از:مولانا محمد راشد شفیع
اس وقت ہمارا معاشرہ بہت سارے سماجی مسائل کا شکار ہے، ان مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ باہمی نفرت و بغض اور حسد کا ہے، جس کا نتیجہ قطع رحمی کی صورت میں نکلتا ہے، اسلام جہاں معاشرے کو گناہوں کی دلدل سے نکالنے کے لیے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا حکم دیتا ہے، وہاں خاندانوں کی عمدہ روایات کو تحفظ دینے کے لیے صلہ رحمی کو لازمی قرار دیتا ہے، اور اسلامی معاشرے کی خوبصورتی ہی باہمی ہمدردی، بھائی چارگی، اور ایک دوسرے کی جان، مال، عزت وآبرو کی حفاظت سے جڑی ہوئی ہے۔
صلہ رحمی کا مطلب ہے کہ رشتے داروں اور قریبی عزیزوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور ان کے لیے اپنے دل میں خیر خواہی کا جذبہ رکھنا اور بقدر ضرورت ان کی مالی امداد کرنا اور ان کی تکالیف میں کام آنا، قران و حدیث میں جا بجا صلہ رحمی کی تاکید کی گئی ہے، چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد تعالیٰ باری ہے: ترجمہ: وہ لوگ جو اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں، اور معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے ، اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے ، یہ لوگ انہیں جوڑے رکھتے ہیں اور اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں، اور حساب کے برے انجام سے خوف کھاتے ہیں، اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر صبر سے کام لیا ،اور نماز قائم کی، ہم نے انہیں جو رزق عطا کیا، اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کیا، اور برائی کا بدلہ بھلائی سے دیتے ہیں، انہی لوگوں کے لیے انجام کا گھر ہوگا، ہمیشہ رہنے کے باغات، جن میں یہ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آباء، بیویوں اور اولاد میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی، اور فرشتے ان پر ہر دروازے سے داخل ہوں گے، یہ کہتے ہوئے کہ "سلام ہو تم پر” بسبب تمہارے صبر کرنے کے، سو کیا ہی خوب ہے انجام کا گھر۔)(سورۃالرعد: 20-24)حضرت ابوہریرہؓ، نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں : آپﷺ نے فرمایا کہ جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے صلہ رحمی کرنی چاہئے۔(صحیح بخاری،کتاب الادب)
دوسری روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ جب مخلوق کی تخلیق سے فارغ ہوئے تو رحم نے کہا: یہ قطع رحمی سے تیری پناہ مانگنے کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہاں کیا تو اس بات سے راضی نہیں کہ جو تجھے جوڑے گا، اسے میں جوڑوں گا اور جو تجھے توڑے گا، اسے میں توڑوں گا۔ کہا: کیوں نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تو اب ایسے ہی ہوگا۔ (صحیح بخاری،کتاب الأدب ،باب من وصل وصلہ اللہ)
حضرت انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ جسے یہ بات پسند ہے کہ اس کا رزق فراخ اور عمر دراز ہو تو اسے صلہ رحمی کرنی چاہئے۔(صحیح بخاری کتاب الادب)حضرت ابوایوب انصاری ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا: یارسول اللہ ﷺ مجھے ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں داخل کردے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور صلہ رحمی کرو۔(صحیح البخاری کتاب الادب)حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی: اللہ کے رسولﷺ! میرے (بعض) رشتے دار ہیں، میں ان سے تعلق جوڑتا ہوں اور وہ مجھ سے تعلق توڑتے ہیں، میں ان کے ساتھ نیکی کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں، میں بردباری کے ساتھ ان سے درگزر کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جہالت کا سلوک کرتے ہیں۔
آپ ﷺنے فرمایا: "اگر تم ایسے ہی ہو جیسے تم نے کہا ہے تو تم ان کو جلتی راکھ کھلا رہے ہو اور جب تک تم اس روش پر رہو گے، ان کے مقابلے میں اللہ کی طرف سے ہمیشہ ایک مددگار تمہارے ساتھ رہے گا۔(صحیح مسلم، کتاب البروالصلۃوالآداب) ایک اور حدیث میں سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ کسی کام کا بدلہ دینا صلہ رحمی نہیں ہے ،بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ نہ کیا جا رہا ہو تب بھی وہ صلہ رحمی کرے۔(صحیح البخاری،کتاب الادب)سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ نےرشتے داری عرش کے ساتھ لٹکائی ہوئی ہے اور کہتی ہے کہ جس نے مجھے جوڑا اللہ اسے جوڑے گا اور جس نے مجھے توڑا اللہ اس سے دور ہوگا۔(صحیح مسلم،کتاب البروالصلۃوالآداب)
ایک اور روایت میں صلہ رحمی کی وجہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے آسان حساب اور جنت میں داخلے کا وعدہ کیا گیا ہے چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تین صفات ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں بھی ہوں اللہ تعالی اس سے آسان حساب لے گا اور اسے اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا ۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہﷺ ! کن(صفات والوں ) کو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جو تجھے محروم کرے تو اسے عطا کر،جو تُجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کر،اور جو تجھ سے (رشتہ داری اور تعلق) توڑے تو اس سے جوڑ۔ صحابی ؓ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! اگر میں یہ کام کر لوں تو مجھے کیا ملے گا؟ آپ ﷺنے فرمایا: تجھ سے حساب آسان لیا جائے گا اور تجھےا للہ تعالی اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرما دے گا۔(المستدرک علیٰ الصحیحین للحاکم)
