• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
جمعہ, مئی ۹, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم ادب نامہ

خالد

Online Editor by Online Editor
2022-06-05
in ادب نامہ
A A
خالد
FacebookTwitterWhatsappEmail

تحریر:رئیس احمد کمار
ریاض آٹھویں درجے کا ہی طالب علم تھا جب وہ باپ کے سائے سے محروم ہوگیا ۔ دس سال تک بستر مرگ پر رہنے اور لاکھوں روپیہ اس کے علاج و معالجہ پر خرچ کرنے کے باوجود بھی اس کا باپ زندگی کی جنگ ہار گیا ۔ ریاض کی والدہ حسینہ کو بے شمار تکالیف کا سامنا کرنا پڑا اور خطرناک مصیبتیں جھیلنی پڑیں کیونکہ شوہر کی بیماری نے اس کا کمر ہی توڑ ڑالا تھا ۔ گھر کا واحد کمانے والا ہی جب ایک دہائی تک بستر مرگ پر رہا ہو تو یہ بات خود ہی سمجھ میں آتی ہے کہ کس طرح کے مشکلات و مصائب کا سامنا حسینہ نے کیا ہوگا ۔۔۔۔۔
اپنی آمدنی سے جو بچت حاصل ہوئی تھی اور بیشتر حصہ اپنی جائداد کا بیچ کر بھی حسینہ کا شوہر جان لیوا بیماری سے چھٹکارا نہیں پاسکا ۔ اس کے مرنے کے بعد ہی گھر کی اقتصادی حالات نہ صرف کمزور ہوئی بلکہ کمر توڑ مہنگائی نے ان کا جینا دو بھر کردیا تھا ۔ حسینہ کو خود سے زیادہ اپنے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی فکر تھی ۔ ان کی کفالت کرنا ، تعلیم و تربیت کا انتظام وغیرہ کرنا اب حسینہ کے لیے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن سا بن گیا تھا ۔ رشتے داروں اور ہمسایوں نے بھی کبھی حسینہ کی کوئی مدد نہ کی ، یہاں تک کہ انہوں نے کبھی اس کی خبر گیری بھی نہ کی بلکہ اسے اللہ کے رحم و کرم پر ہی چھوڑا ۔۔۔۔۔
بچوں کو پالنا اور ان کی بہتر تعلیم و تربیت کرنا حسینہ کا خواب تھا ۔ اس لیے اس عظیم خواب کو حقیقت میں بدلنے کی خاطر اس نے ایک بہادر مرد کی طرح ان کی کفالت کی ۔ صبح پہلے وہ بچوں کو اسکول کے لیے روانہ کرتی تھی ۔ بعد میں کچھ لوگوں کے گھر جاتی تھی جہاں وہ ان کا کام کرتی تھی ۔ مہینے بعد اسے وہاں اچھی تنخواہ ملتی تھی ۔ اس طرح وہ اپنے عیال کی کفالت کرتی تھی ۔ چار بجے پہلے پہلے وہ واپس اپنے گھر پہنچتی تھی ۔ بچوں کے لیے چاے وغیرہ تیار کرنا اور گھر کا باقی پڑا کام ختم کرتے کرتے رات ہو جاتی تھی ۔ اس طرح سے حسینہ کے دن گزرتے تھے ۔۔۔۔۔۔
وقت گزرتا گیا ۔ حسینہ کے بچے بھی بڑے ہوتے گئے ۔ اس کا بڑا بیٹا خالد بارھویں جماعت میں اچھے نمبرات لے کر اس سال کامیاب ہوا تھا اور وہ ڑاکٹری کرنے کے لیے مسابقتی امتحان کی تیاری میں مصروف عمل تھا ۔ اس کی ماں نے اسے اور دو اور بچوں کو کبھی کسی قسم کی کمی محسوس ہونے نہیں دی ۔ بک بائنڑنگ کارخانے میں بھی اس نے کام کیا تاکہ بچوں کے تعلیمی اخراجات اور باقی ضرورتیں پورا کر سکے ۔۔۔۔۔
نییٹ امتحان میں اچھی کارکردگی دکھاکر خالد نے سرکای میڈیکل کالج میں سیٹ حاصل کی ۔ اب اس کے لیے ڑاکٹر بننا طے تھا لیکن اب اگر کوئی چیز رکاوٹ ڑال سکتی تھی وہ پیسوں کی کمی تھی ۔ اس کی ماں کا خواب پورا ہوا تھا اس لیے اس نے اپنے بیٹے خالد کو کبھی پیسوں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی ۔ جہاں بھی اسے کام ملتا تھا وہ موقعے کو غنیمت جان کر اور بچوں کے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے کہیں بھی جاتی تھی ۔ پانچ سال بعد ایم بی بی ایس کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد ہی خالد کی تعیناتی قصبے کے سرکاری ہسپتال میں ہوئی ۔ اپنی قابلیت اور ذہانت کی بدولت وہ ڈگری مکمل کرنے کے فورا” بعد ہی تعینات ہوا ۔ اب وہ قصبے کا کیا پوری ریاست کا بہترین معالج بن گیا۔ گھر کی حالت ایک دم تبدیل ہوگئی ۔ اس کی بہن اور اس کا بھائی اب شہر کے سب سے بڑے ادارے میں تعلیم حاصل کررہے تھے ۔ اس کی ماں جو پہلے لوگوں کے گھروں میں بطور نوکرانی کام کرتی تھی اور جس نے بک بائنڑنگ کارخانے میں بھی کام کیا تھا اب ایک اچھی زندگی گزار رہی تھی ۔ پھٹے کپڑوں میں ملبوس اور ماضی میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے والی خالد کی ماں اب دوسروں کی مدد میں پیش پیش رہتی تھی ۔۔۔۔۔
ڑاکٹر خالد نے فیصلہ کیا کہ ڈیوٹی سے واپس لوٹنے کے بعد شام کو وہ ہر دن لوگوں کا مفت بغیر کسی فیس کے علاج و معالجہ کریں گے ۔ اس نے اپنے مکان کے سامنے ہی اپنا کلینک بنوایا تھا ۔ اپنی غریبی اور تنگدستی کے دن ڈاکٹر خالد کو برابر یاد تھے اسی لیے اس نے خدمت خلق کے بطور لوگوں کا مفت علاج کرنے کا منصوبہ بنایا تھا ۔ شام کو ہسپتال سے واپس آتے ہی ڑاکٹر خالد اپنے کلینک کو جاتے تھے ۔ آس پاس کے رہنے والے لوگ اقتصادی لحاظ سے کمزور ہی تھے اس لیے بھی ڑاکٹر صاحب نے مناسب سمجھا تھا کہ ان کا مفت علاج کروں ۔ پورا ایک مہینہ ہوا تھا اور ڈاکٹر خالد کے پاس کوئی بیمار ہی نہیں آیا ان کے کلینک پر ۔ ڑاکٹر صاحب صبح نو بجے تک اور شام کو پانچ سے سات بجے تک لوگوں کی خدمت کے لیے اپنے کلینک پر حاضر رہتے تھے لیکن پورے ایک مہینے میں ایک بھی بیمار اپنا علاج کروانے ڈاکٹر صاحب کے پاس نہیں آیا ۔ ڑاکٹر صاحب، اس کی ماں اور بہن شیش و پنج میں تھے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ لوگ اپنا مفت علاج کروانے بھی ان کے پاس نہیں آتے ۔۔۔۔
ان کے پڑوس میں ایک خاتون کی موت واقع ہوئی تھی اور اس کی ماں بھی تعزیت کرنے وہاں گئی تھی ۔ جب اس نے ایک عورت سے پوچھا کہ لوگ کیوں نہیں اپنا علاج کروانے ڈاکٹر صاحب کے پاس آتے ہیں بلکہ شہر جا کر اپنا پیسہ ضائع کرتے ہیں تو واپس جواب ملتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” آپ درست فرما رہی ہے لیکن کیا آپ کو پتہ ہے کہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں ۔ جو ڈاکٹر مفت میں علاج کرے گا وہ کونسا ڈاکٹر ہوگا اور جو دوائی مفت میں وہاں سے ملے گی اسے بھی بیمار ٹھیک کیسے ہو گا "۔۔۔۔۔۔۔
ایک سال بعد ڈاکٹر خالد نے شادی بھی شہر کے ایک رئیس آدمی کی بیٹی سے کی ۔ وہ بھی ایک ڑاکٹر ہی تھی ۔ شادی کے ایک مہینے بعد ہی بیوی نے ڈاکٹر خالد کو شہر میں ہی مکان بنانے پر مجبور کیا کیونکہ گاؤں کا رہن سہن اور اس کی ماں اور بہن کے سادہ مزاج سے بھی وہ تنگ آئی تھی ۔ اس لیے وہ ہر دن کسی نہ کسی بہانے پر اسے شہر میں ہی رہنے کے لیے کہتی تھی ۔ ایک دو مہینے تک اس نے بات ٹال دی تھی لیکن جب وہ پوری طرح بے بس نظر آیا تو آخر اس نے شہر میں ہی مکان خریدا ۔ بیوی اور ایک بیٹے کے ساتھ شہر میں رہتے ہوئے وہ کبھی کبھار ہی اپنے آبائی گاؤں کا رخ کرتا تھا ۔ اس کی ماں، بہن اور اس کا بھائی چھٹی کے دن اس انتظار میں رہتے تھے کہ ڈاکٹر خالد ضرور ان کے پاس آئیں گے لیکن وہ کبھی ایک مہینے تو کبھی دو تین مہینے بعد ہی ان کی خبر گیری کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔
ایک دن ڈاکٹر خالد اپنے بیٹے اور بیوی کو کسی صحت افزاء مقام کی سیر پر لے جا رہا تھا تو رستے میں ہی فون کی گھنٹی بج گئی ۔۔۔۔ ” ہیلو ڑاکٹر صاحب ! میں منیر آپ کے آبائی گاؤں میں آپ کا پڑوسی بات کررہا ہوں ۔۔۔ جی فرمائے کیا بات ہے ؟ ڈاکٹر صاحب آپ کی والدہ کا انتقال صبح سویرے ہی ہوا ہے لہذا آپ جلدی کیجئے تاکہ ماں کے جنازے میں شرکت کر سکو گے ” ۔۔۔۔
ڑاکٹر خالد کو سمجھ ہی نہیں آ رہا ہے کہ اب کیا کروں ۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

