از:ڈاکٹر جی ایم بٹ
علماء دین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ماہ رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے ۔ بلکہ قرآن میں اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ قرآن کا نزول ماہ رمضان میں ہوا ۔ قرآن ایک لائحہ عمل ہے جس میں اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ اس پر ایمان لانا کافی نہیں بلکہ اس کے احکامات پر عمل کرکے ہی نار جہنم سے بچا جاسکتا ہے ۔ اسی مناسبت سے ماہ رمضان میں دن کو روزہ رکھنے اور رات کے ایک حصے کو تلاوت قرآن کے لئے مخصوص کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ مسلمان قرآن کا چلتا پھرتا نمونہ بن جائے ۔ رمضان کا مہینہ شروع ہونے کے ساتھ ہی واعظ اور علما اس طرح کی ہدایات دینے لگتے ہیں ۔ ہر ماہ رمضان کے دوران مسلمانوں کو سمجھایا جاتا ہے کہ یہ مہینہ تربیت کا مہینہ ہے تاکہ باقی پورا سال ان ہی ہدایات اور اسی لائحہ عمل پر گزارا جائے ۔ قرآن محض تلاوت کے لئے نازل نہیں کیا گیا ۔ کسی بھی کتاب کو محض توتے کی رٹ لگاکر پڑھنا مقصود نہیں ہوتا ۔ اتنی سی بات ہوتی تو عرب کے معززین ہر گز اس کی مخالفت نہ کرتے ۔ قرآن کو ہدایت کی کتاب کہا گیا ہے اور ہدایت کوئی لغوی بات نہیں ۔ بلکہ اس کا عملی زندگی کے ساتھ براہ راست تعلق ہے ۔ قرآن کے آغاز میں ہی بتایا گیا ہے کہ یہ راہ مستقیم دکھاتا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ سیدھے راستے پرچل کر منزل مقصود تک پہنچاجاسکتا ہے ۔ باقی کوئی راستہ اصل منزل تک نہیں لے جاتا ۔ بلکہ ایسے راستے انسان کو بھول بھلیوں میں بھٹکادیتے ہیں ۔ اس سے عیاں ہے کہ یہ راستہ چلنے کا راستہ ہے اور اس پر چل کر دکھانا ہے ۔ جب ہی کامیابی حاصل ہوگی ۔ ماہ رمضان کا قرآن کے ساتھ یہی تعلق ہے کہ یہ مسلمان کو عمل پر اکساتا ہے ۔ اس مہینے اللہ کے احکامات پر عمل کرکے دکھانا ہے ۔ جب ہی قرآن کے اصل مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے ۔ اس کو محض پڑھنے یا یاد کرنے سے اصل مقصد ہرگز حاصل نہ ہوگا ۔ مسلم معاشرے کے اندر جو خرابیاں پائی جاتی ہیں وہ اسی وجہ سے ہیں کہ قرآن کو حروف کے اتار و چڑھائو اور اوزان کے رموز تک محدود کیا گیا ہے ۔ حالانکہ ماہ رمضان اور قرآن کا باہم تعلق ایک عظیم مقصد کے ساتھ جوڑا گیا ہے ۔ نزول قرآن کے مہینے میں روزے اس لئے فرض کئے گئے تاکہ تقویٰ حاصل کیا جاسکے ۔ بدقسمتی سے آج کے مسلمانوں کے اندر تقویٰ نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے ۔ تقویٰ کو سرے سے بھلادیا گیا اور قرآن و صیام کا اس کے ساتھ جوڑ ختم کیا گیا ۔ ماہ صیام تیس فاقوں اور قرآن محض زبانی یاد کرنے تک محدود کردیا گیا ۔ یہی اس کا اصل مقصد بنادیا گیا ۔ حالانکہ اللہ کے ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ۔ وہاں اصل شے تقویٰ ہے ۔ تقویٰ مسلمانوں کے اندر سرے سے نظر نہیں آتا ۔
ماہ رمضان میں یقینی طور لوگ نیکیوں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں ۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے ۔ ہوٹل اور ڈھابے بند کئے جاتے ہیں یا ان کے داخل ہونے والے دروازوں پر پردے ڈال دئے جاتے ہیں ۔ روزوں کے احترام میں کھلے عام کھانا پینا بند ہوجاتا ہے ۔ ایسی علامات بڑی اہم ہیں اور ان باتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود یہ تلخ حقیقت موجود ہے کہ اصل معاملات بہتر نہیں ہورہے ہیں ۔ مسلمانوں کے یہاں قرآن پڑھنے اور روزے رکھنے سے جو زندگی ابھرنی چاہئے تھی وہ ابھر نہیں پاتی ۔ ان کے اندر دیانت اور امانت کا جو جذبہ ہونا چاہئے وہ کہیں دکھائی نہیں دیتا ۔ کسی نے سچ کہا کہ ایک کوس کے اندر چلنے سے کئی مسجدیں نظر آتی ہیں ۔ لیکن خالص دودھ فروخت کرنے والی دکان سو کوس چلنے کے بعد بھی نظر نہیں آتی ۔ ایک میل کے اندر کئی امام باڑے نظر آتے ہیں ۔ لیکن دس میل چل کر بھی اصل دوائیں بھیجنے والا دوا فروش نہیں ملتا ہے ۔ ہر بستی میں اب حافظ اور قاری نظر آتے ہیں ۔ لیکن درجنوں بستیوں میں تلاش کرنے کے باوجود کوئی دیانت دار مزدور نہیں ملتا ۔ ہر محلے کے اندر ایک مفتی بیٹھا ہوا ہے ۔ لیکن بیس پچیس محلے کھنگالنے کے بعد بھی کوئی دیانت دار مستری نہیں ملتا ہے ۔ پہلے صرف پترول میں ملاوٹ کی جاتی تھی ۔ اب خالص پانی بھی کہیں نہیں ملتا ہے ۔ یہاں تو ماہ رمضان میں بھی لوگ دھوکہ دہی اور بددیانتی ترک کرنے کو تیار نہیں ۔ یہ ماہ رمضان کی حقیقت ہے کہ آدمی احتیاط سے نہ چلے تو اس مہینے میں بھی سر راہ لٹیروں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ روزہ داروں سے بھی خوف آتا ہے ۔ قدم قدم پر بددیانت اور لٹیرے نظر آتے ہیں ۔ یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے کہ اس کو ماننے کے لئے ہم تیار نہیں ۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ اس مہینے کے اندر بھی ایسے لوگوں سے سامنا ہوتا ہے جن کے ہاتھ میں ایسے یتیم خانوں کے رسید بک ہوتے ہیں جہاں کوئی یتیم پلتا نہیں ہے ۔ ایسے بیماروں کے نام پر چندہ اکٹھا کرنے والے ملتے ہیں جن بیماروں کا کہیں وجود نہیں ۔ ایسے درسگاہوں کے لئے چندہ جمع کرنے والے ملتے ہیں جہاں درس و تدریس کا نام و نشان نہیں ۔ اس مہینے میں دکاندار گاہکوں کو بڑی آسانی سے کوٹتے ہیں ۔ یہ وہ مہینہ ہے جب گاہک سے پچاس روپے کا مال دو سو میں فروخت کیا جاتا ہے اور ادائیگی کے لئے جلدی کی جاتی ہے تاکہ نماز نہ چلی جائے ۔ ان تلخ حقایق کا سامنا قدم قدم پر کرنا پڑتا ہے ۔ یہ ماہ رمضان کے تلخ حقایق ہیں کہ اس مہینے لوگوں کے صدقات اور زکوات پر بھی ڈاکہ ڈالا جاتا ہے ۔ ڈاکہ ڈالنے والے کوئی غیر نہیں بلکہ روزہ دار ہی ہوتے ہیں ۔ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ماہ صیام کی اہمیت اور قرآن کی افادیت پر گھنٹوں لیکچر دیتے ہیں ۔ ان کے ایک ہاتھ میں تسبیح ، دوسرے ہاتھ میں مسواک اور جیب میں قرآن پاک ہوتا ہے ۔ یہ سب کچھ لوگوں کو لوٹنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان اشیا کی مدد سے تقویٰ نہیں بلکہ غریبوں کا خون نچوڑا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں قرآن سے اور نہ رمضان کے روزوں سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے ۔ یہ ماہ رمضان کے ایسے حقایق ہیں جنہیں تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔
