تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
شب برات کے موقعے پر بڑی تعداد میں مسلمانوں نے دینی مجالس کا اہتمام کیا ۔ شب خوانی کی گئی اور روروکر دعائیں مانگی گئیں ۔ اس موقعے پر مسجدوں اور دوسری زیارت گاہوں پر روحانی مجالس کا اہتمام کیا گیا ۔ مسلمان مردوں سے زیادہ خواتین نے اللہ کی بارگاہ میں اپنی فریاد پیش کی ۔ اس موقعے پر کئی لوگوں کو قبرستانوں میں چراغاں کرتے بھی دیکھا گیا ۔ شب برات کے حوالے سے بہت سی روایات پیش کی جاتی ہیں ۔ کچھ صحیح اور کچھ روایات ضعیف بتائی جاتی ہیں ۔ تاہم اللہ کے حضور میں عجز وانکساری سے پیش ہونے اور دعائیں مانگنے کو ایک اہم دینی روایت کے طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ راتوں کو اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا اور دعائیں مانگنا اسلام کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے ۔ اس کے لئے کوئی وقت یا کوئی دن مخصوص نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ مسلمانوں کو ترغیب دی گئی ہے کہ راتوں کو اٹھ کر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوجائیں ۔ رسول اللہ ﷺ کو اس طور سے خاص ہدایات دی گئی ہیں ۔ قرآن پاک کے سورہ مزمل میں تاکید کی گئی ہے کہ رات کے آخری حصے میں اٹھ کر اللہ کی عبادت کرتے رہیں ۔ تہجد کا ذکر بھی اسی سورت میں ہے اور اللہ سے دعائیں مانگنے کی تعلیم بھی دی گئی ہے ۔ اگرچہ پوری رات عبادات میں صرف کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ راتوں کو عبادت کے لئے اٹھو لیکن کم وقت کے لئے ۔ اسلام سے پہلے دنیا میں رہبانیت کا تصور عام تھا ۔ اس سے پہلے کلیسا نے یہ تعلیم عام کی تھی کہ جسم کا میل روح کی پاکیزگی کی علامت ہے ۔ اس وجہ سے ان تعلیمات پر عمل کرنے والوں نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے آپ کو فرضی عبادات میں مشغول کررکھا تھا ۔ بدھ مت جو ایک عالمی مذہب کے طور ابھر کر آیا تھا سب سے زیادہ ترک دنیا پر مائل تھا ۔ بودھ راہب رات دن عبادات میں مشغول رہتے تھے ۔ سب سے قدیم مذہب ہندو ازم نے سماج کو کئی طبقوں میں تقسیم کرکے اپنے ماننے والوں کی کثیر تعداد کو دنیا سے بے نیاز کرکے مذہبی پیشوائوں کی خدمت پر مامور کیا تھا ۔اس طرح سے مکتی کو اسی عبادت سے منسلک کیا گیا تھا ۔ آخر میں جب اسلام آیا تو اس نے حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کو بھی ضروری قرار دیا ۔ بندوں کے حقوق مسجدوں اور عبادت گاہوں میں مقید ہوکر ادا نہیں کئے جاسکتے ہیں ۔ بلکہ دنیا کے رزم و بزم میں یہ حق ادا کیا جاسکتا ہے ۔ اس تناظر میں اسلام نے پہلی بار آخرت کی کامیابی کے ساتھ دنیا کی کامیابی کو دین کا جز ومان لیا ۔ یعنی دنیا کمانا بھی ایک طرح کی عبادت قرار دیا گیا ۔ دونوں پہلووں یعنی اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی گئی ۔ عبادت کے لئے دن رات کا کچھ حصہ مخصوص کیا گیا ۔ باقی پورا وقت دنیا پر صرف کرنے کی ترغیب دی گئی ۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی زیادہ سے زیادہ عبادت کریں ایسا وہ دن میں نہیں کرسکتے ہیں ۔ دن کی روشنی میں دنیا کے معاملات طے کرنا ہونگے ۔ اس کے برعکس اللہ کی عبادت کے لئے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ۔ بلکہ صاف کہا گیا کہ رات کو کی جانے والی عبادت دن کی عبادت سے زیادہ اجر کی مستحق ہے ۔ اس عبادت کا زیادہ اجر دیا جائے گا جو رات کو لوگوں کی نظروں سے دور کی جائے گی ۔ تاہم اس کے لئے پوری رات صرف کرنے سے روک دیا گیا ہے ۔ کہا گیا ہے کہ رات کا مختصر حصہ عبادت کے لئے مخصوص ہونا چاہئے ۔ ایسے لوگوں کے لئے ہر رات شب برات اور شب قدر ہے ۔یہی لوگ کامیاب وکامران ہیں ۔
شب برات کو لوگوں نے جم کر عبادت کی اور دعائیں مانگی ۔ اس سے پہلے بھی اللہ کے بندوں کو وقت بے وقت آنسو بہاتے اور دعا کرتے دیکھا گیا ۔ لیکن ہماری یہ دعائیں اللہ کی بارگاہ میں شاید قبول نہیں ہورہی ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ دعائیں یکسر مسترد کی جارہی ہیں ۔ بلکہ اللہ کی عنایات آج بھی ہم پر نازل ہورہی ہیں ۔ تاہم بعض معاملات میں مسلمان بڑے تنگ اور کمزور نظر آتے ہیں ۔ مسلمان دعا کرتے ہیں کہ ماضی کی طرح جب ان کا پوری دنیا میں بول بالا تھا حال بھی اسی طرح چمک دار بنے ۔ لیکن ایسا نہیں ہورہاہے ۔ مسلمان آج بھی محکوم ومجبور ہیں ۔ دنیا کے ہر حصے میں یہ سخت مشکلات کا شکار ہیں ۔ ان کی بے بسی اور بے کسی کی مثالیں دی جاتی ہیں ۔ یہ اس لئے نہیں ہے کہ مسلمان اللہ کی راہ چھوڑ کر ابلیس کی راہ پر گامزن ہیں ۔ نہیں ۔ بلکہ آج مسلمانوں کا بڑا طبقہ دین کا زیادہ پابند ہے ۔ لیکن اجتماعی کامیابی اور غلبہ کے لئے جو طریقہ کار اختیار کرنا ہے وہ نہیں اپنایا جاتا ہے ۔ ایسی کامیابی شب قدر اور شب برات کی دعائوں سے نہیں ملتی ہے ۔ اس کے لئے اللہ نے الگ دستور وضع کیا ہے ۔ راتوں کی عبادت انفرادی نجات کا ذریع ہے ۔ اجتماعی ترقی کے لئے جس جدوجہد اور جس عمل کی ضرورت ہے مسلمان اس سے لاتعلق ہیں ۔ اس کے لئے جس شاہراہ پر چلنا ہے مسلمان اس کو ترک کرچکے ہیں ۔ جو قومیں اس شاہراہ پر چل رہی ہیں اللہ انہیں برابر کامیابی سے نوازتا رہتا ہے ۔ ایسی بہت سی قومیں ہیں جو دعا کریں یا نہ کریں ۔ شب برات کے روز مناجات اور چراغاں کریں یا نہ کریں ۔ لیکن اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں پر گامزن ہیں ۔ اس وجہ سے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتے جاتے ہیں ۔ انہیں اس وجہ سے اللہ اپنی تمام رحمتوں اور ترقیوں سے نوازتا ہے ۔ ہم کتنا بھی ان کے لئے بددعائیں دیتے رہیں ۔ انہیں گالیاں دیتے رہیں ۔ انہیں اللہ کا باغی اور دشمن قرار دیں ۔ لیکن وہ سچائی ، خلوص اور دیانتداری کے جن اصولوں کو اپنائے ہوئے ہیں اللہ انہیں اس کا پورا پورا بدلہ دے رہا ہے ۔ یہی چیزیں دنیا پر چھاجانے کے لئے اللہ کے مظلوب ضابطے ہیں ۔ ہم ان ضابطوں کو بھول کر غیر اللہ کے طریقوں پر چل کر اللہ کی عنایات چاہتے ہیں ۔ ایسا ہر گز ممکن نہیں ۔ اللہ کے مقرر کئے ہوئے اصولوں پر چل کر ہی ترقی پائی جاسکتی ہے ۔ جو لوگ ان اصولوں کو اپنائے ہوئے ہیں وہ برابر ترقی حاصل کررہے ہیں ۔ باقی سب لوگ اس ترقی سے محروم کئے جاتے ہیں ۔ چاہئے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم ۔
