تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی میدان میں رفتار کو لے کر ایک بار پھر مایوسی کا اظہار کیا جارہاہے ۔ اس سے پہلے جب سچر کمیٹی کی طرف سے تفصیلی رپورٹ سامنے آئی تھی تو ہر طرف سے واویلا مچایا گیا تھا ۔ اس رپورٹ میں بھی مسلمانون کے تعلیمی پس منظر کے حوالے سے سخت تشویش کا اظہار کیا گیا تھا ۔ آج ایک بار پھر اس موضوع پر کئی حلقوں میں بحث چھڑی ہوئی ہے ۔ خاص طور سے سوشل میڈیا پر اس موضوع کو لے کر تند وتیز خیالات کا اظہار کیا جارہاہے ۔ تازہ اعداد و شمار کو لے کر بتایا جاتا ہے کہ شرح خواندگی میں نہ صرف حسب معمول کمی دیکھی جاتی ہے ۔ بلکہ پچھلے سال کی نسبت اس میں مزید کمی واقع ہوئی ہے ۔ اس سے پہلے دیکھا جاتا تھا کہ مسلمانوں میں شرح خواندگی باقی طبقوں کے مقابلے میں کم ہے ۔ امسال یہ بات سامنے آئی ہے کہ شرح خواندگی بڑھنے کے بجائے کم ہوگئی ہے ۔ مسلمان طلبہ کی تعداد خود اس کے پچھلے سال کی تعداد سے کم ہوگئی ہے ۔ بنیادی سطح کے اسکولوں سے لے کر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مسلم طلبہ کے داخلوں میں کمی دیکھی گئی ہے ۔ مسلم والدین اپنے بچوں کو اسکولوں میں داخل کرانے میں کم دلچسپی دکھا رہے ہیں ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کی شرح خواندگی کم ہوتی جارہی ہے ۔ شرح خواندگی کم ہوگی تو ترقی کی رفتار بھی کم ہوگی ۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ تعلیم سے ماورا کسی طرح سے مجموعی ترقی کو ممکن بنایا جائے ۔ تعلیم کو ترقی کے لئے پہلا زینہ سمجھا جاتا ہے ۔ عملی تجربہ یہی ہے کہ تعلیم حاصل کرکے ہی معاشی ترقی کی طرف قدم بڑھایا جاسکتا ہے ۔
تعلیمی پسماندگی صرف ہندوستانی مسلمانوں کا ہی مسئلہ نہیں ہے ۔ بلکہ تمام مسلم ممالک میں یہی صورتحال پائی جاتی ہے ۔ ہندوستانی مسلمانوں کا مسئلہ اس وجہ سے سنگین مانا جاتا ہے کہ یہاں دوسرے تمام طبقے اپنی تعلیمی ترقی کی طرف دھیان دے رہے ہیں ۔ ایسے طبقے جو معاشی لحاظ سے مسلمانوں سے پسماندہ ہیں اس کے باوجود اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں کے اندر داخل کرانے میں پیش پیش ہیں ۔ یہاں تک کہ ایسے قبیلے جہاں چالیس پچاس سال پہلے تعلیم کا تصور نہیں تھا وہ کم مدت کے اندر مسلمانوں سے اس حوالے سے بہت آگے نکل چکے ہیں ۔ ہندوستان میں تعلیمی پھیلائو کا پہلا نعرہ تعلیم برائے ہر شہری ہے ۔ ملک کے سربراہوں کی خواہش ہے کہ سو فیصد شرح خواندگی حاصل کی جائے ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کئی پالیسیاں بھی بنائی گئیں جن کو عملایا بھی گیا ۔ ہر بستی میں اسکول مہیا رکھے گئے ۔ بچوں کو مفت تعلیم ، کتابیں اور کھانا بھی مہیا کیا گیا ۔ ایسی کئی سہولیات مہیا ہونے کے باوجود مسلمان ان کا فائدہ اٹھانے میں ناکام ہیں ۔ سب سے اہم بات ہے کہ مسلمانوں کے دین کے اندر تعلیم حاصل کرنے پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے ۔ ایسا دوسری کسی قوم یا طبقے کے اندر کوئی تصور نہیں ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے نہ صرف اس کی تاکید کی بلکہ مدینے کے اندر تعلیم و تعلم کا انتظام بھی کیا گیا ۔ جنگی قیدیوں کے لئے لازم بنایا گیا کہ مسلمان بچوں کو بنیادی تعلیم سے روشناس کرائیں ۔ بعد میں مسلمانوں نے از خود بنیادی تعلمی مراکز کے علاوہ اعلیٰ درجے کی یونیورسٹیاں قائم کیں ۔ اس کے نتیجے میں ایک طویل عرصے تک تعلمی میدان پر مسلمان حاوی رہے ۔ یہاں تک کہ ان سے اقتدار چھین لیا گیا اور ملاازم کا مسلمانوں پر تسلط ہوگیا ۔ اس طبقے کی پہلی خواہش یہی رہی کہ مسلمانوں کو تعلیم گاہوں سے دور کیا جائے ۔ اپنا تسلط قائم کرنا کے لئے تعلیم کو مسلمانوں کے لئے شجر ممنوعہ بنایا گیا ۔ بعد میں جب ترقی پسند دور شروع ہوا تو مولویوں نے مسلمانوں کو جدید تعلیم سے دور رکھنے کی سر توڑ کوشش کی ۔ فتوے جاری کئے گئے اور خود ساختہ دینی احکامات کے تحت مسلمانوں کو جدید تعلیم سے ناآشنا رکھنے کی کوشش کی گئی ۔ تعلیم کے پھیلائو سے مولویوں کے مسند ہلنے لگے اور ممبر و محراب پر ان کی اجارہ داری ختم ہونے لگی ۔ اس درمیان لوگوں میں تعلیمی شعور پیدا ہوگیا اور تعلیم کی طرف ان کے رجحان میں اضافہ ہونے لگا ۔ یہاں تک کہ معاشرے پر ملاازم کا تسلط بہت حد تک ختم ہوگیا ۔ لیکن بدقسمتی سے حالات میں ایسی تبدیلی آگئی کہ مسلمانوں کے لئے تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات پیدا ہوگئیں ۔ غربت میں اضافے کی وجہ سے ان کے لئے مفت تعلیم حاصل کرنا بھی ممکن نہ رہا ۔ ایسے کارجی حالات سے زیادہ داخلی وجوہات نے ان کا رخ تعلیمی مراکز سے موڑ کر دوسرے اطراف کی طرف پھیردیا ۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ مولویوں نے اٹھانا شروع کیا ۔ ایک ایسا طبقہ سامنے آیا جس نے وقت کے رخ کا صحیح اندازہ لگاکر مسلمانوں کو اسکولوں کی طرف جانے سے روک دیا اور اپنے پیچھے لگادیا ۔ مسلمانوں کی نئی نسل ایک بار پھر تعلیم سے بے پروا ہوکر خود ساختہ اور ہئیتی مسلمانوں کے دائرے میں آگئی ۔ اس دائرے میں داخل ہوتے ہی ان پر ایسا جادو چلایا گیا جس نے ان کی عقل و شعور کو مفلوج کرکے رکھ دیا ۔ ایک زمانے میں مذہب کے اس اثر کو افیون سے تعبیر کیا گیا تھا ۔ اس کو ایک بار پھر آزمایا گیا اور مسلمانوں کو اس کے زیراثر لاکر دنیا کی تمام تر جد وجہد سے بے خبر بنادیا گیا ۔ آج مسلمان ایک بار پھر افیون زدہ ہیں اور ان کی دلچسپی دنیاوی سرگرمیوں سے موڑ کر مولویوں کی خدمت اور ان کی ترقی پر لگادی گئی ۔ جب تک یہ صورتحال ہے مسلمان کسی بھی میدان میں ہر گز آگے نہیں بڑھ پائیں گے ۔ خاص طور سے تعلیم اور معاش سے انہیں بے خبر رکھنے کی سعی جاری رہے گی ۔ یہ لوگ تعلیم گاہوں کی طرف بڑھنے لگے تو مولویوں کا زوال شروع ہوگا ۔ لہذا دین کے نام پر کاروبار کرنے والا طبقہ ہر گز نہیں چاہئے گا کہ مسلمان تعلیمی مراکز میں داخل ہوجائیں ۔ اپنے کاروبار کو قائم رکھنے کے لئے مولویوں کے لئے ضروری ہے کہ آنے والی پود کو اصل تعلیم سے بے خبر رکھ کر درس نظامی میں مشغول رکھیں ۔ یہی ان کی اپنی ترقی کا راز ہے ۔ یہ جال جب تک بچھا ہے اور عام مسلمان اس دام میں جس وقت تک آتے رہیں گے ان کی تعلیمی ترقی کسی طور ممکن نہیں ہے ۔
