تحریر:ڈاکٹر غلام قادر لون
’اور اس نے دین میں تمہارے لئے کوئی تنگی نہیں رکھی۔‘ (الحج: ۷۸)
’دین آسان ہے۔ (صحیح البخاری)
نماز عید: ’نماز عید کا وقت سورج نیزے کے برابر بلند ہونے سے ڈھلنے تک ہے۔‘‘ (فقہ الحدیث)
پچھلے کئی برسوں سے وادی کشمیر میں نماز عید صبح ساڑھے سات بجے تک ادا کرنے کا رحجان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ نماز عید کا وقت وہ وقت ہے جب سورج ایک نیزے کے برابر بلند ہوجائے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حدیث میں نماز عید کا وقت وہ ہے جب سورج ایک نیزے کے برابر بلند ہوجائے۔ تاہم یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ یہ نماز عید کا ابتدائی وقت ہے۔ اس کا انتہائی وقت زوال آفتاب ہے۔ جیسا کہ علماء نے صحیح حدیث سے استدالال کیا ہے۔ نماز کے دوران اگر زوال کا وقت داخل ہوجائے کہ نماز فاسد ہوگی اس لئے احتیاط کا تقاضا ہے کہ زوال سے پندرہ بیس منٹ پہلے نماز عید ختم ہو۔ فقہاء کرام نے تصریح کی ہے کہ زوال سے کچھ پہلے نماز ختم ہو۔ اگر زوال سے پندرہ بیس منٹ ہی نہیں آدھ گھنٹہ پہلے تک نماز عید کا آخری وقت مان لیا جائے تب بھی 11:15 بجے تک نماز عید ادا کی جاسکتی ہے چھوٹے دنوں میں زوال کا وقت وادی کشمیر میں 11:32 بجے پر اور بڑے دنوں میں 12:03 بجے پر شروع ہوتا ہے۔ گویا وای میں زوال شروع ہونے کا کم از کم وقت 11:32 بجے پر اور زیادہ سے زیادہ وقت 12:03 بجے ہوتا ہے۔ زوال سے آدھ گھنٹہ پہلے کا وقت بھی نماز عید کا آخری وقت مانا جائے تو چھوٹے دنوں میں گیارہ بجے اور بڑھے دنوں میں ساڑھے گیارہ بجے تک نماز عید کا وقت رہتا ہے۔ اگر مخصوص حالات اور موسم کو مد نظر رکھ کر نماز عید 9:00 سے 10:30 بجے تک تک بھی ادا کی جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
چند سال پہلے تک وادی میں اکثر مقامات عید کی نماز :8:00 بجے صبح سے 10:30 بجے صبح تک ادا کی جاتی تھی۔ اقراء مسجد سرائے بالا سرینگر کے مشہور خطیب اور مبلغ محترم شوکت شاہین صاحب نے عید الاضحیٰ کے موقع پر کہا کہ عید کی نماز صبح جلدی ادا کرنے کا کلچر عام ہوگیا ہے۔ حدیث کی اپنی تاویل نہیں کرنی چاہئے۔ نماز عید عظمت اسلام کی مجلس ہے۔ یہ سال میں دو نمازیں ہوتی ہیں۔ یہ قوت اسلام کا اظہار ہونی چاہئیں۔ اگر 10:00 بجے بھی نماز ہوجائے وہ بھی ناجائز نہیں ہے۔ ‘‘
محترم شاہین صاحب ہمارے دوست ہیں وہ کبھی اختلافی مسائل کو ہوا نہیں دیتے۔ اس لئے ہم ان کا زیادہ احترام کرتے ہیں مگر یہاں معاملہ حق دوستی نبھانے کا نہیں کہ ان کی طرف داری کریں بلکہ اپنے محدود مطالعے کی روشنی میں ایک مسئلہ میں اظہار رائے کرنا مقصود ہے۔
