
تمام مسلم ممالک نے اب عملی طور پر مظلوم فلسطینیوں کو بے یارو مدد گا چھوڑا ہے اور ان پر جو ظلم و جبر اور قہر سامانیاں لمحہ بہ لمحہ ڈھائی جارہی ہیں ، ان سے کوئی بھی مسلم ملک اور مسلماں بے بہرہ نہیں ، لیکن کسی بھی نام نہاد مسلم ملک میں یہ قوت اور ہمت ہی نہیں کہ وہ اس ظلم و ستم کے خلاف آواز بھی اٹھا سکے ، اور اگر کسی نے آواز اٹھانے کی ہمت دکھائی تو اس ملک ہی کو دہشت گرد قرار دے کر اس پر پابندیاں عاید کی جاتی ہیں ، کیا یہ دور اپنی اصل اور عملی شکل میں دجالی دور نہیں ،، ؟حالات اور مسلم ممالک اب باضابطہ اس مقام پر پہنچے ہیں جہاںوہ اسرا ئیلی آسمانوں میں اپنی پناہ گاہیں تلاش کر رہے ہیں ،انہیں لگتا ہے یا ان کا گماں غالب ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ان کی شہنشاہتوں کو دوام بخش سکتے ہیں اور ان کی حفاظت اور نگہبانی کی ضمانت فراہم کر سکتے ہیں ،، ایران ، حماص ، اخوان المسلمون اوردوسری اسلامی تحریکیں انہیں اپنی بادشاہتوں کے لئے شدید خطرات ، ہیبتناک دشمن اور امریکی اور اسرائیلی انہیں اپنے دوست اور اپنے تخت و تاج کے پاسباں نظر آتے ہیں ،، یہاں تک کہ ان لوگوں نے ا سلامی رنگ کے بجائے آہستہ آہستہ تہذیب و تمدن ، ثقافت اورمعاشرے کے مختلف رنگوں میں بھی اسی صیہونی رنگ کو پسند کیا ہے اور اسی رنگ میں اپنے آپ کو رنگنے کا شعوری فیصلہ کیا ہے ، افسوس کہ یہ لوگ کبھی اپنے نبی برحقﷺ اور قرآن کریم میں واضح طور قوم یہود سے متعلق پیش گوئیوں اور ماضی و حال کے عمل کو نہ پہچانتے ہیں اور نہ اپنی بے پناہ” دجالی“ مصروفیات کی وجہ سے ان پر غور کرنے کی فرصت پارہے ہیں اس کا راز کیا ہے کہ ، اب نوشتہ دیوار پر لکھا ہوا سارا مضمون صاف اور واضح ہوتے ہوئے بھی یہ لوگ نہیں پڑھتے ،(اور جب ہم چاہتے ہیں تو ان کے قلوب اور دل ودماغ پر مہر لگاتے ہیں القرآن )
امریکہ اسرائیل کو اتنی امداد ہر سال فراہم کرتا ہے جتنی کہ وہ سارے ممالک کو فراہم کرتا ہے اور پھر پچھلے دروازوں سے اسرائیل کیا حاصل کرتا ہے یہ کبھی معلوم نہیں پڑتا ، امریکہ سے نیو کلیر فارمولے اسرائیلیوں کے ہاتھ کیسے لگے یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ،، بہر حال اسرائیل کو آخری دور میں( دجالی ) ساری دنیا کی حکمرانی حاصل ہوگی ، گریٹر اسرائیل کے خواب کی تعبیر بھی ایک مختصر سی مدت کے لئے انہیں نظر آئے گی جس کی معاونت یہی ہے کہ عربوں کی بصیرت اور بصارت پر مہر لگ چکی ہے اور وہ غیر دانستہ طور اس سٹیج کو سیٹ کرنے میں معاون ثابت ہورہے ہیں ۔
تاریخوں میں موجود ہے کہ جب بھی یہ لوگ یہاں غالب آئے ہیں انہوں نے تاریخ کے سب سے بڑے قتل عام رقم کئے ہیں فتنہ و فساد پھیلایا ہے یہاں تک کہ صحن بیت المقدس میں بھی کسی مظلوم کو نہیں بخشا ہے ، اس سر زمین کے اصل وارثوں پر ظلم و ستم کے پہا ڈ توڈ ے ہیں ،،اور یہی ماضی میں ہوا ہے ، اور یہی آج بھی ہورہا ہے ، جب یروشلم کو حق اور باطل کی امتحان گاہ بننا پہلے ہی قرار دیا گیا ہے اور یروشلم کی تقدیر یہی لکھی جاچکی ہے ۔ تو کیا یہ امتحان گاہ ان کے لئے نہیں جو اپنے آپ کو مسلم کہلاتے ہیں ۔ کیا ان کا امتحان شہادت گاہ یروشلم میں نہیں ہوگا؟ صحراو ¿ں کے باوجود اللہ نے تمام نعمتیں محظ اپنے حبیب کے صدقے میں جن کو عطا کی ہیں کیا ان کے ایمانوں کی آزمائش نہیں ہوگی ؟، احادیث مبارکہ میں حتمی اور صاف بتایا گیا ہے کہ خراساں سے وہ لشکر نکلیں گے جنہیں کوئی زیر نہیں کر پائے گا ، یہ اہل یہود اور ان کے معاونین کے آخری لمحات ہوں گے ،، ،
