تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
اعتکاف اسلامی عبادات میں ایک منفرد عبادت ہے ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے کافی زور دیا ہے ۔آپؐ نے ہر سال اعتکاف فرمایا ۔ ایک سال کسی وجہ سے اعتکاف پر نہ بیٹھے تو اگلے سال اس کی تلافی کی ۔ اعتکاف ماہ صیام کے آخری دس دنوں کے لئے ہے ۔ ان ایام کے دوران مرد مسجد وں میں اور خواتین اپنے گھروں کے اندر الگ تھلگ بیٹھ کر اللہ کی عبادت میں مشغول ہوتی ہیں ۔ اعتکاف کا مقصد قیام اللیل ہے ۔ اس ذریعے سے معتکف شب قدر کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوتا ہے ۔ شب قدر کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ اسے ماہ صیام کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کیا جاسکتا ہے ۔ اسی مقصد سے معتکف تنہائیوں میں بیٹھ کر اللہ کے ساتھ لو لگاکر بیٹھتے ہیں ۔ قرآن کی تلاوت کرتے اور اللہ سے مغفرت کی دعا مانگتے ہیں ۔ ایک بندہ رات کی تنہائیوں میں بیٹھ کر اللہ کے نزدیک آنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس کے سامنے رو رو کر اور گڑگڑاکر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے ۔ آخرت میں کامیابی کی دعا کرتا ہے ۔ دنیا کے شور وغل اور کاروبار زندگی سے بے فکر ہوکر اللہ کی عبادت میں محو ہوتا ہے ۔ اللہ سے ہم کلام ہوکر اس سے اپنی خواہشیں بیان کرتا ہے ۔ ایک مسلمان کی بڑی اور واحد خواہش یہی ہوتی ہے کہ آخرت میں اللہ اور اس کے رسول کے سامنے سرخ رو ہوجائے ۔ یہی دعا اللہ سے کرتا ہے ۔
اعتکاف کی اصل اور صحیح روح یہ ہے کہ ان ایام میں ایک شخص پوری طرح سے بے فکر ہوکر تنہائی میں اللہ سے نزدیک ہونے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس میں پورا مزہ جب ہی آتا ہے کہ اللہ پوری طرح سے تنہا ہوکر اللہ کی عبادت اور اس کے ساتھ گفتگو میں محو ہوجائے ۔ اس غرض سے مسجد کے اندر بھی ایک کونا مخصوص کرکے وہاں اطراف کو کپڑا باندھ کر الگ کیا جاتا ہے ۔ اس طرح سے خلوت نشینی کا ماحول بناکر اعتکاف کے لئے ایک مخصوص کوٹھری مختص کی جاتی ہے ۔ یہی اعتکاف کا صحیح طریقہ اور اللہ سے قریب ہونے کا مناسب ذریعہ ماناجاتا ہے ۔ بدقسمتی سے کچھ عرصے سے اس طریقے کو ترک کرکے اجتماعی طریقہ اعتکاف شروع کیا گیا ہے ۔ اس بات سے کوئی بحث کرنا مقصود نہیں کہ شرعیت نے اس طریقہ اعتکاف کو جائز قرار دیا ہے کہ نہیں ۔ جن لوگوں نے اپنے حلقہ اثر میں اس طریقے کو رائج کیا ہے ان کی نظر شرعیت پر ضرور ہوگی ۔ انہوں نے کہیں نہ کہیں سے اس کا جواز تلاش کیا ہوگا ۔ ایسے لوگوں کے لئے اپنے مطلب کی چیز تلاش کرنا کوئی مشکل بات نہیں ۔ کل تک جو چیزیں ناجائز تھیں آج کھلے عام ان کو جائز قرار دیا جارہاہے ۔ شب قدر کے حوالے سے جو مفتی اور مولوی کوئی رات مخصوص کرنا ناجائز قرار دیتے تھے وہی لوگ آج اس کو ستائیس شب کے لئے مشخص کررہے ہیں ۔ ان ملائوں نے پوری شریعت کو بدل دیا ہے ۔ جہاں کہیں بھی انہیں اپنا مفاد نظر آتا ہے اس کو شریعت کا حصہ قرار دیتے ہیں ۔ اس کے لئے قرآن سے آیات تلاش کرتے ہیں اور ان آیات کے وہ مطالب پیش کرتے ہیں جس کی امت میں اب تک کہیں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ احادیث کو صحیح اور ضعیف قرار دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کام ہے ۔ انہوں نے ایک ایسا اسلام تشکیل دیا ہے جو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت سے کہیں میل نہیں کھاتا ہے ۔ کل تک جو جائز تھا آج ناجائز ہے اور جو ناجائز تھا وہ سب جائز ہے ۔ ہمارا یہ مطلب نہیں کہ اعتکاف کے جو نئے طریقے تلاش کئے گئے وہ صحیح نہیں ۔ ان کے لئے جواز ضرور موجود ہوگا ۔ لیکن اس شرعی جواز کو کچھ مخصوص حلقوں تک محدود کرنا ملائوں اور مولویوں کا کمال ہے ۔ اس ذریعے سے اپنے مطلب کی چیز تلاش کرنا ان کا ہنر ہے ۔ باریک بینی سے شریعت سے ایسے نازک مسائل نکال لانا ان کا علمی کمال ہے جن سے ان کے ذاتی اغراض پورے ہوتے ہوں ۔ اپنے مفادات شریعت کے حاشیوں سے ڈھونڈ نکالنا ان کی علمی بصیرت ہے ۔ یہ بصیرت دوسرے حلقوں میں کہیں نظر نہیں آتی ۔ امام بخاری اور امام غزالی سے لے کر آج تک جو چیزیں کسی کو نظر نہیں آئیں وہ آج بڑے کمال سے اسلام کا حصہ بنائی گئی ہیں ۔ ہمارے لئے یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ ان چیزوں سے اسلام کے لئے کیا خدمت انجام پاتی ہے ۔ ان سے اسلام کو آگے بڑھنے میں کہاں مدد ملتی ہے کسی دوسرے کے لئے اس کا ادراک ناممکن ہے ۔ وہ لوگ جو اسلام کی تشہیر کے لئے کفر سے بھرے سماج کے اندر کام کرتے ہیں ان کے لئے یہ چیزیں مددگار نہیں ۔ لیکن کونوں کھدروں میں بیٹھ کر اپنا پیٹ پالنے والوں کے لئے یہی اسلام کی صحیح خدمت ہے ۔ ان کے لئے اسلام کی اصل حفاظت یہی لوٹ کھسوٹ ہے ۔ اجتماعی قربانی اور اجتماعی اعتکاف سے اسلام کو آگے بڑھانے میں ہر گز کوئی مدد نہیں ملے گی ۔ بلکہ یہی اسلام کی بدنامی کا سبب ہے ۔ اس بات سے انکار نہیں کہ اعتکاف اسلامی عبادات میں منفرد مقام رکھتا ہے ۔ لیکن اس عبادت کو مسخروں اور بھانڈوں کے طرز پر ادا کرنا عبادت کے زمرے میں نہیں آتا ۔ اعتکاف کا جو اصل مقصد ہے و ہ ڈراما بازی سے حاصل نہیں ہوگا ۔ اعتکاف سے جو روحانی عروج ملنا ہے وہ فرضی آنسو بہانے اور شور وغل سے حاصل نہیں ہوگا ۔ ایسا ہوتا تو دمحال فقیروں اور گانے بجانے والوں کو یقینی طور اسلام میں اعلیٰ مقام ملتا ۔ آج اسلام کے نام پر جو شو اور ایڈواٹائز کیا جاتا ہے وہ اسلام کے نام پر ایک بڑا دھبہ ہے ۔ اس میں عبادات کا عنصر کہیں موجود نہیں ۔ بلکہ یہ محض عیاشی اور فحاشی ہے ۔
