تحریر:این اے مومن
صوفی، تصوف سے منسلک اور متعلق اصطلاح ھے جو ایسے خدا دوست لوگوں اور درویشوں کے بارے میں استعمال ھوتا ھے جو تزکیہ نفس ، پرہیزگاری اور پاکبازی کی بلندیوں پر فائز ہوں۔ یہ دنیوی لالچ ،حرص و طمع اور مادی مفادات سے بے غرض نفوس قدسیہ ہوتے ھیں ۔ برصغیر میں یہ اصطلاح فنا فی اللہ، فقراء ، ریشیوں اور درویشوں کیلئے استعمال ہوتاھے۔ یہ صوف یا کھردرے کپڑے سے نکلاھے یا اہل صُفہ سے مشتق ھے یا کچھ اور اس کا بیک گراونڈ ھے، یہ ثانوی مسلہ ھے مگر ایک بات کی وضاحت ضروری ھے کہ اہل شریعت اس کو زیادہ تر صُفہ ہی سے جوڑ دیتے ہیں۔
صُفہ سے مراد مسجد نبوی صلی الله علیہ و آلہ وسلم کا صُفہ (چبوترہ) ہے۔ اہلِ صفہ وہ چند صحابہ کرام تھے جنہوں نے اپنے آپ کو دنیوی معاملات سے علیحدہ کر کے رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ کے لئے وقف کر دیا تھا ۔ گویا یہ بارگاہ نبوی صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے خاص طالب علم تھے۔ یہ لوگ سادہ لباس پہنتے تھے اور غذا بھی سادہ استعمال فرماتے تھے۔ ( ابن تیمیہ کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے انہیں سوال کرنے سے بلکل منع کر دیا تھا۔) چونکہ صوفیاء کرام کی زندگی میں اصحابِ صفہ کی زندگی کی جھلک موجود ہوتی ہے، اس وجہ سے ان
کو صوفی کہا جاتا ہے۔
صوفی کی تعریف،صوفیاء کے نزدیک
الصوفی من لبس الصوف علی الصفا واذاق الھویٰ طعم الجفا ولزم طرق المصطفیٰ و کانت الدنیا منہ علی القفاء
”صوفی وہ ہے جو قلب کی صفائی کے ساتھ صوف پوش (سادہ لباس) ہو اور نفسانی خواہشات کو (زہد کی) سختی دیتا ہو اور شریعت مصطفیٰ صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو لازم پکڑتا ہو اور دنیا کو پسِ پشت (غیر مقصود) ڈال دیتا ہو۔“
.. حضرت شیخ ابو علی رودباری رح ..
الصوفی ھو ان یکون العبد فی کل وقت بما ھو اولیٰ بہ فی الوقت
”صوفی وہ ہے جو ہر وقت اُسی کا ہو کر رہتا ہے جس کا وہ بندہ ہے۔“
.. حضرت عمر بن عثمان مکی رح ..
الصوفی ساکن الجوارح مطمئن الجنان مشروح الصدر منور الوجہ عامر الباطن غنیا عن الاشیاء لخالقھا
”صوفی پرسکون جسم، دل مطمئن، منور چہرہ، سینہ کشادہ، باطن آباد اور تعلق مع الله کی وجہ سے دنیا کی تمام اشیاء سے بے پرواہ ہوتا ہے۔“
.. حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رح ..
منقطع عن الخلق و متصل بالحق
”صوفی مخلوق سے آزاد اور خدا سے مربوط ہوتا ہے۔“
صوفی ازم اسلام سے جدا نہیں
صوفیاء جیسا کہ مذکورہ بالا حقائق سے بھی ظاہر ہوتاھے ، رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ ہی میں موجود رہے ھیں مگر اس وقت انہیں صوفی کا نام نہیں دیاگیا تھا بلکہ اس زمانے کے تمام مومن ومتقین لوگ ایک ھی اصطلاح سے جانے جاتے تھے یعنی صحابہ رسول۔ پھر بعد میں آنے والے عظیم مسلمانوں کیلئے تابعین اور اس کے بعد والوں کیلئے تبع تابعین کا لفظ استعمال ہوتاگیا۔ امام قشیری کے مطابق صوفی کا لفظ 822 ۶ سے دیکھنے کو ملتا ھے۔ اس کے بقول تبع تابعین کے بعد زاہدین اور مخلص عبادت گذاروں اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والوں کے لیے یہ (متبادل) لفظ صوفی بن گیا۔ ( دیکھئے وکیپیڈیا میں تصوف پر مقالہ )
وکیپیڈیا کے مقالہ نگار کے مطابق
"صوفیا کے نزدیک اسلامی علوم کی دو قسمیں ہیں ایک ظاہری اور دوسری باطنی۔ ظاہری علوم سے مراد شریعت ہے، جو عوام کے لیے ہے۔ اور باطنی علم وہ ہے جو ان کے کہنے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چند صحابہ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت علی اور حضرت ابوذر کو تعلیم کیا۔ حضرت ابوبکر سے حضرت سلیمان فارسی اور حضرت علی سے حضرت حسن بصری فیضیاب ہوئے۔ صوفیا کے نزدیک تصوف کے چاردرجے ہیں۔