ہماری رائے میں محترم شوکت شاہین صاحب نے وادی کے لوگوں کے اخلاق و عادات کے پیش نظر مناسب اور معقول بات کہی ہیں۔ احادیث کے مطابق آپﷺ عید الفطر کے موقع پر صبح طاق تعداد میں کھجور یں تناول فرما کر عیدگاہ کی طرف نکل جاتے تھے۔ اور عید الفطر کی نماز اس وقت پڑھاتے تھے جب سورج دو نیزوں کے برابر ہوتا تھا۔ عید الاضحی کے روز گھر میں آپﷺ کچھ نہیں کھاتے تھے اور عید گاہ روانہ ہوتے تھے۔ جہاں آپ ﷺ عید الاضحی کی نماز اس وقت پڑھاتے جب سورج ایک نیزہ کے برابر بلند ہوتا تھا۔ ان احادیث سے استدلال کرتے ہوئے فقہاء نے کہا ہے کہ عید کی نماز کا وقت اس وقت شروع ہوتا ہے جب سورج ایک نیزہ بلند ہو۔
اس سلسلہ میں محدثین نے صحابی حضرت عبداللہ بن بسرؓ کا واقعہ بھی بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ وہ لوگوں کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے کیلئے نکلے۔ امام صاحب تاخیر سے آئے تو انہوں نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو اس وقت فارغ ہوچکے ہوتے تھے۔ یہ وقت تو تسبیح کا ہے۔ (سنن ابی دائود: حدیث: ۱۱۳۵ سنن ابن ماجہ: حدیث: ۱۳۱۷)
اب دیکھنا یہ ہے کہ نماز عید کا آخری وقت زوال ہونا کہاں سے ثابت ہے۔ ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہﷺ کے پاس چند سوار آئے اور انہوں نے گواہی دی کہ انہوں نے کل چاند دیکھا ہے جس پر رسول اللہﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ روزہ کھول دیں اور جب صبح ہوجائے تو عید گاہ پہنچیں۔ (سنن ابی دائود حدیث: ۱۱۵۷، سنن ابن ماجہ حدیث: ۱۶۵۳، سنن النسائی حدیث: ۱۵۵۷)
یہ لوگ زوال کے بعد دن کے آخر میں رسول اللہﷺ کے پاس آئے تھے۔ جب انہوں نے چاند دیکھنے کی گواہی دی۔ تو آپﷺ نے صحابہ کو جو چاند دیکھنے کی بنا پر رمضان کا تیسواں روزہ پورا کررہے تھے، روزہ کھولنے کا حکم دیا اور انہیں دوسرے دن صبح عید گاہ پہنچنے کی تاکید کی جہاں وہ عید کی نماز ادا کریں۔ فقہاء نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ عید کی نماز کا آخری وقت زوال ہے۔ اگر زوال کے بعد عید کی نماز کا وقت ہوتا تو رسول اللہﷺ اسی دن نماز پڑھاتے۔ صحابہ کو دوسرے دن صبح کو عید گاہ پہنچے کا حکم نہ دیتے۔ مطلب یہ کہ چاند دیکھنے کی اطلاع زوال کے بعد ملی تھی اس لئے آپﷺ نے صحابہ کو روزہ کھولنے کا تو حکم دے دیا مگر عید کی نماز نہیں پڑھائی کیونکہ اس کا وقت ہی نہیں رہا تھا۔
فقہاء نے اسی حدیث کی بنا پر کہا ہے کہ عید کی نماز کا وقت آفتاب ایک نیزہ بلند ہونے کے وقت سے لے کر زوال کے آغاز تک ہے بلکہ احتیاط اس میں ہے کہ زوال سے پندرہ بیس منٹ قبل نماز ختم ہو۔
قدوری میں اس کے مصنف نے لکھا ہے: ترجمہ ’’اس کا وقت تب شروع ہوتا ہے جب سورج بلند ہونے پر اس کا پڑھنا صحیح ہوا ور زوال تک رہتا ہے جب سورج ڈھلنے لگے تو اس کا وقت ختم ہوتا ہے۔
