
غلام محمد اہنگر جو اپنے قلمی نام محمد کھار سے مشہور ہیں، کشمیر کے ہم آہنگی صوفی ثقافت کا ایک مجسمہ ہے۔ 1894 کو ضلع بانڈی پورہ کشمیر کے ایک چھوٹے سے گاؤں شاہ گنڈ نائدکھائی میں پیدا ہوئے۔ کشمیر کے دیگر صوفی شاعروں کی طرح اپنے پیغام اور خیالات کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے اپنی کشمیری زبان کو ترجیح دی محمد کھار نے ادب کی روح کو مجسم کیا آپ کا شمار قلندر درویشوں میں ہوتا ہے
وہ کبھی اسکول نہیں گئے تھے اور بالکل ناخواندہ تھے لیکن ان کی شاعری تصوف کا صاف ستھرا امتزاج ہے، جب کہ ان کی شاعری میں کشمیری زبان کے جاننے والے کو بھی کسی قسم کی خامی نظر نہیں آتی ہیں، یہ بات بالکل عیاں ہے ناخواندہ محمد کھار بے پناہ علم اور حکمت کے حامل ایک بلند پایہ انسان تھے۔
اس صوفیانہ شاعر اور بزرگ نے دن اور راتیں مراقبہ اور دعاؤں میں گزاری ہے . آپ نے تمام آسائشوں اور لذتوں کو ترک کر کے انتہائی سادہ زندگی بسر کی ۔ کشمیر کے طول و عرض میں اس کے متعدد شاگرد ہے۔ جن میں سب سے خاص نام غلام محی الدین اہنگر(محد کھار جو شاہ گنڈ سے ہی تعلق رکھتے ہے) اور غلام احمد موزور قابل ذکر ہے جو بمنہ سرینگر میں رہتے ہے.آپ بھائی چارے، ہم آہنگی اور سادہ زندگی کے علمبدار تھے۔ محمد کھار صاحب کا پیغام کسی ایک نسل یا ایک طبقے تک محدود نہیں تھا بلکہ یہ آفاقی ہے۔ وہ نہ صرف سادہ زندگی کے داعی تھے بلکہ محبت اور اتحاد کے داعی بھی تھے۔
محمد کھار صاحب کام کے سلسلے میں مختلف جگہوں پر جاتے تھے، ایک بار وہ پٹن علاقے کے ہانجی وارہ گاؤں میں پونچے کھار صاحب گھوڑے پر سوار تھے وہاں ایک فقیر خدا غلام محی الدین خان نہالپورہ لوگوں کو پیٹ رہا تھا اور آپ نے حکم کیا اس گھوڑے سوار کو ہاں لاؤ اور محمد صاحب خار کو بھی پیٹ کر ہاتھ پاؤں باندھے اور خود گھوڑے پر چڑ کر سفر شروع کیا تو کھار صاحب نے اس کا پیچھا کرنا شروع کیا آخر کھار صاحب نہالپورہ پہنچھے جہاں فقیر خدا پلنگ پر بیٹھا تھا اور کھار صاحب کو ہاتھ پاؤں کھول کر چائے پیلائی اور پھر کھار صاحب نیند کی آغوش میں محو ہوکر خواب دیکھنے لگے ..خواب یوں تھا کہ آپ ایک گودام میں داخل ہوئے اور وہاں سے کچھ بوریاں نکالنے لگے اور اچانک ایک آواز آئی اے محترم آپ یہاں کچھ نہیں رکھوں گے پھر فقیر خدا نے آپ کو لات مار کر پلنگ سے گرایا اور کھار صاحب نیند سے بیدار هوئے .بات چیت کے بعد محمد کھار غلام محی الدین خان نہالپوری سے بہت متاثر ہوئے تو انہوں نے ان کی ہدایت پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح محمد کھار محی الدین نہالپوری کے شاگرد بن گئے۔بد قسمتی سے ان کے پہلے روحانی مرشد حضرت محی الدین نہالپوری رحمتہ اللہ علیہ جنت کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت محمد کھار کو اپنے مرشد کے انتقال کے بعد صدمہ پہنچا
حضرت محمد صاحب کھار اپنی روحانی طاقتوں اور خیالات کو شاعری میں منفرد انداز میں تبدیل کرنے کے منفرد طریقہ کے لیے جانا جاتا ہے۔آپ کا پہلا کلام یوں ہے
کرتھ لا ژاس اندر پانس
فدا گوس عشقہ میخانَس
اندر اژی تھئی وٗچٗھم ہر سٗو
وٗچٗھم سلطان میے روبرو
بہ ووتٗس پیش سلطانس
فدا گوس عشقہ میخانَس
دِیتٗم دَرد٘ن میے پردن نار
ونان مردم چٗھ محمد کھار
کتھاہ جان صاحب زانس
فدا گوس عشقہ میخانَس
آپ کی وفات کے بعد کھار صاحب نے محسوس کیا کہ انہیں مزید شعور کی ضرورت ہے جو ان کی اندر کی تشنگی کو کم کر سکے، اس لیے انہوں نے دوسرے مرشد کی تلاش شروع کی اور احمد ڈار سیلو سے رابطہ کیا۔جو شمش فقار صاحب کے طالب اول تھے
آپ بہت ذہین اور محنتی شاگرد تھے۔ آپ نے اپنے دو استادوں کے پاس شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کا علم حاصل کیا۔
انہوں نے کشمیری صوفی شاعری میں ایک نیا انداز متعارف کرایا۔ آپ نے اپنی شاعری کو ساحرانہ انداز میں پیش کر کے ہر دل پسندی بنائی, ان کی شاعرانہ زبان، تسلسل,تخیلی صلاحیت ,تخیل اور استعارہ بے مثال ہیں۔
محمد کھار کا سب سے مشہورِ کلام حیاتی پر ہے ..
فلتھ حیات چھم زر زرس کیاز مرس بہ کیاز مرس .
نے کعبہ تے نے بتخانس سجدہ کرس پنئی پانس
پانئی پانس بہ طواف کرس کیاز مرس بہ کیاز مرس
خود بہناہہن دلہ بیدارن دت الو محمد کھارن
بے خبریس لگہ کوہنہ درس کیاز مرس بہ کیاز مرس
تلاش معاش کے سلسلے میں ۱۹۳۰ میں مدون جاجن چلے گئے جہاں آپ نے ایک دکان کھولی حضرت پیشہ سے اہنگر تھے حضرت محمد کھار رح کا انتقال 73 سال کی عمر میں1967 میں ہوا اور آپ کو شاہ گنڈ نائدکھائی، بانڈی پورہ میں اپنے آبائی قبرستان میں تدفین ہوئی۔ وہاں ایک خوبصورت مزار تعمير کیا گیا ہے۔ ان کے مزار پر ہزاروں لوگ آتے ہیں .حضرت محمد کھار کے مزار پر ان کے عرس کے موقع پر عقیدت مندوں اور تصوف سے محبت کرنے والوں کا ہجوم ہوتا ہے جو ہر سال 23 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔
