تحریر:خالد بشیر تلگامی
جمال صاحب نمار روزہ کے بڑے ہی پابند شخصیت ہیں۔دوران نماز اکثر ان سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ ان دنوں میں ان میں ایک عجیب سے کیفیت کومحسوس کرنے لگاہوں۔ نمازسے فارغ ہوکر سارے نمازی مسجد سے نکل جاتے ہیں مگر وہ کافی دیر تک ہاتھ اٹھائے بڑی آہ وزادی کے عالم میں رب العزت سے گڑگڑاکر دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔
ایک دن مجھ سے رہانہیں گیا۔ جب وہ دعا سے فارغ ہوئے تو میں نے ان سے پوچھا۔ "جمال صاحب , ان دنوں آپ کچھ پریشان سے لگ رہے ہیں۔ گھر میں سب خیریت تو ہیں نا؟ ویسے آپ کے پاس اللہ کادیابہت کچھ ہے۔”
انہوں نے میرے سوال پر ایک سرد آہ بھر کرکہا”الحمدللہ, اللہ کادیا سب کچھ ہے۔”
"توپھرآپ کے چہرے پر یہ اداسی کس بات کی؟”
وہ درد بھرے لہجے میں کہنے لگے۔”اب اس سے بڑی فکر اور کیاہے بھائی کہ گھرمیں تین جوان بیٹیاں ہیں۔ چاروں طرف مطلب پرستی کی آندھیاں چل رہی ہیں۔۔۔ چراغ لے کر ڈھونڈنے پربھی میرے حضورکی سنت کے تحت نکاح کرنے والاایک جوان نہیں مل رہا ہے۔۔۔شادی بھی کاروبار کاروپ دھارچکی ہے۔ ایک فرمائش پوری نہیں ہوئی کہ دوسری شروع۔۔۔ یہ الگ جنجال۔۔۔ اف اللہ! یہ امت کدھر جارہی ہے۔”
ان کی آنکھوں میں آنسوں چھلک پڑے۔ میں نے انہیں تسلی دی۔”اللہ کے بندے ہمت نہیں ہارتے،وہ بڑاکارسازہے۔۔۔اس کے یہاں دیرہے اندھیر نہیں۔”
اتنے میں میرا جوان لڑکا اپنے دوچچازاد بھائیوں کے ساتھ ادھر سے مجھے پکارنے لگا۔”ابو ہم یہاں ہیں۔”
توجمال صاحب پوچھنے لگے”یہ آپ کے لڑکے ہیں؟ ”
مجھے سجھائی نہیں دے رہاتھاکہ میں کیا جواب دوں۔
