تحریر:انیسا گلزار وانی
اکیسویں صدی میں اردو فکشن نے نیا روپ دھار لیا ۔اس میں اردو ناول کی روایت میں کافی تیزی آئی ہے. ان دو دہائیوں میں مردوں کے مقابلے خواتین نے بھی ناول نگاری کی ترقی میں اہم رول ادا کیا ہے. بیسویں صدی کی ناول نگاری میں جو خواتین کی روایت تھی وہ اکیسویں صدی میں زیادہ تیز اور مستحکم نظر آتی ہے. یہ بات واضع رہے کہ نئی صدی کی ناول نگاری کو جن خواتین نے پروان چڑھایا ہے.ان میں نمرہ احمد، عمیرہ احمد، ثروت خان، ترنم ریاض، صادقہ نواب سحر، فرحت اشتیاق، شائستہ فاخری، خالدہ حسین، ثروت نزیر، آمنہ مفتی، اے_ار خاتون، ناصرہ شرما، افسانہ خاتون، ڈاکٹر رخسانہ تبسم، نسرین ترنم، نیلوفر، ماہدہ شفیق، نعیمہ احمد مہجور، وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں. نء صدی کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی ناول نگار "نمرہ احمد” ہیں.ان کی ادبی زندگی کا آغاز( 2007) میں ہوا. ان کا پہلا ناول "میرے خواب میرے جگنو” کے عنوان سے شائع ہوا، اور اسی ناول نے انہیں کافی شہرت بخشی. اس کے بعد سے لے کر اب تک ان کے کوئی سترہ (17)ناول شائع ہو چکے ہیں. جن میں "جنت کے پتے”، ” نمل”، "حالم”،” پہاڑی کا قیدی”، "قراقرم کا تاج محل”،” مہرالنسا” مصحف "، وغیرہ کافی مشہور ہوئے.
نمرہ احمد کے ناولوں کا موضوع قرآن و احادیث کے ارد گرد گھومتا ہے. وہ دین اور دنیا کے بہت قریب ہے. وہ قرآنی آیات کے ذریعے مسائل کے حل پر زور دیتی ہیں. ان کا اسلوب اتنا جاندار اور شاندار ہے کہ، ہر کوئی ان کی تحریروں کا دیوانہ بن جاتا ہے. حال ہی میں ان کا ایک اور بہترین ناول منظر عام پر آچکا ہیں. جس کا نام "مصحف” ہیں. یہ ناول( 432) صفحات پر مشتمل ہے. جو فن کی کسوٹی پر کھرا اترتا ہیں. جس میں دین اور دنیا کو ایک بہترین انداز میں چلانے کا فن سیکھایا گیا ہے. نء صدی میں اتنا طویل ناول لکھنا اور پھر قارئین سے پڑھانا کوئی معمولی بات نہیں. "مصحف” اکثر قارئین کا پسندیدہ ناول بن چکا ہیں.
جہاں ہر کوئی مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگ جانا چاہتا ہے، تو وہی نمرہ احمد کے ناول ہماری دینی تعلیمات عام کرنے اور آخرت کا سامان آسان کرنے میں ہماری مدد کرتے ہیں. مصحف ’’واحد ایک ایسا ناول ہے،جو بیسویں صدی میں انسان کی رہنمائی بھی کرتا ہے، اور اسے صراط مستقیم کی راہ پر گامزن کرتا ہے، یہ ناول (2013) میں منظر عام پر آگیا. جس نے لاکھوں بلکہ کروڑوں زندگیاں بدل کر رکھ دی. یہ ناول مذہبی پس منظر میں تخلیق کیا گیا ہے. اور یہ ایک پر تاثیر ناول ہے،جو پڑھنے والے پر بے حد اثر انداز ہوتا ہے. ناول میں ہمیں تجسس(suspense) بھی نظر آتا ہے. جو ناول کو اور بھی پر کشش بناتا ہیں.’’مصحف ” دراصل عربی زبان میں قرآن پاک کو کہا جاتا ہے. نمرہ احمد اس ناول کے بارے میں اپنے خیالات کحچھ اس طرح ظاہر کرتی ہیں کہ:
” مصحف "دراصل،” مصحف” کے ساتھ جڑنے والی دو لڑکیوں کی کہانی ہے، یہ سنگِ مر مر کے چمکتے برآمدے اور اونچے ستونوں والی مسجد کی کہانی ہے، یہ امانت اور رحم کے حق ادا کرنے والوں کی کہانی ہے، یہ صبر کرنے اور شکوہ نہ کرنے والوں کی کہانی ہے، یہ قسم پوری کرنے والوں کی کہانی ہے، اور یہ کہانی ہے خیانت کرنے والوں کی، علم پہ غرور کرنے والوں اور تقو’ی پہ ناز کرنے والوں کی.
یہ "محمل” اور "فرشتے” کی کہانی ہے….
اس ناول کی شروعات "محمل” نامی ایک لڑکی سے ہوتی ہے،جو یتیم ہوتی ہے، "محمل” کے والد کا انتقال بچپن میں ہی ہوگیا تھا، بالکل معصوم سی "محمل”… دراصل جب” محمل” کے والد آغا ابراہیم کا انتقال ہوا تھا، اس وقت "محمل” کے تین چحچا وہاں "محمل” اور ان کی ماں ’’مسرت” کی ڈھارس باندھنے کے لیے آگیے. لیکن وقت نے کروٹ بدلی. انہوں نے اپنے بال بچوں سمیت ’’محمل” کے گھر ایسا ڈھیرا جمایا کہ، پھر وہ وہاں سے نہیں نکلے. اور الٹا ان دونوں ماں بیٹی کے ساتھ ناگوار سلوک بھی کرتے رہے. اور مال اور جائیداد بھی اپنے نام کرلیں. دونوں ماں بیٹی کی زندگی اجیرن بن چکی تھی. آلام اور مصائب کی شکار دونوں ماں بیٹی زندگی کی جنگ لڑ رہے تھے. بیس سالہ "محمل” جب کالج جاتی تو اسے ہر روز ایک سیاہ فام لڑکی بس سٹاپ( bus stop) پر بیٹھی ہوئی ملتی، جس کے ہاتھ میں سیاہ جلد والی بھاری کتاب ہوتی تھی، اور جب "محمل” اسے کہتی کہ، یہ کتاب کس کی ہے؟ تو وہ کہتی کہ، میری…! اس میں میری زندگی کی کہانی ہے… اور پتہ ہے ’’محمل” اس میں تمہاری بھی کہانی ہے…. میری… کہانی.! تو "محمل” منہ کھولے اسے دیکھتی ہی رہتی تھی… اصل میں "محمل” یہ نہیں جانتی تھی کہ، یہ قرآن پاک ہے. اور اس میں بیشک سب کی کہانی موجود ہے. پرانوں کی بھی اور نئے لوگوں کی بھی. محمل ” بے خبر تھی، ان سب باتوں سے جو یہ سیاہ فام لڑکی اسے کہتی تھی، یہ دراصل ان سب باتوں کا مطلب نہیں سمجھ پا رہی تھی. اور وہ سیاہ فام لڑکی اسے یہ بھی کہتی تھی کہ، جب تم تھک ہار میرے پاس آوں گی، تو میں یہ کتاب تمہیں دوں گی. وہ یہ سن کر زیادہ ہی ٹھٹک کر رہ جاتی تھی. مگر آخر کار "محمل” نے اس لڑکی سے وہ بھاری جلد والی کتاب یعنی "مصحف” لے لیا.
"محمل "کی زندگی عجیب حالات میں گر گئی تھی، کالج سے آنے کے بعد وہ ماں کا ہاتھ بھی بٹا دیتی تھی، کیونکہ اس کی ماں اکیلی سارا کام کرتی تھی، بغیر کسی سے گلہ شکوہ کیے.” محمل ” کو اپنے مستقبل کی بہت فکر رہتی تھی. اس نے اسکالر شپ کے لیے اپلاء بھی کیا تھا،اور بہت جلد وہ آنے والی تھی، اس لیے سوچ رہی تھی وہ آماں کو لے کر انگلینڈ چلی جائے. کوئی دن تو آرام سے گزرے. اس سے ماں کی حالت اب دیکھی نہیں جاتی تھی. اس لئے اس نے گھر والوں کو بھی اسکالر شپ سے آگاہ کیا۔محمل ” کی زندگی میں ایک موڑ ایسا آتا ہے، جب اسے اپنا ہی چحچا زاد بھائی” فواد” ایک دھوکے کے تحت کوئی فیئل دستخت کروانے کے بہانے کسی اے_ایس پی ہمایوں داد کے یہاں بھیجتا ہے، جہاں وہ اس کے چنگل میں پڑ جاتی ہیں.
ناول میں (climax) تب آتا ہے، جب” محمل” اپنی ساری جائیداد اپنے والوں کو دے دیتی ہے، اور "فرشتے” کے کہنے پر وہ ہمایوں داوئود یعنی "فرشتے” کے خالہ زاد بھائی سے شادی کرتی ہیں. شادی کے بعد دونوں بہت خوش ہوتے ہیں،اور ان کا ایک بیٹا "تیمور ” بھی ہوتا ہیں. ناول میں جہاں مذہبی عناصر کا بے تحاشا استعمال ملتا ہے، تو وہی آزمائشوں کا بھی دور دیکھنے کو ملتا ہے، جب "محمل” کا (accident) ہو جاتا ہے، اور وہ سات سال،…. سات سال قوما میں چلی جاتی ہیں.
جب "محمل” سات سال کے بعد آنکھیں کھولتی ہے، تو وہ سب کچھ بدلا بدلا پاتی ہے، سب کچھ یہاں تک کہ، "ہمایوں "اس کا شوہر، اس
کا بیٹا” تیمور "اور سب سے زیادہ اس کی اپنی بہن” فرشتے ". سات سال کا عرصہ کافی ہوتا ہے ہر رشتہ کھونے کے لیے… جب” فرشتے ” اس سے مخاطب ہوئی تو اس نے چاہا کہ وہ آنکھیں پھر سے بند کر کے سوجایے. آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو رہا تھا،” محمل ” نے” مصحف” کی مدد سے اپنے بیٹے” تیمور ” کو بھی آپکے قریب تر کیا، مگر اپنی لاکھ کوششوں کے باوجود وہ ہمایوں کو اپنے قریب نہ لاسکی.” ہمایوں” اس سے بہت دور رہنے لگا تھا، چونکہ اب وہ معذور بھی ہو چکی تھی، اس لیے وہ سوچتی کہ ہمایوں اب اس کا کھبی بھی نہیں ہو سکے گا. ان سات سالوں میں دنیا کتنی بدل گئی تھی، اس کے گھر کا نقشہ، سب کچھ، یہاں تک کہ؛ انسان بھی. وہ خود سے سوچ رہی تھی… مگر ایک "مصحف” ہی تھا جو اسے سہارا دئیے ہوئے تھا. ایک دن "فواد” بھی اس کے گھر آیا اور اس کی جائیداد کا سارا حصہ اسے دے کر چلا گیا. اب وہ بالکل ہی بدل گیا تھا، وہ بھی خوش تھی کہ، اسے اپنی جائیداد واپس مل گئی ہے، آخر "مصحف” میں بھی لکھا ہے کہ، حق والے کے پاس ہم حق کو ضرور پہنچاتے ہیں… وہ خوش تھی.. بہت خوش.بیٹھے بیٹھے، "تیمور” نے اسے ایک دن بتایا کہ، مجھے "فرشتے” بالکل بھی اچھی نہیں لگتی،وہ ہوگی آپ کی بہن مگر مجھے وہ اچھی نہیں لگتی…. اور ماں آپ کو معلوم ہے.؟ یہ کہہ وہ ذرا دیر رک گیا… ڈیڈی نے آپ کو طلاق دے دیا ہے نا…. ماں.!؟… مجھے معلوم ہے سب. یہ کہہ کر اس کی آنکھیں بھر آئی. وہ کحچھ کہنا چاہ رہی تھی کہ، تیمور نے بات پھر سے شروع کردی…. ماں آپ کو معلوم ہے نہ کہ ڈیڈی! "فرشتے” سے شادی کر رہے ہیں. کیا مطلب تیمور…..؟ کیا کہہ رہے ہو تم.؟ فرشتے سے…. ساتوں آسمان اس کے سر پر گرے تھے….مگر اسے "تیمور” کی بات کا یقین نہیں تھا. کیونکہ وہ آخر بچہ ہی تھا…. اس نے صبح ’’فرشتے” سے جاننا چاہا تو اس نے ہاں کردی…اور ساری کہانی سنانے لگی.’’محمل”کا دل بھر آیا. آج وہ بے تحاشا رونا چاہتی تھی، اس کا دل بھر آیا…. آخر کار اس نے "مصحف” کو کھولا اور اس سے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کو کہا. اور اسے واقعی میں جواب مل گیا تھا. اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ "تیمور” کو لے جانے اپنے گھر چلی جائے گی، اور "فرشتے” سے مخاطب ہوئی کہ وہ ہمایوں سے نکاح کر لے. مگر "فرشتے” کو احساس ہوا کہ، اس نے امانت میں خیانت کی ہیں. اس نے احسانات کا بدلہ ریاکاری میں دیا ہے. وہ بے تحاشارونے لگی.. وہاں "ہمایوں” کو بھی احساس ہوا کہ، وہ بے وفا ہے، اس نے "محمل” کے ساتھ بے وفائی کی ہے. مگر آخر "محمل” فیصلہ کر چکی تھی….. اس کی زندگی کا فیصلہ…. "مصحف ". نے کر دیا تھا… … اس کا مصحف”….الغرض یہ ناول نئی نسل کے لئے مشعل راہ ثابت ہوسکتا ہے۔
