شبیراحمد، علی گڑھ
مکرمی! امت مسلمہ کا زوال اسلامی دائرہ فکر کی شکستگی کے سبب ہے، سو ایک نئی ابتدا کے لیے لازم ہے کہ امت کے اربابِ حلّ و عقد از سر نو اسلامی دائرہ فکر کی تطہیر بلکہ تشکیل نو کا کام جلد از جلد اپنے ہاتھوں میں لیں۔ ان خیالات کا اظہار معروف مفکر ڈاکٹر راشد شاز نے برج کورس میں منعقد ہونے والے ایک پروگرام میں کلیدی خطبہ دیتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر اپنے مفصل خطاب میں فاضل مقرر نے اس خیال کی وضاحت کی کہ علم کی شرعی اور غیر شرعی تقسیم ایک اجنبی اور غیر قرآنی تصور ہے جس کے جواز پر کتاب و سنّت سے کوئی دلیل نہیں لائی جا سکتی۔ یہ دراصل ہمارے سیاسی عہدِ زوال کی پیداوار ہے، جب فاطمی خلافت کے داعیوں نے اپنے مبلغین اور دعاۃ کی فوج ظفر موج کی تیاری کی ضرورت محسوس کی تو انھوں نے اس خفیہ تبلیغی مہم کے لیے اسمٰعیلی مسلک کی درسگاہیں قائم کیں۔ اس صورت حال کے مقابلے کے لئے بہت جلد عباسی بغداد نے نظامیہ مدرسوں کا جال بچھا دیا۔حکومت کے بیش بہا وسائل دین کی مختلف سیاسی تعبیروں اور مختلف خلافتوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے بلا دریغ استعمال ہونے لگے۔ یہ خلافتیں تو ختم ہو گئیں لیکن مسلکی دینی درسگاہوں سے ہمارا پیچھا نہ چھوٹ سکا۔
فاضل مقرر نے تاریخی حوالوں سے اس بات کو ثابت کیا کہ چوتھی صدی سے پہلے علومِ شرعیہ کی اصطلاح سے ہمارے کان نا آشنا تھے۔ علماء و فقہاء کو احبارِ اسلام کی حیثیت حاصل نہ تھی اور نہ ہی شیعہ سنی کی تفرقہ بندی پوری طرح منقح ہو پائی تھی۔ بلکہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ اسلام نے انسان اور خدا کے مابین مشائخیت یا پاپائیت کے ادارے کو زمیں بوس کر دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن کے مطابق نبی کی بعثت کا مقصد انسانوں کی گردنوں سے اصر اور اغلال کا قلادہ اتارنا ہے۔ ابتدائی صدیوں میں کسی کو یہ خیال بھی نہ آتا تھا کہ وہ حلال و حرام اور جواز و عدم جواز پر اپنے فیصلے صادر کر سکتا ہے کہ فتویٰ کی زبان صرف خدا کے لیے مخصوص سمجھی جاتی تھی ۔ چوتھی صدی میں ہم مختلف فکری التباسات کے شکار ہو گئے۔ ایک ہی امت میں شیعہ، سنی، اسمٰعیلی، اباضی اور نہ جانے کتنے گروہ پیدا ہو ئے۔ ستم یہ ہوا کہ ان حضرات نے اپنے سیاسی اختلافات کو دین کی حیثیت دے ڈالی۔ متوکل کے عہد میں خلفائے اربعہ کا عقیدہ سامنے آیا۔ بیبرس نے فقہائے اربعہ کو تقدیسی حیثیت دی اور آگے چل کر برقوق نے حرمِ کعبہ میں چار مسلکوں کے الگ الگ مصلّے بچھوا دیے۔ حرمِ کعبہ کے مصلّے تو نجدی مصلحین نے اٹھوا دیے البتہ ائمہ اربعہ اور شیعہ سنی تقسیم کو ہم آج بھی نا قابل علاج مرض جانتے ہیں۔ حالانکہ ان ائمہ اربعہ کو نہ تو اللہ نے مامور کیا اور نہ ہی ان حضرات نے رسول اللہ کی صحبت پائی۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ یہ انسانی حوالے ہمارے اختلافِ فکر کو مسلسل غذا فراہم کرتے رہیں۔ پروفیسر راشد شاز نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ امت مسلمہ اپنے ہزار سالہ فکری انحراف کی بساط لپیٹنے کے لیے فی الفور اقدامات کرے، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم علم کی ثنویت جیسے خیالِ باطل کو مسترد کردیں۔ انھوں نے پوچھا بھلا بتایئے جو لوگ خود کو وارثینِ علومِ نبوت کہتے ہیں وہ اس بات سے کیسے انکار کر سکتے ہیں کہ علومِ نبوت کا سب سے مستند ماخذ قرآن مجید ہے۔ پھر یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ ڈیڑھ سو سے پانچ سو آیاتِ احکام کو وارثینِ علومِ نبوت اپنے تفقہ کے لیے منتخب کر لیں اور ہزاروں آیاتِ تسخیر و اکتشاف اور تدبر و تفکر محض کتابِ برکت بن کر رہ جائے۔ انھوں نے کہا کہ علم کی اس تقسیم نے امت میں دو طرح کے ذہنوں کو جنم دیا ہے جو ایک دوسرے سے مسلسل متحارب ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم شرعی علم کے اس التباس سے باہر آئیں جس نے ہمارے بہترین ذہنوں کو محض فروعی مناقشوں میں الجھا رکھا ہے۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ برج کورس کے روشن خیال علماء و عالمات کا یہ قافلہ نئی یونیورسٹی کا یہ خاکہ ایک ایسے متحدہ اسلام کی تشکیل میں مدد دے سکتا ہے جہاں شیعہ، سنی، حنفی، شافعی جیسی مختلف شناختیں پیمبرانہ اسلام میں تحلیل ہوتی ہوئی معلوم ہوں گی۔ شرعی اور غیر شرعی علوم کی تقسیم اپنا اعتبار کھو دے گی اور امت اپنے ہزار سالہ نظری انحراف کے سدِ باب کے بعد اقوامِ عالم کی قیادت سنبھالنے کی پوزیشن میں ہو گی۔
