• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
ہفتہ, مئی ۱۰, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم جمعہ ایڈیشن

اسلام اور کسبِ حلال

Online Editor by Online Editor
2023-08-25
in جمعہ ایڈیشن
A A
اسلام اور کسبِ حلال
FacebookTwitterWhatsappEmail

تحریر:ڈاکٹر آزاد احمد شاہ
کسب حلال کے معنی ہیں حلال روزی کمانا اس سے مراد یہ ہے کہ رزق کمانے کے ایسے طریقے استعمال کرنا ہے جسے اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جائز قرار دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر انسان اس کرہ ارض پر اپنی ضرورتیں لیکر پیدا ہوا ہے۔ مثلاً اسے کھانے کیلئے غذا، پینے کیلئے پانی، پہننے کیلئے لباس، گرمی، سردی، بارش اور طوفان یا دیگر موسمی کیفیات سے بچنے کیلئے گھر چاہئے یہ انسان کی بنیادی ضروریات ہیں۔ زندہ رہنے کا دارومدار بھی ان ہی پر ہے۔انسان اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے شب و روز بڑی محنت و مشقت کرتا ہے۔ بیحد دوڑ دھوپ کے بعد اپنا روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے کیونکہ یہ انسان کی بنیادی ضرورتیں ہیں اور اس کے زندہ رہنے کا دارومدار ان ہی ضرورتوں کے پورا ہونے پر ہے۔ خالق کائنات نے تمام بنیادی ضروریات و سہو لتیں تو اس زمین میں پیدا کرکے رکھ چھوڑی ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ ہم نے تمہارے لئے اس زمین میں وسائل پیدا کردیئے ہیں اور انکے لئے بھی جن کو تم رزق نہیں پہنچاتے۔ ہر شخص خود محنت و مشقت کرکے ان وسائل کو حاصل کرکے اپنے لئے رزق تلاش کرے یا پھر ان سے اپنی ضروریات اور اپنی جائز خواہشات کی تکمیل کرے۔ اسی جدوجہد او رمحنت کو احکام الہیٰ اور سنت رسول کے مطابق انجام دے تو یہ سب عین عبادت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسب حلال کی اہمیت پر بیحد زور دیا ہے اور کہا تھا کہ حلال روزی، اللہ کی عبادات کے بعد فرض ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اپنے اہل و عیال کیلئے حلال رزق کا بندوبست کرو اور یہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ یعنی اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر اور کوئی کمائی نہیں۔ ویسے بھی زرق حلال کی طلب تو ہر مسلمان میں ہونا چاہئے لیکن افسوس آج کے اس مادی دور نے انسان میں حلال اور حرام کے فرق کو مٹا دیا ہے جو حلال روزی کماتا ہے اسکا دل نور سے معمور ہوتا ہے حکمت اور عقلمندی رزق حلال کو بڑھاتی ہے۔ جیسا کہ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ
اے طاہر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
تجارت ، صنعت، زراعت، مویشی پالنا، محنت مزدوری وغیرہ کرنا یہ سارے جائز اور حلال طریقے ہیں۔ روزی روٹی کمانے کیلئے شرط ہے کہ اس میں اسلامی احکامات اپنائے جائیں ۔جب کوئی شخص اپنے لئے کسی پیشے کا انتخاب کرتا ہے تو اللہ رب العزت اس کے مال میں برکت عطا فرماتے ہیں اور اس کے گھر میں مال و دولت کے انبار لگا دیتا ہے اور انسان کو اللہ کی اس عنایت پر شکر بجا لانا چاہئے۔
اسلام کے مطابق ”اَلکاَسِبٗ حبیِبٗ اللہ“ یعنی ہاتھ سے کمانے والا اللہ کادوست ہے۔ہاتھ سے کمانے والا کون ہے؟ کسب یا پیشہ سے مراد ایک ایسا روزگارِزندگی یعنی حرفہ ہے جس کو اختیارکرنے کےلیے مشق اور تعلیم کےساتھ ساتھ خصوصی معلومات کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔اہلِ عرب کا مشہور پیشہ گلہ بانی تھا جسے عام زبان میں چرواہا اور ہمارے ہاں بکروال کہاجاتاہے۔انبیاءاکرام نے اپنے ہاتھ سے مختلف کام کیے۔ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کھیتی باڑی کرتے تھے حضرت نوح علیہ السلام نے بڑھئ کاکام کیا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کھیتی باڑی۔حضرت ادریس علیہ السلام درزی کا۔حضرت شعیب علیہ السلام جانور پالنے کا۔حضرت ہود علیہ السلام تجارت اور حضرت سلیمان علیہ السلام پتوں سے پنکھے اور زنبیلیں بنانے کاکام کرتے تھے اور ہمارے نبی محمدﷺ نے بکریاں بھی چرائیں اور تجارت بھی کی۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ برصغیر میں پیشے کے لحاظ سے اونچ نیچ حد سے زیادہ پائی جاتی ہے عرب یا یورپ میں پیشے کے لحاظ سے نفرت وحقارت کا رواج نہیں لیکن ہمارے ہاں یہ تفریق بہت پرانی ہے اور دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ہندوستان میں ذات پات کا یہ نظام تین ہزار سال پرانا ہے ہندو قوانین کی قدیم ترین کتاب”مانوسمرتی“کے مطابق ہندوؤں کی چار مشہور ذاتیں ١۔برہمن ٢۔کھشتری ٣۔ویش اور ٤۔شودر ہیں۔بعض مؤرخین کے نزدیک جب آریائی نسل کے لوگ ہندوستان میں وارد ہوئے تو انہوں نے ہندوستان کے قدیمی مقامی باشندوں یعنی دراوڑ اور کول نسل کو غلام بنانے کیلیے ذات پات والے نئے مذہب ہندومت کی بنیاد رکھی اور یوں اس تقسیم کی بدولت آریائی مقامی لوگوں پر حکومت کرنے میں کامیاب رہے۔اس وقت سے کمھار۔لوہار۔نائی۔سنار۔بھانڈ۔دھوبی۔تیلی اور چمار وغیرہ پیشے کے لحاظ سے پہچانے جانے لگے یہ ہندوستانی قدیم پیشے سمجھے جاتے ہیں البتہ قصاب اور درزی وغیرہ ہندوؤں کے پیشے نہیں یہ پیشے مسلمانوں کے ساتھ ہی ہندوستان میں آئے۔جب برصغیر میں مسلمانوں کی آمد ہوئی تو چھوٹی ذاتوں کے لوگ جوق درجوق اسلام قبول کرنے لگے اس کی وجہ اسلام کی مواخات و مساوات تھی جب مختلف پیشوں کے ہندو مسلمان ہوئے تو اپنے خاندانی پیشے کی بنا پر مسلمان معاشرے میں بھی یہ نومسلم اسی پیشے سے ہی پہچانے جاتے تھے یوں مسلم معاشرہ بھی اس تفریق کاشکار ہوا جو اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف تھی اسلامی تعلیمات کے مطابق تو؎
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
نا کوئی بندہ رہا نا کوئی بندہ نواز
۔اسلام پیشے، منصب اور نسب کی بنیاد پر تفاخر کی نفی کرتا ہے۔انبیاء اکرام کی طرح آئمہ اکرام نے بھی عملی طور پر مختلف پیشے اختیار کیے جیسے کہ امام ابوحنیفہ رحمت اللہ علیہ کاروبار کرتے تھے ایک معروف فقیہ امام قدوری کی وجہ تسمیہ ان کا ہنڈیا کا کاروبار یعنی کمھار کا کام بتایا جاتا ہے۔افسوسناک بات ہے کہ ہندوستانی قدیم ذات پات کے نظام کااثر ہندوستانی مسلمانوں پر بھی ہوا اور یہاں کے مسلمانوں میں بہت سی ہندووانہ رسومات کی طرح یہ برائی بھی رچ بس گئی جب مسلم معاشرے میں بھی پہچان بذریعہ پیشہ ہونے لگی تو یہ امتیازومنافرت اسلامی روایات کے برخلاف مسلمانوں میں بھی پنپنے لگی جو تاحال ختم نہیں ہوسکی۔
پھر1857ءکی جنگ آزادی کے بعد جب انگريزہندوستان پر قابض ہواتومغربی مصنوعات کو ہندوستان میں عام کرنے کےلیےمقامی پیشوں کوہندوستانیوں کی نظرمیں حقیربنانے کیلیے منظم سازش کی گئی اگر ہندوستانی جولاہے کو باعزت سمجھاجاتاتو انگلستان کے کپڑے کی مانگ ناہوتی۔ اگر کمھار کے بنے ہوئے مٹی کے برتن استعمال کرنے کارواج ترک ناہوتا تو پلاسٹک واسٹیل کے برتن کی مارکیٹ کیسے بڑھتی؟ انگريز نے مردم شماری اور بندوبست زمین میں مختلف پیشوں سے وابستہ لوگوں کو بطور قوم درج کیا حالانکہ پوری دنیا میں پیشہ کو بطور قبیلہ یانسب نہیں سمجھاجاتا کہیں بھی پیشہ وراثتی نہیں سمجھاجاتا۔یورپ وعرب میں پیشہ کے لحاظ سے کسی کو کمتر نہیں کہاجاتا۔پنجاب کی مردم شماری کی بنیاد پر ایک کتاب ”ذاتوں کا انسائیکلو پیڈیا“ لکھی گئی جس میں پنجاب میں آباد قبائل اور پیشوں کے بارے میں تفصیل سے لکھا گیا۔پنجاب میں دیہاتی سطح پہ معاشرتی نظام کے تحت وہ اقوام جو کہ کاشتکاری کے پیشہ سے تعلق رکھتی ہیں مثلاً سادات، اعوان، جٹ، راجپوت، آرائیں وغیرہ انھیں محکمہ مال کے اندراجات کے ریکارڈ کے مطابق "کاشتکار” لکھا جاتا ہے، جبکہ جو اقوام جو کسی کسب سے منسلک ہیں مطلب ہنرمند ہیں مثلاً حجام، ترکھان، لوہار، درزی، تیلی، جولاہا، کمہار، موچی وغیرہ تو انھیں ریکارڈ میں "دستکار” کے طور پہ تحریر کیا جاتا ہے۔ جہاں تک رہ گئی بات "کمی” کہنے کی تو دور قدیم میں دیہاتوں میں بسنے والی وہ اقوام جو نہ ہی زمینداری کرتی تھیں اور نہ ہی کوئی خاص ہنر جانتی تھیں بلکہ مذکورہ بالا اقوام کے ہاں بطور مزدور کام کرتی تھیں مثلاً مصلی، میراثی، ڈوم، نٹ وغیرہ تو یہ لفظ ان کے لئے لکھا یا بولا جاتا تھا اور مختلف علاقوں میں اس کی اپنی اپنی نوعیت تھی مثلاً خطہ پوٹھوہار اور کوہستان نمک میں یہ لفظ "کمی” بولا جاتا، نہری علاقوں میں لفظ "کاما” آج بھی رائج ہے، اسی طرح بعض سرائیکی علاقوں میں "کمین” رائج ہے۔ چونکہ یہ حضرات زیادہ تر کاشتکاروں کے ہاں جانوروں کی دیکھ بھال، زرعی زمینوں پہ بطور مزدور کام کرتے جبکہ ان کی عورتیں زمینداروں کے گھروں میں کام کاج کرتیں۔ اسی طرح بعض دستکار افراد کے ہاں بھی یہ بطور معاون کام کرتے تھے۔ چونکہ پنجابی زبان میں کام کو عموماً "کم” کہا جاتا ہے اس لئے ان افراد کے لئے لفظ "کمی” استعمال کیا جاتا ہے، اسی طرح "کاما” لفظ بھی درحقیقت "کام” سے ہی اخذ کیا گیا ہے۔ اور یاد رہے کہ یہ اصطلاحات دور قدیم میں بطور گالی، تضحیک یا تذلیل کے لئے نہیں استعمال ہوتی تھیں۔کمی سے مراد کام کرنے والا ہے نہ کہ کم ذات والا۔اگر بین الاقوامی اعدادوشمار دیکھے جائیں تو حضرت آدم علیہ السلام کے پیشے یعنی کھیتی باڑی یازراعت کی انڈسٹری کاحجم اس وقت 2.4ٹریلین ڈالر پر مشتمل ہے حضرت نوح علیہ السلام کے پیشے بڑھئی کی امریکہ میں ماہانہ آمدن کم از کم 3700 ڈالر ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حلال رزق کمانے کیلیے اپنایا جانے والا ہر پیشہ معزز ہے اور انبیاء والے پیشوں میں برکت ہی برکت ہے۔ ہمارے معاشرے کادوہرا معیار اس سے واضح ہوتا ہے کہ ایک معروف خاندان کا نوجوان حجام کا کام سیکھ کر انگلینڈ جارہا اور دوسری طرف ایک حجام مایوسی کاشکار ہے کہ اسے حقارت سے نائی نائی کہا جاتا ہے ایک اچھاکاروبار کرنے والا موچی اپنے بچوں کو معاشرے کے اس ہتک آمیز رویٌہ کی وجہ سے یہ پیشہ نہیں اختیار کرنے دیتا۔ قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ میں نے پاکستان کے بہت بڑے لوگوں کے ساتھ وقت گزارا مگر جتنا خوددار میں نے ساہیوال کا ایک موچی دیکھا اس جیسی خودداری بہت سارے بڑے لوگوں پاس نہیں تھی۔ اصل چیز کردار ہے ناکہ پیشہ یا نسب۔اللہ کے نزدیک تقوی اہمیت رکھتا دنیاوی مراتب نہیں ۔ہمارے ہاں تھوڑی جدت آرہی ہے اب حمام سے ہیئرڈریسر اور بیوٹی پارلر جبکہ لوہار سے اسٹیل ورکر اور درزی سے فیشن ڈیزائنر کی اصطلاح عام ہورہی ہے بہرحال نام انگریزی ہو یاعربی ہر پیشہ قابلِ قدر ہے اور اہمیت کاحامل ہے اگر تین دن ہی بلدیہ ورکر صفائی نہ کریں تو شہر رہنے کے قابل نہیں رہے گا اسی طرح مذکوربالا کسی ایک پیشے سے وابستہ لوگوں کے بغیرزندگی کا تصوربھی ممکن نہیں۔ہمارے ہاں اگر شراب پینے والا۔بیچنے والا۔رشوت لینے اور دینے والا۔سود کھانے والا نہیں شرماتے تو حلال رزق کمانے والا کیوں؟ سچ تو یہ ہے کہ تپتی دوپہر میں تندور میں روٹیاں لگانے والا اور پورا دن کھدائی کر کہ رزق کمانے والا غرض محنت سے حلال رزق کمانے والا ہر ایک عظیم ہے اور معاشرے میں موجود تمام ایسے پیشے جو جائز ہیں وہ پیشے اختیار کرنے والےحقیقی معنوں میں اللہ کے دوست ہیں اور ہمیں ان سب کو قدر کی نگاہ سے دیکھناچاہیے۔
الغر ض شریعتِ مطہرہ میں حلال رزق کمانے کو مستحسن عمل قرار دیا گیا ہے۔ حصولِ رزق کی کی تلاش میں آنے والی تکالیف او ر مصائب پر اجرِ عظیم کا مژدہ سنایا گیا ہے۔ خود کو کسی کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے سے محفوظ رکھنے اوراہل و عیال کی کفالت کرنے کے لیے حصول رزق کی تلاش میں اپنی طاقت صرف کرنے والوں کو اللہ کی راہ میں طاقت صرف کرنے کے برابر درجہ دیا گیا ہے۔ حلال روزی کے حصول کے لیے کوئی خاص پیشہ مقرر نہیں کیا گیا بلکہ ہر وہ پیشہ جو حلال ہو‘ اسے اختیار کرکے حلال روزی کمانے کی ترغیب دی گئی ہے۔

