تحریر:جی ایم بٹ
اس سال پورے ملک میں یوم آزادی کے موقعے پر سخت جوش وجذبہ دیکھا گیا ۔ جگہ جگہ ترنگا ریلیاں نکالی گئیں اور بڑی تعداد میں لوگوں نے بتیاں جلائیں اور چراغ روشن کئے ۔ خاص طور سے تعلیمی اداروں نے ان تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ اس حوالے سے معلوم ہوا کہ اسلامی مدرسوں ، درس گاہوں اور دارالعلوموں میں بھی یوم آزادی بڑے جوش و خروش سے منایا گیا ۔ بلکہ طالبات کے لئے مخصوص درس گاہوں میں بھی اس روز رنگا رنگ تقریبات کا انعقاد کیا گیا ۔ یوپی ، گجرات ، بنگال اور بہار کے مختلف مدارس میں اس دن اساتذہ ، طلبہ اور دوسرے شہریوں کی طرف سے تقریبات میں بڑے پیمانے پر شرکت کی ۔ لکھنو ، کانپور اور فیض آباد جہاں ایسے مدرسے بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں معلوم ہوا کہ وہاں موجود عملے اور طلبہ نے یوم آزادی کو دھوم دھام سے منایا ۔دیوبند جہاں ملک کا سب سے بڑا دارالعلوم قائم ہے ۔ وہاں سے بھی اطلاع ہے کہ پہلے سے مشتہر پروگرام پر سختی سے عمل کیا گیا ۔ قومی جھنڈا لہرایا گیا اور قومی ترانہ بڑی عقیدت سے گایا گیا ۔ اسی طرح جموں کشمیر کے کئی مدارس میں بھی ایسی تقریبات کا انعقاد کیا گیا ۔ ملک کے ان مدارس میں یوم آزادی کے موقع پر اس وجہ سے ماحول بڑا خوش کن تھا کہ اساتذہ اچکن لگاکر اور طلبہ مختلف رنگوں کے عمامے پہن کر ایسی تقریبات میں شرکت کررہے تھے ۔کئی مدرسوں میں طلبہ نے ترنگے کی پگڑیاں پہن رکھی تھیں ۔ اس موقعے پر مدرسوں کے سربراہوں اور طلبہ کے نمائندوں نے جو تقریریں کیں بڑی ہی دل آویز تھیں ۔ مفتیوں ، شیخ الحدیثوں اور مہتمموں نے ترنگا لہرایا اور قومی ترانا گایا ۔ اس موقعے پر انگریزوں کے خلاف جد وجہد میں مدرسوں اور علما کے رول پر اچھی خاصی روشنی ڈالی گئی ۔ اس طرح سے ماحول کو سازگار بنانے کی کوشش کی گئی ۔
مدرسوں کے سربراہوں کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ان کی تعلیم گاہوں میں جشن آزادی منایا گیا ۔ بلکہ وہ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ مسلمان خاص کر مدرسوں سے وابستہ افراد بڑے ہی وطن پرست اور اپنے ملک سے محبت کرنے والے لوگ ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ یوم آزادی اور یوم جمہوریہ ہر سال پورے جوشو جذبے سے منایا جاتا ہے ۔ یاد رہے کہ کئی لوگوں کا خیال تھا کہ یوپی سرکار کی طرف سے ہدایت ملنے کے بعد ہی ان مدارس میں یوم آزادی منایا گیا ۔ حالانکہ مدرسہ بورڈ کے سربراہ نے اس بات پر زور دیا کہ وہ ہر سال اس طرح کی تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ 1947 میں آزادی کے بعد سے مدرسوں میں ایسی تقریبات منائی جاتی ہیں ۔ انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ کسی کے کہنے یا زور ڈالنے کے بعد ایسی تقریبات منعقد نہیں کی گئیں ۔ بلکہ مدرسوں میں ہمیشہ ہی یوم آزادی بڑے دھوم دام سے منایا جاتا رہا ہے ۔ یاد رہے کہ اس سال یوپی سرکار نے مدرسوں پر زور دیا تھا کہ یوم آزادی کی تقریبات مناکر اس کی فلم بندی کی جائے ۔ مدرسوں کے سربراہوں کا کہنا ہے کہ حکم نامے کے زور پر نہیں بلکہ انہوں نے حب الوطنی کے جذبے کے تحت یوم آزادی منایا اور پورے قومی جذبے سے ترنگا لہرایا ۔ جموں کشمیر کے مختلف مدارس کے حوالے سے بھی کہا گیا کہ یوم آزادی پورے جوش و خروش سے منایا گیا ۔ جموں کے مضافات میں واقع ایک مدرسے کے حوالے سے پتہ چلا ہے کہ وہاں منعقدہ تقریب کی صدارت مقامی ایس ایس پی نے کی ۔ اسی طرح کشمیر میں کئی مدارس میں ایسی تقریبات منعقد کی گئیں ۔ ایک مدرسے کے سربراہ نے کہا کہ وہ زمانہ کب کا گزر گیا ہے جب مدرسوں کے طلبہ دینی کتابوں کی پڑھائی اور چند مذہبی ترانے سنانے تک محدود تھے ۔ آج کے مدرسوں کے طلبہ دوسرے تعلیمی اداروں کی طرح جدید نصاب تعلیم اور دوسری تمام سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں ۔ کسی بھی قومی ادارے کی طرح مدرسوں میں زیر تعلیم طلبہ قومی تہواروں کا بڑھ چڑھ کر انعقاد کرتے ہیں ۔ اس کا مبینہ طور مثبت اثر دیکھا گیا اور ایسے طلبہ سماجی سرگرمیوں کا ایک خاص حصہ بن رہے ہیں ۔ ایک زمانے میں ان دینی درس گاہوں میں زیر تعلیم طلبہ کو باہر کی ہوا بھی لگنے نہیں دی جاتی تھی ۔ خاص کر سرکاری سرگرمیوں کے بارے میں انہیں پتہ بھی نہیں چلتا تھا ۔ عجیب بات یہ ہے کہ مغربی ممالک میں مقیم مسلمان وہاں کی قومی تقریبات میں اسی طرح حصہ لیتے ہیں جس طرح سے دوسرے مذہبوں کے لوگ کرتے ہیں ۔ یہ صرف ہندوستان میں دیکھا گیا کہ یہاں کے مسلمان خود کو قومی دہارے سے دور رکھے ہوئے ہیں ۔ اس بات سے انکار نہیں کہ 1947 سے پہلے جب ملک کے تقسیم کی تحریک چلی تو اس کی سب سے زیادہ مخالفت دارالعلوم دیو بند نے کی ۔ دیوبند کے بڑے بڑے اور مقتدر علما نے خود کو اس سے دور رکھا اور اسے مسلمانوں کے خلاف انگریزوں کی بڑی سازش قرار دیا ۔ کانگریس کے چوٹی کے رہنمائوں نے جب ملک کی تقسیم کا فارمولہ تسلیم کیا تو دیوبند کے علما نے اس کو قبول کرنے سے انکار کیا ۔ تقسیم ملک کے بعد انہوں نے ہندوستان کو اپنا وطن قرار دیا ۔ اس کے باوجود ملک آزاد ہونے کے بعد یہ لوگ قومی اور ملکی سرگرمیوں سے الگ تھلگ ہوگئے ۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ۔ اب یہ قومی دہارے میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ لیکن اب بہت دیر ہوچکی ہے ۔ شاید کہ دیر آید درست آید کے مصداق بات بن جائے ۔