• شریعت
• طریقت
• حقیقت
• معرفت
جب تک یہ تمام درجات اپنے درست مقام پر حاصل نہ کیے جائیں اس وقت تک انسان صوفی نہیں ہو سکتا۔ شریعت اسلام کا ظاہر ہے اور طریقت اس کا باطن۔ اس کی سادہ سی مثال یوں دی جاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور میں بھی منافقین مسلمانوں کی صفوں میں شامل تھے جو ظاہر میں تو ہر وہ عمل کرتے تھے جس کے کرنے کا اسلام نے حکم دیا ہے جیسے کہ نماز روزہ، جہاد وغیرہ مگر دل ہی دل میں وہ کافروں کے ساتھ تھے اور یہ گمان کرتے تھے کہ ہم ان مسلمانوں کو دھوکا دے رہے ہیں۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کی طرف سے ان کے سب حالات معلوم تھے اور بعض اوقات تو اکابر صحابہ کی جانب سے بھی ان کو قتل کر دینے تک کا مطالبہ کیا گیا تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے جان و مال کو بالکل اسی طرح محفوظ رکھا جیسے کہ کسی مسلمان کا رکھا جاتا ہے یہاں پر ان کے ظاہر پر حکم لگایا گیا ہے جو شریعت ہی ہے۔ پس اگر کوئی شخص ظاہر میں نماز روزے کی پابندی اور دیگر فرائض ادا کرتا ہے تو زبان شریعت میں اسے کوئی کافر نہیں کہہ سکتا۔ اب چونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان کی حقیقت معلوم تھی اور اس بارے میں سورۃ المنافقین بھی اتری جس من ان کی نیتوں کو بے نقاب کر دیا گیا تو طریقت کے اعتبار سے یہ لوگ کافر ہیں اور ہمیشہ جہنمی ہیں مگر ان کے اس ظاہر کی وجہ سے مسلمانوں کا کوئی قاضی ان کو کچھ نہیں کہہ سکتا اور کوئی مفتی ان کے خلاف فتوی نہیں دے سکتا۔ یہاں پر اہل اللہ اور اولیاء اللہ اپنے باطنی نور سے ان کی حقیقت معلوم کر لیتے ہیں اور لوگوں کو ان کے شرور سے متنبہ کر دیتے ہیں”
تصوف کوئی غیراسلام چیز نہیں بلکہ یہ سر تا پیر قرآن و سنت سے تشکیل پایا ھے۔ اسلام نے جن صفات اور خوبیوں کو تزکیہ نفس ، احسان وغیرہ سے منسوب کیا ھے وہی صوفی ازم میں ایک مکمل شکل کے ساتھ ایک روحانی نظام یا باطنی سلسلہ میں پرویا جا چکاھے۔ تفصیل کا یہاں موقعہ نہیں ۔ تصوف پر لکھی جانے والی کتابوں میں اس کی مفصل detail اور بحث موجود ھے اور انٹرنیٹ پر بھی ہزاروں آرٹیکلز اس کے اثبات میں دیکھے جاسکتے ھیں۔
صوفیاء کے اندر زیادہ تر لوگ خلوت نشین یا رہبانیت پسند ہوتےھیں اس کی بنیاد بھی خود رسول رحمت صلعم نے ڈالی تھی جب آپ صلعم نے کچھ صحابہ کرام کو نصیحت کی تھی کہ دور فتن میں اپنے ایمان کے بچاو کی خاطر تنہائی یعنی گوشہ نشینی اختیار کرنا۔ تاریخ اسلام سے واقفیت رکھنے والے لوگ جانتے ھیں کہ صحابہ کرام کی ایک خاصی تعداد بنوامیہ اور معاویہ کے زمانہ ہی میں دنیوی سرگرمیوں کو یا تو بڑی حد تک معطل کرچکے تھے یا پوری طرح اس سے لاتعلق ہوکر اللہ کی یاد میں لگ چکے تھے۔وہ سیاسی افراتفری اور انتشار وغیرہ سے متنفر ہوکر دور رہتے تھے۔
اسی طرح کچھ صوفیاء کا میلان میوزک اور سماع کی طرف بھی ہوتاھے۔ میوزک کے بارے میں تاریخ اسلام کی کتب ، احادیث وغیرہ سے صاف معلوم ہوتاھے کہ اسلام میں موسیقی کلی طور پر حرام نہیں اور صرف موسیقی کا وہ شعبہ حرام یا ناجائز ھے، جو فحش کو بڑھاوا دیتاھو ، غیر اخلاقی ہو اور منفی نفسانی خواہشات کی ترغیب دیتاھو ۔ عصبیت ، نفرت ، حمیت جاہلیہ وغیرہ پر اکسانے والا میوزک بھی جائز نہیں مگر وہ میوزک ، شاعری اور گیت یا قوالی جائز ہی نہیں بلکہ ثواب بھی ھے جو خدا اور رسول کی محبت ، دنیا کی بے ثباتی، آخرت کی یاد ، ندامت ، اور سخت دلوں کو ملائم بناتاھو، ایمان کو تقویت اور خیر کو فروغ دیتاھو۔
امید ھے اب آپ کو صوفی ازم یا صوفی منسلک کی پوری تفہیم ہوئی ھوگی اور ذہن میں ڈالی گئی کئی غلط فہمیاں دور بھی ہوئی ہوں گی۔