’ہدایہ‘ فقہ کی مشہور کتاب ہے۔ اس کے مصنف نے بھی قدوری کے الفاظ دئے ہیں اور نماز کا آخری وقت زوال ہونے کی دلیل اوپر والی حدیث دی ہے کہ جب زوال کے بعد لوگوں نے چاند دیکھنے کی گواہی دی تو آپﷺ نے صحابہ کو اگلے دن عیدگاہ کی طرف نکلنے کا حکم دیا۔ (ہدایہ۔ باب العیدین)
شرح وقایہ میں عید کی نماز کے بارے میں آیا ہے: ’اور اس کا وقت سورج کے بلند ہونے اس ک ے زوال تک رہتا ہے۔‘‘ (شرح وقایہ: باب العیدین)
عید کی نماز کے بارے میں درمختار کے مصنف کا بیان ہے:
’عید کی نماز کا وقت سورج ایک نیزہ بلند ہونے کے وقت سے لیکر زوال سے کچھ پہلے تک ہے۔ اگر سورج ایک نیزہ برابر بلند ہونے کے وقت سے پہلے نماز پڑھ لی تو وہ درست نہ ہوگی بلکہ نفل ہوگی جسے منع کیا گیا ہے۔ اگر نماز کے دوران زوال شروع ہوا تو نماز فاسد ہوگی۔ (درمختار باب العیدین)
مصنف کہتے ہیں کہ اگر کوئی عذر ہو جیسے بارش وغیرہ تو عید (فطر) کی نماز دوسرے دن کے زوال تک موخر کی جاسکتی ہے۔ عید الفطر اور عید الاضحی کے احکام بیان کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ دونوں کے احکام میں فرق یہ ہے کہ اگر عذر ہوتو عید الاضحی کی نماز قربانی کے تیسرے دن یعنی بارہویں ذی الحجہ کے زوال تک موخر کی جاسکتی ہے۔ اگر بغیر عذر کے عید الاضحی کیک نماز تیسرے روزے کے زوال تک موخر کی تو نماز ہوگی مگر کراہت کے ساتھ جبکہ عید الفطر کی نماز بغیر عذر کے موخر نہیں کی جاسکتی ہے۔ (در مختار: بابا العیدین)
قاضی ثناء اللہ پانی پتی جنہیں شاہ عبدالعزیز دہلوی ’بیہقی وقت‘ کہا کرتے تھے لکھتے ہیں: ’وچوں آفتاب بلند شود و چشم خیز گی نماید ازآں وقت تا پیش از زوال وقت نماز عید ین است‘
اور جب سورج بلند ہوجائے اور نظر اس کی تاب نہ لائے تو اس وقت سے لیکر زوال سے کچھ پہلے تک نماز عید ین کا وقت ہوتا ہے۔ (مالا بدمنہ: ص ۶۴)
وہ یہ بھی لکھتے ہیں:
’واگر بعذرے نماز عید الفطر از امام وقوم فوت شودروز دوم ادا کنند نہ بعد ازاںوعید الاضحی راتا خیر تا دواز دہم جائز یست۔ ‘ یعنی اگر کسی عذر کی وجہ سے عید الفطر کی نماز قوم اور امام سے چھوٹ جائے دوسرے دن (کےزوال تک) ادا کریں اس کے بعد نہیں اور عید الاضحی کی نماز کو بارہویں تاریخ (کے زوال تک) موخر کرنا جائز ہے۔ (مالا بدمنہ : ص ۶۵)
فقہ کی اردو کتابوں میں بھی یہ احکام بیان کئے گئے ہیں۔ مولانا مجیب اللہ ندوی لکھتے ہیں:
’اگر کسی وجہ سے عید الفطر کی نماز شوال کی پہلی تاریخ کو نہ پڑھی گئی تو پھر اس کو دوسرے دن پڑھاجاسکتا ہے اور عید الاضحی کی نماز ۱۱ اور ۱۲ تاریخ ( کے زوال) تک پڑھی جاسکتی ہے۔ (اسلامی فقہ ج ا ص ۲۹۸)
مولانا شمس الدین احمد جعفری رضوی لکھتے ہیں:
’عیدین کی نماز کا وقت اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب کہ سورج ایک نیزہ کے برابر ہوجائے تو ضحوۃ کبریٰ یعنی نصف النہار شرعی تک رہتا ہے لیکن عید الفطر میں دیر کرنا اور عید الاضحی میں جلد پڑھ لینا مستحب ہے۔ سلام پھیرنے سے پہلے زوال ہوگیا تو نماز جاتی رہی۔ زوال سے مراد نصف النہار شرعی ہے۔ (قانون شریعت۱: ۱۶۹)
مولانا مزید لکھتے ہیں:
’کسی عذر کی وجہ سے عید کے دن نماز نہ ہوسکی مثلاً سخت بارش ہوئی یا ابر کے سبب سے چاند نہیں دیکھا گیا اور گواہ ایسے وقت گزری کہ نماز نہ ہوسکی یا ابر تھا اور نماز ایسے وقت ختم ہوئی کہ زوال ہوچکا تھا تو دوسرے دن پڑھی جئے اور دوسرے دن بھی نہ ہوئی تو عید الفطر کی نماز تیسرے دن نہیں ہوسکتی اور دوسرے دن میں بھی نماز کا وہی وقت ہے جو پہلے دن تھا۔ یعنے ایک نیزہ آفتاب کے بلند ہونے سے نصف النہار شرعی تک اگر بلا عذر عید الفطر کی نماز پہلے دن نہ پڑھی تو دوسرے دن نہیں پڑھ سکتے۔ عید الاضحی کی نماز عذر کی وجہ سے بارہویں تک (بارہویں کے زوال تک) بلا کر اہت موخر کر سکتے ہیں۔ بارہویں کے بعد پھر نہیں ہوسکتی اور بلا عذر دسویں کے بعد مکروہ ہے۔‘ (قانون شریعت ۱: ۱۷۰۔۱۷۱)
مولانا محمد رفعت قاسمی کا بیان ہے:
’اگر کسی عذر کی بنا پر عید الفطر کی نماز ادا نہ ہوسکی تو اگلے روز عید کی نماز ادا کریں۔ اگلے روز کے بعد نماز نہ پڑھیں عید الاضحی کے دن عذر ہوگیا تو دوسرے اور تیسرے دن تک پڑھ سکتے ہیں اس کے بعد نہیں پڑھ سکتے۔‘ (مسائل عیدین و قربانی: ص ۷۸۔۷۹) مولانا نے بڑی اہم بات لکھی ہے:
’’نماز عید کا وقت ایسا ہونا چاہئے کہ نماز فجر سے فارغ ہوکر بطریق مسنون لوگ تیاری کرکے عید گاہ پہنچ جائیں۔ عید کے موقع پر کچھ لوگوں کا پیچھے رہ جانا متوقع ہے۔ لہٰذا امام اور حاضر ین کو چاہئے کہ عجلت نہ کریں۔ حاضرین کو ذرا ضبط اور صبر سے کام لینا چاہئے۔ امام صاحب کو مشورہ دے سکتے ہیں لیکن نماز شروع کرنے پر اصرار نہیں کرنا چاہئے اور امام کی بھی ذمہ داری ہے کہ حاضرین کی تکلیف کا خیال کرتے ہوئے پیچھے رہ جانے والوں کی رعایات کرے اور قرأت خطبہ میں اختصار کرکے تلافی مافات کرے۔ سال میں دو موقعے آتے ہیں کہ بے نمازی بھی اس میں شرکت کرتے ہیں۔ ضعیف ، بیمار اور معذور ین بھی ہوتے ہیں۔ نماز فوت ہوگی تو بڑی برکتوں سے محروم ہوں گے لہٰذا قدرے انتظار کیا جائے۔ البتہ جو آخری وقت میں آنے کے عادی ہیں ان کو حاضرین کی تکلیف کا احساس نہیں ہے اور اپنی نماز کی بھی فکر نہیں ہے اس طرح اپنا انتظار کراتے ہیں۔ ایسے غافل، کاہل اور سست لوگوں کا انتظار کرنا ان کی عادت کو بگاڑنا ہے۔‘‘ (مسائل عیدین وقربانی: ص ۷۲۔۷۳)
امام شوکانی کی مشہور کتاب ’الدررالبھیہ‘‘ کا ترجمہ تشریح اور تخریج کے ساتھ حافظ عمر ان ایوب لاہوری صاحب نے کیا ہے اور کتاب ’’فقہ الحدیث‘‘ کے نام سے دارلاعلم ممبئی سے دو جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔ نماز عید کے بارے میں کتاب میں آیا ہے: ’ووقتھا بعد ارتفاع الشمس قدررنج الی الزوال‘ نماز عید کا وقت سورج کے نیزے کے برابر بلند ہونے سے ڈھلنے تک ہے۔ (فقہ الحدیث ۱: ۵۶۱)
امام شوکانی کی اس کتاب پر محدث زمان شیخ ناصر الدین البانیؒ کی تحقیق اور افادات ہیں۔ فاضل مترجم نے بڑھی محنت سے اس کی تشریح اور تخریج کی ہے۔ عید کی نماز کے متعلق ’’فقہ الحدیث‘‘ میں واضح کیا گیا ہے: ’’ںماز عیدین کا آخری وقت زوال آفتاب ہے جیسا کہ نبی ﷺ نے زوال آفتاب کے بعد چاند نظر آنے کی اطلاع ملنے پر کہا کہ ’’کل صبح لوگ نماز عید کیلئے عیدگاہ پہنچیں۔‘‘
’’اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے‘‘ (فقہ الحدیث۱: ۵۶۱)
ان تمام گزار شات کا ماحصل یہ ہے کہ عید کی نماز کا وقت سورج کے ایک نیزے کے برابر بلند ہونے سے زوال آفتاب سے پہلے تک ہے۔
خلاصہ بحث یہ ہے کہ جب شریعت میں کسی مسئلے میں پہلے ہی سے وسعت اور گنجائش موجود ہے تو اسے تنگ کرنا اور عوام کو مشکلات میں ڈالنا چہ معنی دارد!
عید کی نماز 6:00 بجے صبح پڑھنا یا 7:00 بجے یا 7:30 بجے تک ادا کرنا مستحب ہے اور فقہاء نے احادیث سے واقفیت کے باوجود اسے مستحب ہی کہا ہے جس طرح عید الطفر کے روز نماز سے پہلے طاق کھجور یں کھانا اور عید الاضحی کے روزنما سے پہلے کچھ نہ کھانا آپ ﷺ سے ثابت ہے مگر فقہاء کہتے ہیں کہ اگر کوئی عید الفطر کے رو زنماز سے پہلے کچھ نہ کھالے یا عید الاضحی کے روزنماز سے پہلے کچھ کھالے تو کوئی گناہ نہ ہوگا۔
عہد رسالت خر القرون کا روشن ترین زمانہ تھا۔ تاریخ نھے کبھی ایسا دور نہیں دیکھا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جس میں ہر طرف اور ہر گوشے میں خیر ہی خیر تھا۔ اس زمانے میں شاہد ہی کسی سے فجر کی نماز چھوٹتی تھی اور ہم جس دور میں جی رہے ہیں اس میں 90فیصد مسلمانوں کو فجر کی جماعت ملتی ہی نہیں۔
ہم لوگ صحابہؓ کی گردِ پاکو بھی نہیں پہنچ سکتے ’چہ نسبت خاک را باعالم باک‘ ایک حدیث میں زبان رسالت سے دونوں زمانوں کے فرق کو واضح کرتے ہوئے صحابہؓ سے فرمایا گیا ہے: ’’تم لوگ ایسے زمانے میں ہو کہ اگر تم میں سے کوئی احکام کے دسویں حصے کو بھی چھوڑے گا تو وہ ہلاک ہوگا۔ اس کے بعد وہ زمانہ آئے گا کہ اگر ان میں سے کوئی احکام کے دسویں حصے پر بھی عمل کرے گا تو نجات پائے گا۔ ‘‘سنن الترمذی حدیث: ۲۲۶۷)
لہٰذا زمانے کے حالات ، موسم کے اتار چڑھائو، لوگوں کے احوال و عادات کو دیکھ کر اور شریعت کی وسعت کے پیش نظر عید کی نماز نو دس بجے یا ساڑھے دس بجے بھی پڑھی جائے تو یہ ناجائز نہیں ہے۔ دین آسان ہے اور جدد زمانے میں لوگوں کو شرعی حدود کے اندر جس وقت سہولیت ہوا سے عید کی نماز کیلئے مقرر کرنا ہی بصیرت کا تقاضا ہے۔