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

زیارت ستہ ریشی ؒ اکنگام انت ناگ۔۔۔

Next Post

ہاتھ سے تحریر کیا گیا قرآن کا تاریخی نسخہ

Online Editor

Online Editor

Related Posts

معاشرتی بقا اَور استحکام کیلئے اخلاقی اقدار کو فروغ دیجئے

حسن سلوک کی جھلک

2024-12-20
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کی سونامی ! مرض کی دوا کیا؟

2024-12-20
انور شاہ کشمیری بھی مسلکی تصادم کا شکار

انور شاہ کشمیری بھی مسلکی تصادم کا شکار

2024-12-13
File Pic

روحِ کشمیر کا احیاء: تصوف کے ذریعے ہم آہنگی کا فروغ

2024-12-13
سرکاری عہدے داروں کا عمرہ۔۔۔۔کاش یہ رقم محتاجوں پر خرچ ہوتی

سرکاری عہدے داروں کا عمرہ۔۔۔۔کاش یہ رقم محتاجوں پر خرچ ہوتی

2024-11-29
ہاری پاری گام میں حضرت شیخ العالم ؒ (ھ842- ھ757) کا قیام

ہاری پاری گام میں حضرت شیخ العالم ؒ (ھ842- ھ757) کا قیام

2024-11-29
والدین سے حُسن سلوک کی تعلیم

2024-11-08
شیخ نورالدّین ولی کا مرتبہ اور مقام

شیخ نورالدّین ولی کا مرتبہ اور مقام

2024-11-01
Next Post
ہاتھ سے تحریر کیا گیا قرآن کا تاریخی نسخہ

ہاتھ سے تحریر کیا گیا قرآن کا تاریخی نسخہ

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan