تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
ایک چودہ سالہ بچے نے خود سوزی کی کوشش کی ۔ اس طرح کا کوئی بھی واقع کسی بھی گھر ، خاندان، بستی اور قوم کے لئے تشویش کا باعث ہونا چاہئے ۔ اس پر طرہ یہ کہ خود سوزی کے اس واقعے کے پیچھے شرمناک وجہ بھی بتائی جاتی ہے ۔ اس سے پہلے سرینگر میں ایک دو شیزہ نے مبینہ طور اپنے ہونے والے خاوند پر حملہ کرکے اسے زخمی کیا ۔اس طرح کے واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے قومی اقدار بحیثیت مجموعی زوال کا شکار ہیں ۔ خاندانی نظام کے بکھر جانے کے بعد ایسے واقعات کا پیش آنا کوئی عجیب بات نہیں ۔ بلکہ آج کل کے زمانے میں اس طرح کے واقعات بیشتر معاشروں کے اندر پیش آتے ہیں ۔ کشمیری معاشرہ ایسے واقعات سے پاک و صاف نہیں رہ سکتا ہے ۔ حیرانی اس وجہ سے ہورہی ہے کہ کل تک ہم ایسے واقعات سے بے بہرہ تھے ۔ اچانک ایسے واقعات سامنے آئے اور اب یکے بعد دیگرے یہ واقعات پورے تسلسل کے ساتھ سامنے آرہے ہیں ۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں بڑوں کی قدر اور چھوٹوں سے شفقت سکھائی جارہی تھی آج ایسے تمام حدود پھاند کر بے لگام ہوچکا ہے ۔ سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ گھر بار کی عزت اور اپنے بزرگوں کا وقار پامال کرنے میں پس و پیش نہیں کیا جاتا ہے ۔ جب ایک دوشیزہ کسی نوجوان کو گھائل یا ہلاک کرنے کی کوشش کرے تو کہا جاسکتا ہے کہ اسے اپنے والدین کی عزت کی کوئی فکر نہیں ۔ اس طرح کے واقعات چھپے نہیں رہتے ۔ بلکہ ان کا ڈھنڈورہ پیٹا جاتا ہے ۔ قرب و جوار میں ایسی باتوں کا چرچا ہوتا ہے ۔ ممکن ہے کہ ایک چودہ سال کے بچے کو اس کی کوئی فکر نہ ہو ۔ لیکن ایک بالغ خاتون کسی بھی واقعے کے نتائج سے بے خبر نہیں ہوسکتی ۔ اسے معلوم ہوگا کہ کوئی خطرناک قدم اٹھانے کے نتائج بھی خطرناک ہوسکتے ہیں ۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اس کے بعد اسے جیل جانا ہوگا اور اس کے والدین کی شرمندگی ہوگی ۔ اس کے خاندان میں موجود دوسری لڑکیوں کا مستقبل تاریک ہوگا ۔ ان پر یہ دھبہ لگ جائے گا کہ ایک خونی کی رشتہ دار ہیں ۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسے خدشات کی ہم کوئی پروا نہیں کرتے ۔ ماں بات اور دوسرے بزرگوں کا کوئی خیال ہے نہ قانون اور قانون نافذ کرنے والوں کو خوف ہے ۔ اس طرح کی دونوں چیزوں کو نظر انداز کرکے جو پود جوان ہوتی ہے سراسر باغی ہوتی ہے ۔ اس کا اپنا کوئی کردار ہوتا ہے ، قومی اقدار کا پاس و لحاظ ہوتا ہے نہ مذہبی تعلیمات کی پاسداری کا کوئی خیال ہوتا ہے ۔ اس سے یہی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ والدین اپنی ذمہ داری پوری کررہے ہیں نہ مذہبی پیشوا قومی کردار ابھارنے میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ سب پوری طرح سے ناکام ہیں ۔ ان کا مشن ناکام ہے ۔
قومی کردار ابھارنے میں ناکامی کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں ۔ تاہم ایک خاص سبب نمایاں ہے ۔ پچھلے بیس تیس سالوں کے دوران کشمیری عوام نے صرف ایک شعبے پر سرمایہ کاری کی ۔ مذہبی درسگاہوں کو پروان چڑھانے پر سب سے زیادہ پیسہ خرچ کیا گیا ۔ ان مدرسوں سے کئی ہزار طلبہ اب تک فارغ ہوچکے ہیں جو ہمارے معاشرے کا نمایاں طبقہ ہے ۔ اس طبقے کی کوشش ہے کہ معاشرے پر تسلط قائم کیا جائے ۔ اس میں یہ لوگ کسی حد تک کامیاب بھی ہیں ۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ انہیں اسلامی اقدار کا سرے سے کوئی علم نہیں ۔ اس وجہ سے یہ قوم کے اندر کوئی اقدار مضبوط کرنے میں پوری طرح سے ناکام ہیں ۔ ان کا ایک ہی مقصد اور مشن ہے ۔ وہ ہے مسلکی سازشوں کو زور وشور سے پھیلانا ۔ ان کے نزدیک اسلام کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔ انہیں اسلام کی بنیادی تعلیمات کا سرے سے کوئی علم نہیں ۔انہیں سیرت نبوی ؐ سے جان بوجھ کر بے خبر رکھا گیا ہے ۔ اس کے بجائے متنازع مسائل پر یہ پورا عبور رکھتے ہیں ۔ اسلام سے پہلے جو کردار یہودیوں کا تھا مدرسوں کے سرپرستوں اور ان سے جڑے افراد کا کردار بالکل ایسا ہی ہے ۔ مدرسوں کے فارغین کو اس وقت تک نیند نہیں آتی جب تک یہ کوئی نہ کوئی فتنہ اٹھائیں ۔ فتنہ ان کے خون میں سرایت کرچکا ہے ۔ جب مذہبی پیشوائوں کا کردار اس طرح کا ہو اور ان کی رگوں مذہبی حمیت کے بجائے فتنہ و فساد دوڑتا ہو ۔ ظاہر سی بات ہے اسلام کا چرچا ہونے کے باوجود قوم کے اندر اسلامی اقدار کے لئے کوئی جگہ نہ ہوگی ۔ مدرسوں کا حال یہ ہے کہ یہاں اسلام کے بجائے اسلام کے ٹھیکہ داروں کی مالی پرورش ہورہی ہے ۔ اسلام غربت کی حالت میں ہے ۔ اسلام پوری طرح سے پامال ہے ۔ البتہ اسلام کے نام پر خوب کمائی ہورہی ہے ۔ قومی سرمایہ پوری طرح سے ضایع ہورہاہے ۔ وہ طلبہ جو یہاں بھیک اور خیرات پر پل رہے ہیں آگے جاکر بھکاریوں کے مزاج کی عکاسی کرتے ہیں ۔ اسلام نے بھیک اسی لئے ناجائز قرار دی ہے کہ بھیک پر پلنے والے باضمیر ہوتے ہیں نہ قومی حمیت کا شائبہ بی ان میں موجود ہوتا ہے ۔ ان کی وجہ سے پوری قوم کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے اور قوم کے اندر جرائم تیزی سے پھیل رہے ہیں ۔ مذہبی مبلغ جرائم میں اضافہ اسلام سے دوری بتاتے ہیں ۔ صحیح بھی یہی ہے ۔ قوم کو وہ مذہب سکھایا جاتا ہے جس کا اسلام سے رتی برابر بھی تعلق نہیں ۔ یہ اسلام سے سراسر بغاوت اور دین سے کھلا مزاق ہے ۔ نئے اسلام کے پھیلائو سے ہمارے اپنے اقدار پامال ہورہے ہیں ۔ لوگ کسی نہ کسی مرحلے پر ان باتوں کو سمجھ لیں گے ۔ لیکن اس وقت تک ہمارا معاشرہ پوری طرح سے کھوکھلا ہوجائے گا ۔
