تحریر :ماگرے فیاض
علامہ اقبال سے ایک شخص نے پوچھا ” زندگی کی کویئ بڑی خوشی بتائے ” ؟؟؟
علامہ اقبال نے جواب دیا "” میں نے انور شاہ کشمیری کو دیکھا ہے "”…
مولانا اشرف علی تھانوں سے کسی نے پوچھا "” آج کے وقت میں اسلام کے حق ہونے کی دلیل کیا ہے ” ؟؟؟
آپ نے جواب دیا ” دلیل یہ ہے کہ ہمارے پاس علامہ انور شاہ کشمیری ہے ۔
کشمیر نے نہ صرف شاعر ادیب اور بڑے بڑے مفکر پیدا کیے بلکہ اسلام کے میدان میں بھی بڑے بڑے ہیرے پیدا کئے اور ان میں ایک کوہ نور ہے علامہ انور شاہ کشمیری ( ر ع )
آیئ آج بات کرتے ہے اس شخص کی جس کو اپنے وقت کا امام بہقی کہتے ہے ۔۔۔جی ہاں میں بات کر رہا ہوں علامہ انور شاہ کشمیری کی ۔۔۔
انور شاہ کشمیری 16 نومبر 1875 کو لولاب میں پیدا ہوئے، ،آپ کے والد کا نام معزم علی شاہ تھا ۔آپ نے چار سال کی عمر میں قرآن پاک کی تعلیم شروع کی ، اور 14 سال کی عمر میں دیوبند میں تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور آگے چل کر آپ شیخ الحدیث ہو گئے ۔۔انور شاہ کشمیری کا حافظہ کمال کا تھا ۔۔آپ کے متعلق مشہور ہے کہ ایک بہت بڑی کتاب ہے ” فتہل قدیر ” جو 8 volumes میں ہے اور ہر volume ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے آپ نے اس کتاب کو زندگی میں صرف ایک بار پڑھا اور زندگی کے آخری لمحے تک آپ اس کتاب کے ہر صفے Page کا حوالہ اس طرح دیتے جیسے یہ کتاب آپ کے سامنے رکھی ہو ۔
آپ نے کھبی بھی کویئ دینی یا دنیاوی کتاب کو وضو کے بغیر نہیں چھوا ۔۔
علامہ شبیر احمد عثمانی فرماتے ہے ہے کہ اگر کوئی مجھ سے کہے کہ کیا آپ نے ابن حجر عسقلانی کو دیکھا ہے تو میں کہوں گا ہاں دیکھا ہے اور وہ انور شاہ کشمیری ہے ۔۔۔
علامہ انور شاہ کشمیری کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے ختم نبوت پر بہت ہی عمدہ کام کیا ، جس کو قیامت تک یاد رکھا جائے گا ، ، آپ نے اپنی پوری زندگی کو محمد رسول اللہ (صلالل علیہی وسلم ) کی نبوت اور رسالت کی حفاظت کی خاطر پیش پیش رکھا ۔جب بھی کویئ بڑا قادیانی عالم انور شاہ کشمیری کے ساتھ بحث کرتا تو اپنے آپ کو بے بس پاتا ۔علامہ انور شاہ کشمیری ایسے دلائل دیتے وہ قادیانی عالم دم دبا کر بھاگ جاتا ۔۔۔
جب بھی کویئ عالم یا شاگرد آپ کو کوئی حدیث سناتا تو انور شاہ کشمیری چند سیکنڈ میں بتا دیتے کہ کیا یہ حدیث ہے یا نہیں ۔ ایک بار کسی عالم دین نے آپ سے سوال کیا کہ آپ اتنی جلدی کیسے بتاتے ہے کہ یہ حدیث ہے یا نہیں ؟ انور شاہ کشمیری نے جواب دیا "” جو حدیث صحیح ہوتی ہے مجھے اس حدیث کو سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو آتی ہے اور میں سمجھ جاتا ہو کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔۔
آپ کو دس لاکھ حدیث راویوں کی refrence کے ساتھ یاد تھی ۔۔۔
آپ کو علم کا ادب اتنا تھا کہ جب آپ کسی کتاب کو پڑتے اور اس کتاب کے کسی ورق کے کو نے پر کچھ الٹی ترتیب میں لکھا ہوتا جس کو ہم حاشیہ بولتے ہے ،آپ کبھی بھی وہ حاشیہ پڑھنے کے لیے کتاب کو اپنی طرف نہیں موڑتے تھے بلکہ خود اٹھ کر کتاب کی دوسری طرف مڑتے اس کو پڑنے کے لئے ۔یہ ادب کا مقام تھا ۔۔
اب چلتے چلتے انور شاہ کشمیری کا ایک دلچسب واقعہ بتاتے جا رہا ہو ۔۔۔
ایک دفعہ دارالعلوم دیوبند نے آپ سے کہا کہ آپ جامعہتل الازہر مصر یو نورسیٹی میں جائے وہاں پر ایک کتاب ہے اس کی نقل یہاں لائے ۔آپ اس مصر کی یونورسٹی میں گئے مگر وہاں پر لائبریری کے منتظمین نے کہا کہ ہم اس کتاب کو اپنی لائبریری سے باہر نہیں دیتے اگر آپ اس کو پڑھنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے آپ کو لائبریری میں ہی بیٹھ کر پڑھنا ہوگا ۔۔انور شاہ کشمیری نے اس بڑی کتاب کو صرف ایک بار دو دن میں پڑھا اور واپس آیئے۔۔
اور واپس آکر اس کتاب کو اسی طرح لکھا جس طرح مصر یونورسٹی میں اصلی پڑھی تھی اور آپنی لکھی ہوئی کتاب کو مصر یونیورسٹی check کرنے کے لیے بیجھا اور یونورسٹی کے منتظمین نے اس کتاب کے حاشیہ پر مہر stamp کے ساتھ لکھا کہ یہ بلکل اصلی کتاب کا صحیح نقل ہے، لفظ بہ لفظ ۔۔۔۔
انور شاہ کشمیری 28 مئ 1933 میں انتقال فرما گئے ۔۔۔۔
