از:جی ایم بٹ
روایتی طریقہ علاج کو فروغ دینے کے ساتھ طبی تحقیق کو آگے بڑھانے میں مسلمانوں نے اہم کام انجام تو دیا ۔ لیکن بعد میں اس میدان کو لپیٹ کر مغرب کے حوالے کیا گیا ۔ امام شافعی علیہ رحمہ کو اس بات پر سخت افسوس تھا کہ مسلمانوں نے اپنے شاندار ماضی کو فراموش کرکے طبی معاملات سے مکمل علاحدگی اختیار کی ۔ یہ بات بڑی عجیب ہے کہ ترک قبیلے جب خانہ بدوشی کی زندگی گزاررہے تھے تو طبی معاملات میں دوسری اقوام کے مقابلے میں ترقی یافتہ سمجھے جاتے تھے ۔ اس زمانے میں جبکہ وہ جنگ و جدل کے ساتھ مصروف تھے انہوں نے دو شعبوں کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا ۔ ایک تجارت دوسرا طبی شعبہ ۔ بلکہ طبی شعبے کو باضابطہ زندگی کا اہم جزو بنادیا گیا ۔ یہاں تک کہ ان کی خواتین بھی اس معاملے میں بڑی حساس اور ہوشیار تھیں ۔ بعد میں جب انہیں جنگوں میں برتری حاصل ہوئی اور اقتدار ملا تو خلافت عثمانیہ کے ان کے دور میں طبی شعبے پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی ۔ اس دوران دوسری اقوام خاص کر مغربی اقوام نے میڈیکل سائنس کو جدید لائنوں پر ڈالنے کی کوششیں جاری رکھیں ۔ ان اقوام کا اقتدار سمٹنے لگا تو انہوں نے سائنس و ٹیکنالوجی کو آگے بڑھنے کے لئے اختیار کیا ۔ پھر ایسا ہوا کہ اس شعبے میں انہوں نے ترقی حاصل کی تو انہیں پوری دنیا پر اپنی ترقی کا پرچم گاڑدیا ۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ان کی سائنسی ترقی کا راج دنیا بھر میں قائم ہے ۔ بلکہ ہر گھر ان کی سائنسی ترقی کا مظہر ہے ۔ اس کے ساتھ انہوں نے میڈیکل سائنس کا پورا منظر نامہ ہی تبدیل کرکے رکھ دیا ۔ یہ ایسا شعبہ تھا جس پر پہلے یونان کا تسلط تھا بلکہ طب یونانی ہی میڈیکل سائنس کا اول و آخر تھا ۔ بعد میں مسلمانوں نے اس سے واقفیت حاصل کرکے ایک نئی دنیا قائم کی ۔ اس دوران فزیکس ، کیمسٹری یہاں تک کہ جغرافیہ اور فلکیات کے علم میں نئے زاویے تلاش کئے گئے جو اس حوالے سے ایک نیا رجحان تھا ۔ یہ دور بہت مختصر رہا اور مسلمان ان علوم کے ساتھ زیادہ مدت تک جڑے نہیں رہے ۔ اس حوالے سے امام غزالی کو سائنس دشمن قرار دیا جارہاہے جنہوں نے دنیا بھر کے فلسفے کا ایسا مرغوبہ تیار کیا جو مسلمانوں کے لئے سائنس سے فرار کا باعث بنا ۔ غزالی خدا کی وحدانیت کے ساتھ طاقت کا اس قدر قائل تھے کہ وہ پانی ، آگ اور دوسری مادی اشیا کی خصوصیات کو ماننے کے لئے تیار ہی نہیں تھے ۔ بلکہ ان ساری چیزوں کو اللہ کا معجزہ اور کرشمہ قرار دیتے تھے ۔ وجوہات کچھ بھی رہی ہوں ۔ الغرض مسلمان سائنس اور اس سے جڑے تمام علوم سے لاتعلق ہوگئے ۔ یہاں تک کہ طبی دنیا سے مکمل فرار اختیار کیا ۔
طب کا سارا علم و فن ان اقوام کے ہاتھوں آگیا جنہیں مسلمان یہود و نصاریٰ کہتے ہیں ۔ یہ دو لفظ اپنے ہیئت کے لحاظ سے مسلمانوں کے لئے نفرت کا اولین ہدف ہیں ۔ ان کے رسم ورواج اور طریقہ زندگی زندگی مسلمانوں کو کسی طور قبول نہیں ۔ ان کے اختیار کئے گئے راستے پر چلنا تو درکنار بلکہ مسلمانوں کے اندر اس کے الٹا چلنا فرض عین ہے ۔ شروع شروع میں مسلمان اس حوالے سے بڑے شدت پسند تھے ۔ یہاں تک کہ برطانیہ کے مختلف ممالک پر تسلط کو انگریزوں کا نہیں بلکہ صلیبیوں کا تسلط قرار دیا گیا ۔ پھر جب انہوں نے اپنی نو آبادیات میں اپنا نظام تعلیم رائج کرنے کا فیصلہ لیا تو مسلمانوں نے اس کے زبردست مخالفت کی اور انگریزی زبان سیکھنے کو عیسائیت اختیار کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ۔ عرب ممالک کے اصحاب اقتدار نے ان کی ایجادات کو قبول کرنے سے انکار کیا ۔ وہاں مسلمانوں کے زوال کی جو چیزیں وجہ قرار دی جارہی ہیں ان میں ایک بڑی وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ ان حکومتوں نے پرنٹنگ پریس کی مشینوں کو درآمد کرنے سے انکار کیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک صدی سے زیادہ عرصے تک وہاں کتابیں چھاپی جاسکیں اور نہ اسلام کی کوئی ترویج ممکن ہوئی ۔ اس کا خمیازہ یہ ممالک آج تک اٹھارہے ہیں ۔ ہندوستان کی حالت اس سے کچھ بھی مختلف نہ تھی ۔ یہاں کے مسلم علما نے انگریزی پڑھانے والے اسکولوں میں داخل ہونے کو کفر قرار دیا ۔ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد حالت یہ ہے کہ ان کی تمام ایجادات علما کے لئے جائز ہیں ۔ لیکن عام مسلمانوں کے لئے ایسی چیزوں کا استعمال ناجائز ہے ۔ یہاں تک کہ جدید ایجوکیشن سسٹم کو اختیار کرنا جہنم کے آگ میں جلنے کا موجب بتایا جاتاہے ۔ مسلمانوں کو یہ سبق آج بھی پڑھایا جاتاہے کہ سائنسی علوم کو اختیار کرنا اور پڑھنا شریعت سے کھلی بغاوت ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسا سبق پڑھانے والوں کی اپنی اولادیں جن میں ان کی لڑکیاں بھی شامل ہیں یورپ کی یونیورسٹیوں میںپڑھ رہی ہیں اور یہ اسے باعث فخر سمجھتے ہیں ۔ لیکن عام لوگوں کے لئے اس کی اجازت نہیں ہے ۔ اس وجہ سے مسلمان نہ صرف سائنس تک رسائی حاصل کرنے سے محروم ہیں بلکہ علم طب میں بھی بہت پیچھے ہیں ۔ ان کے علاج و معالجے کا سارا اختیار یہود و نصاریٰ کو حاصل ہے ۔ مسلمانوں کا ان علوم سے فرار ان کے زوال کا باعث ہے ۔ بلکہ ایسے علوم سے دور رہنے اور اسلام کو بچانے کا جو مشن شروع کیا گیا تھا وہ سارے کا سارا مشن اسی سبب سے ناکام ہوکر رہ گیا ۔ سود کا جو نظام آج تمام معیشت پر غالب ہے مسلمان خود کو بچانے میں ناکام ہیں ۔ میڈیکل سائنس سے ان کی بے خبری ان کے شرم وحیا اور پردے کے اسلامی افکار کو پوری طرح سے نگل چکا ہے ۔ اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ ہمارے اندر غلط فکر کو رواج دیا گیا ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ایسی فکر اب بھی ہمارے اندر موجود ہے ۔ بلکہ اس کی بڑے پیمانے پر ترویج ہورہی ہے اور نئی نسل برابر اس کے چنگل میں آرہی ہے ۔ فکری زوال کے اس رواج کو یہود و نصاریٰ کی کوئی سازش قرار دینے کے بجائے اس کو مسلمان علما کا کمال قرار دیا جاتا ہے ۔ حالانکہ ان کا یہی کمال ہمارے زوال کا باعث ہے ۔ اس طرف توجہ دئے بغیر مسلمانوں کی شناخت اور ان کے کلچر کو بچانا ممکن نہیں ۔ وقت قریب آچکا ہے جب ہمارے لئے مسلمان ہونے یا مسلمان رہنے کے لئے کوئی بھی راستہ بچا نہیں ہوگا ۔