عمر پوچھنا

Next Post

کشمیر سے عازمین حج کا پہلا قافلہ مدینہ منورہ کےلیے روانہ

Online Editor

Online Editor

Related Posts

خالد

آخری ملاقات

2024-12-22
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
’’میر تقی میر‘‘ لہجے کے رنگ

میر تقی میر کی سوانح حیات ”ذکر میر“ کا فکری اور تاریخی جائزہ

2024-11-17
ونود کھنہ: پشاور سے بمبئی تک

ونود کھنہ: پشاور سے بمبئی تک

2024-11-17
کتاب کا جائزہ: شہلا رشید کی -رول ماڈلز

کتاب کا جائزہ: شہلا رشید کی -رول ماڈلز

2024-11-13
روشنیوں کا تہوار، اردو شاعری کی نظر میں

روشنیوں کا تہوار، اردو شاعری کی نظر میں

2024-11-03
ادبی چوریاں اور ادبی جعل سازیاں

ادب ، نقاد اور عہدِجنگ میں ادبی نقاد کا رول

2024-11-03
موبائل فون کا غلط استعمال !

موبائل فون!

2024-10-20
Next Post
کشمیر سے عازمین حج کا پہلا قافلہ مدینہ منورہ کےلیے روانہ

کشمیر سے عازمین حج کا پہلا قافلہ مدینہ منورہ کےلیے روانہ

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan