• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
جمعہ, مئی ۹, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم ادب نامہ

ممکن نہیں کہ سرد ہو ۔۔۔۔۔ !!

Online Editor by Online Editor
2022-11-27
in ادب نامہ
A A
ممکن نہیں کہ سرد ہو ۔۔۔۔۔ !!
FacebookTwitterWhatsappEmail

محمد سلیم سالک

نوٹ: گزشتہ روز کشمیر کے معروف صحافی خواجہ ثناء اللہ بٹ مرحوم کو انکی برسی پر یاد کیا گیا ۔ ذیل مضمون اسی مناسبت سے ملاحظہ فرمائیں۔

”ارمغان کاشمر“ ان نو عمر قلم کاروں کے مختصر افسانوں کا مجموعہ ہے جو اردو ادب کے افق پر دلیل ِصبح کی طرح روشن ہورہے ہیں۔ ان نوعمر قلمکاروں سے اردو ادب کا مستقبل وابستہ ہے اور ان کی موجودہ جستجو و آرزو قائم و دائم رہی،تو یہ یقینی امر ہے کہ یہ سر زمین کاشمر میں اردو وادب کے آسمان کو منور کر دیں گے اور اردو ادب کو اپنی نگارشات سے مالامال کرنے والوں میں شمار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو ہمت و عزم اور انہیں ان کے پر خلوص ارادوں میں کامیابی عطا فرمائے“۔
یہ پیغام خواجہ ثناء اللہ بٹ نے ستر کی دہائی میں چھپی ایک افسانوی انتھالوجی ”ارمغان کاشمر“ کے لئے دیا تھا۔اس کتاب کو کشمیر کے معروف معالج ڈاکٹر بشیر گاش نے مرتب کیا ہے۔ جب گاش صاحب نئی نسل کے افسانہ نگاروں کی تخلیقات کو’’ارمغان ِ شباب”کے عنوان سے کتابی شکل دینے کے سلسلے میں خواجہ ثنااللہ بٹ سے ملاقی ہوئے۔ تو خواجہ صاحب نے کچھ دیر سوچ کرکہا،کہ کیا اچھا ہوتا کہ آپ اس کا عنوان ”ارمغان کاشمر“ رکھتے۔
گاش صاحب نے اُس دور کے نوجوان افسانہ نگاروں کی تخلیقات کو ایک لڑی میں یہ کہہ کر پرویا تھا کہ کہنہ مشق افسانہ نگار نئے لکھنے والوں کو ہمیشہ نو آموز سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں۔ گاش صاحب کے لکھے ہوئے دیپاچے کی ایک سطر سطر کی معنویت اور اہمیت آج بھی برقرار ہے۔ انہوں نے جذباتی اور جارہانہ انداز میں کہنہ مشق ادیبوں سے گلہ کرتے ہوئے اس بات کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ جب تک آپ نئے لکھنے والوں کو پلیٹ فارم مہیا نہیں کریں گے تو وہ کیسے پنپ سکتے ہیں۔اس بات سے انکار نہیں کہ پانچ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی وہی صورت حال آج بھی ہمارے سامنے ہے۔ ٹی۔ایس۔ایلیٹ نے بھی کیا خوب کہا ہے کہ "ہر دور میں چہرے بدلتے ہیں صور ت حال نہیں۔ ”
خواجہ صاحب نئی نسل کوکتنا عزیز رکھتے تھے اس کا اندازہ خواجہ صاحب کے درج بالاپیغام سے بخوبی ہوجاتا ہے۔ خواجہ صاحب نے ’’آفتاب“ کے ذریعہ نئے لکھنے والوں کو ایک پلیٹ فارم دیا،جس سے نوخیز ادیبوں کی ایک بڑی کھیپ سامنے آئی۔یہ دور اس حوالے سے ذرخیز تھا کہ لکھنے والوں نے نئے رجحانات اور نئے میلانات کے تحت اپنی تخلیقی پیاس بجھانی شروع کردی تھی۔یہاں کے ادبی ماحول میں گہماگہمی پیدا ہوگئی تھی۔آفتاب کے ادبی صفحات ادیبوں کے لئے وقف تھے۔ ”آفتاب“ کی بدولت لکھنے والوں کا ایک بڑا کاروں سامنے آیا جس میں اکثر و بیشتر ادباء و شعراء ملکی سطح پر اپنی شناخت بناچکے ہیں۔لیکن ہم ان لکھنے والوں کو بھی فراموش نہیں کرسکتے جنہوں نے اس دور میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے ایک ایسا ماحول پیداکیا۔ جس کو دیکھ کر یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ وہ دور کشمیر میں تخلیقی ادب کے حوالے سے ایک ذریں دوررہا ہے۔
خواجہ صاحب خود ایک صاحب طرز صحافی تھے۔علم و ادب سے گہرا تعلق تھا۔ سیاسیات و سماجیات کے ساتھ ساتھ ادبیات سے بھی گہرا شغف رکھتے تھے۔خصوصاً علامہ اقبال سے قلبی مناسبت رکھتے تھے۔ اسی لئے اپنے ادارتی کالم کے سرنامے کے طور پر علامہ اقبال کا یہ شعر ہمیشہ لکھتے آئے۔
؎ جس خاک کے ضمیر میں ہو آتش چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ِ ارجمند
اسکے علاوہ اپنے فکاہیہ کالم ”خضر سوچتا ہے ولر کے کنارے“کاعنوان بھی علامہ کے شعر سے ہی مستعار لیا تھا۔اس کالم میں زبان کی چاشنی اور موضوع کی تازگی قاری کو آخر تک گرفت میں رکھتی تھی۔مقفیٰ و مسجع نثر کے اسلوب میں حالات و واقعات کی عکاسی کرنا خواجہ صاحب کا روز کا معمول بن چکاتھا۔اگرچہ کئی صحافیوں نے اس روش میں خامہ فرسائی کرنے کی کوشش کی لیکن جو ذأیقہ خواجہ صاحب کے انداز میں تھا وہ کہاں سے لاتے۔ جس طرح فکر تونسوی ”پیاز کے چھلکے“ لکھ کر لوگوں کے آنسوں پونچھتے تھے اسی طرح خواجہ صاحب ولر کے کنارے ہنسی کے فوارے پیدا کرتے تھے۔ خواجہ صاحب ایک جوہری کی طرح نئی نسل کے ہیروں کی تراش خراش کرکے ان کو ڈأیمنڈ بناکر بازار میں اس نیت سے چھوڑ دیتے تھے کہ اب ان کو اپنی قیمت کا اندازہ ہوگیا ہے۔اس کااندازہ آپ کو اس بات سے ہوگا کہ ریاست کے پرنٹ میڈیا میں جو بھی نام روشن ہوئے،ان میں اکثر آفتاب کی درس گاہ سے ہی فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔اس بات کی تصدیق بشیر گاش اپنی مرتبہ کتاب ”ارمغان کاشمر“ کے دیپاچے میں یوں کرتے ہیں۔
”جوہریوں کی اس وادی میں بھی کوئی کمی نہیں،لیکن یہ لوگ وہی ہیرے خریدتے ہیں جن میں محنت نہیں کرنا پڑتی۔اب کون ٹیٹرھے میڑھے پتھر کے ٹکڑے خریدے،ان کی تراش خراش میں وقت اور طاقت ضائع کرے،انہیں چمکائے اور دنیا کے سامنے پیش کرے۔اس لئے یہ خام ہیرے کباڑیوں کے ہاتھ لگ گئے ہیں اور کبھی جب نیلام بھی کردئے جاتے ہیں تو بولی پندرہ روپے سے اوپرکبھی نہیں جاتی۔ اس کباڑ خانے کی کئی شاخیں ہیں۔مدیر آفتاب خواجہ ثناء اللہ بٹ اس کباڑی بازار کے واحد جوہری ہے جو ناتراشیدہ ہیرے قبول کرتا ہے، انہیں جلا بخشتا ہے مگر پھر انہیں منڈی میں پھینک کر بھول جاتا ہے کہ آگے ردی خریدنے والوں کی ایک لمبی قطار ہے جو پرانے، استعمال شدہ اوربوسیدہ مال کی تجارت کرتے ہیں۔اس مجموعے (ارمغان کاشمر) کے تمام شرکاء ”آفتاب“ کے ذریعہ ہی میدان ِادب میں داخل ہوئے تھے اور اگر ہماری بزم میں سے کسی نے نام بھی پیدا کیا تو تاریخ اس ادب ساز کو یاد کرے گی لیکن وہ بھی اپنے اور نوجوان ادباء کے درمیان ایک ”محترم فاصلہ“ رکھتے ہیں جو بعض اوقات ایک ایسی خلیج بن جاتا ہے کہ جسے پاٹنا بہت ہی مشکل ہوجاتا ہے“۔

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

دل کا دورہ

Next Post

کشمیر میں سردی کے زور میں بتدریج اضافہ، پہلگام سرد ترین جگہ

Online Editor

Online Editor

Related Posts

خالد

آخری ملاقات

2024-12-22
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
’’میر تقی میر‘‘ لہجے کے رنگ

میر تقی میر کی سوانح حیات ”ذکر میر“ کا فکری اور تاریخی جائزہ

2024-11-17
ونود کھنہ: پشاور سے بمبئی تک

ونود کھنہ: پشاور سے بمبئی تک

2024-11-17
کتاب کا جائزہ: شہلا رشید کی -رول ماڈلز

کتاب کا جائزہ: شہلا رشید کی -رول ماڈلز

2024-11-13
روشنیوں کا تہوار، اردو شاعری کی نظر میں

روشنیوں کا تہوار، اردو شاعری کی نظر میں

2024-11-03
ادبی چوریاں اور ادبی جعل سازیاں

ادب ، نقاد اور عہدِجنگ میں ادبی نقاد کا رول

2024-11-03
موبائل فون کا غلط استعمال !

موبائل فون!

2024-10-20
Next Post
کشمیر میں شبانہ درجہ حرارت مسلسل معمول سے زیادہ ریکارڈ

کشمیر میں سردی کے زور میں بتدریج اضافہ، پہلگام سرد ترین جگہ

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan