تحریر:این اے مومن
کیا ہمارا کوئی عالم ایسابھی ھے جس نے جدت فکر اور تخلیقی معیار کی نئی مثال قائم کرتےہوئے واقعتا کوئی universal کارنامہ پیش کیاہو ؟ ہمارے تمام بڑے بڑے اور نامور حضرات قدیم کلاسیکل کتابوں کے ترجمے یا تشریحات ہی کو آگے بڑھا کر دین کی خدمت کرتے دکھتے ہیں ۔ نئے الفاظ اور نیا سٹائل اپنا کر پرانے کو دوہرانا علم نہیں کہلاتا ھے۔ ہمارے جدید مسائل اور زمان و مکان کے نئے تقاضوں کے بارے میں کوئی نئی راہ نکالنے کے بجائے، سب علمائے کرام قدماء ہی کا ڈھول پیٹتے رہتے ھیں۔ جمہوریت ، مابعد صنعتی معاشرہ، کمپوزٹ اور مخلوط سماج، غیر مسلم ممالک کی طرف ہجرت اور قیام کا نیا رحجان ، ڈپلومیٹک تعلقات کے نئے اصول، اقوام عالم کے تعلقات اور لین دین کے نئے زاویئے وغیرہ وغیرہ کو تسلی بخش اور اجتہادی بنیادوں پر موضوع بحث بنانے کے بجائے وہ ابھی بھی دارالاسلام اور دارالکفر یا دارالامن اور دارالحرب کے ذہنی سانچے اور out dated world order ہی میں جینا اور سوچنا پسند کرتے ہیں ۔ وہ ابھی تک درس نظامی سے آگے بڑھنے کی سوچ پیدا نہیں کرسکے ہیں ۔ ان کے سلیبس میں دنیوی تعلیم اور سائینس کیلئے گنجائش پیدا کرنے میں ابھی ایک دو صدیاں اور لگ جائیں گی ۔
آخر ہم اپنے علماء کی کن کارناموں اور خدمات کو نئی نسل اور نئے زمانے کیلئے بطور Contribution پیش کر سکتے ھیں۔ ؟
تفسیر، ترجمہ، علم حدیث ، فقہ ہی کو مان کر چلیں تو نیا پن کیاھے ؟ سب جگہ پرانی باتوں ، پرانےورشن، پرانے خیالات کا نئے کلام اور سٹائل میں repetition کے بغیر کچھ بھی نہیں ھے ۔ مثال کے طور پر ہم جن منسلک پرست علماء کے کارناموں کو گنواتے گنواتے سالہاسال ورد کرتے نہیں تھکتے وہ آج تک حدیث کی خامیوں سے مبرا کوئی مستند کلکشن اور متفقہ انسائیکلوپیڈیا تیار نہیں کر سکےھیں۔ ہمارا لٹریچر ابھی تک قدیم خرافات اور اہل کتاب کی افسانوی قصے کہانیوں سے پاک نہیں ہوسکاھے ۔ اسلام ، شرک ، کفر ، مدعاے دین۔۔۔۔۔۔وغیرہ پر کوئی اتفاق رائے اور اجتماعی انداز میں یکساں المعنی definition نہیں لکھی جاچکی ھے۔ جن لوگوں نے منیر کمیشن کی رپورٹ پڑھی ہوگی وہ جانتے ھوں گے کہ ہمارے علماء کسی ایک بات اور تشریح پر کبھی متفق الرائے نہیں ہوسکے ھیں ۔ ابھی یہ بھی طے ہونا باقی ھے کہ ہمارے علماء اور فرقوں میں کونسا عالم اور فرقہ "مسلمان” کہلانے کی شرط پر پورا اترتا ھے کیونکہ ہر مخالف فکر اور جماعت کو کافر، مشرک ،گمراہ قرار دیاجاچکاھے بلکہ ایک ھی منسلک اور مذہب کے ماننے والے اسی فرقہ کے دوسرے لوگوں کو اسلام سے خارج بتاتے ھیں اور جنازہ پڑھانے یا اس کے پیچھے نماز پڑھانے پر پابندی لگا دیتےھیں ۔ اس بد حالی کے تناظرمیں جب کسی "بڑے مولوی” صاحب کا انتقال ہوتاھے اور ہر طرف مجدد مجد ، مجتہد مجتہد، علامہ عصر حاضر وغیرہ کا ناگہانی شور برپاہوجاتاھے تو میں confusion میں یہ سمجھ نہیں سکتا ہوں کہ اس نے کونسا کارنامہ پیچھے چھوڑا ھے ، سواے اپنے فرقہ یا حلقہ کی "خدمت” کے۔
