے بھی حصہ مانگ کر اس کے بدلے جنت کی گارنٹی دیتے ہیں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ عام لوگ ان باتوں پر یقین کرتے ہوئے ان کے کھاتوں میں سب کچھ ڈال رہے ہیں ۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ یہی نجات کا واحد راستہ ہے ۔ لوگ اس دھوکے میں آکر خود غربت کی زندگی بسر کررہے ہیں اور علما کے لئے پر تئیش زندگی کے اسباب پیدا کررہے ہیں ۔ یہ علما اپنی آنی والی نسلوں کے لئے باغات لگارہے ہیں ۔ غریبوں کو جنت کا باغ حاصل کرنے کی تعلیم دے رہے ہیں ۔ علما اپنے لئے دو دو تین تین بیویاں بیاہ کرلاتے ہیں ۔ ان کی اولاد کئی کئی شادیاں کرتے ہیں ۔ غریبوں کو جنت میں حوروں کا لالچ دیتے ہیں ۔ علما اپنی اولاد کے لئے سونا جوہرات اور بینک بیلنس جمع کررہے ہیں ۔ غریبوں کو آخرت میں کامیابی تلاش کرنے کا وعظ سناتے ہیں ۔ پہلے ہمارے سماج میں صرف دو طبقے جی رہے تھے ۔ امیر اور پسماندہ طبقہ ۔ اب ناز نخروں والے علما کا ایک نیا طبقہ تیار ہوچکا ہے ۔ جن کے پاس زندگی کی تمام بنیادی ضروریات کے علاوہ ساری ایسی آسائشیں میسر ہیں جو امیر طبقے تک محدود تھیں ۔ اعلیٰ درجے کی تمام سہولیات میسر ہونے کے بعد بھی ہمارے علما بھیک سے ہاتھ نہیں کھینچتے اور پوری تن دہی سے غریب عوام کو لوٹنے میں مصروف ہیں ۔ یہ اسلام کے سایے تلے وہ سب لذتیں اور عیاشیاں حاصل کررہے ہیں جن سے اسلام نے منع کیا ہے ۔
یہ سوچنا کہ کسی کی نظریں اس طرف نہیں اٹھتی ہیں ۔ بلکہ دیکھنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں ۔ وہ یہ دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ لوگ بجلی فیس ادا کرنے سے انکار کررہے ہیں ۔ زمین کا مالیہ دینے سے سستی کررہے ہیں ۔ بینک سے قرضہ لے کر ادائیگی سے پہلو بچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اولڈ ایج پنشن لینے کے لئے دو دو چار چار دن لائنوں میں کھڑا رہتے ہیں ۔ مفت چاول کی سپلائی میں اضافہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ کھادوں اور ادویات میں سبسڈی کی خواہش کرتے ہیں ۔ وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ان کے پاس خرچ کرنے کو کچھ موجود نہیں ۔ ان کی مالی حالت ٹھیک نہیں ۔ اس دوران ہر بستی اور ہر محلے میں اعلیٰ پائے کے مدرسے بن رہے ہیں ۔ مدرسے چلانے والے زرق برق لباس پہنے ہوئے ہیں ۔ ان کے پاس دس دس پندرہ پندرہ لاکھ کی گاڑیاں موجود ہیں ۔ ان کے پاس عالی شان کوٹھیاں ہیں ۔ ان کے گھروں میں روپے پیسوں کی ریل پیل ہے ۔ ایک طرف لوگ غربت کا رونا روتے ہیں ۔ دوسری طرف دین کے پجاریوں کے لئے عیش و عشرت کے سامان مہیا کررہے ہیں ۔ غریب سماج میں یہ سب کچھ ممکن نہیں ۔ لوگ جب دین کے نام پر ناجائز طریقوں سے بہت کچھ کماتے ہیں ۔ اسلام کی حفاظت کے لئے بھیک کے ذریعے لاکھوں اور کروڑوں کماتے ہیں ۔ تو جائز اخراجات ادا کرنے سے انکار کیوں کرتے ہیں ۔ جو شخص بجلی فیس ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتا مسجد کی بنیاد کے وقت بولی لگانے کو سب سے آگے کیسے ہوتا ہے ۔ جو شخص ادویات خریدنے کی سکت نہیں رکھتا اور گولڈن کارڈ پر بہت سے اخراجات تلاش کرتا ہے ۔ وہی شخص مدرسوں کے لئے چندہ دینے میں کیسے آگے آگے ہوتا ہے ۔ یہ بڑی عجیب بات ہے ۔ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ دین کی تبلیغ کرنے والوں کو پیٹ نہیں بھرتا ۔ سب کچھ میسر ہونے کے بعد بھی یہ لوگ بھیک مانگنے میں شرم محسوس نہیں کرتے ۔ بلکہ اپنے لئے بھیک مانگنا جائز اور اس کے بدلے جنت کی گارنٹی بھی دیتے ہیں ۔ یہ نبی کا نہیں بلکہ جدید علما کا اپنا اسلام ہے ۔
