تحریر:سہیل سالمؔ
پروفیسر رحمان راہی کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے مجروح ریشدؔ لکھتے ہیں:مہجور ؔ آزادؔ اور دوسرے ترقی پسند شعرا نے اپنی خلاقانہ صلاحیتوں کی بدولت کشمیری شاعری کو خیال و خواب کی دنیاسے نکال کر اسے عملی زندگی کی پیچیدگیوں اور اس کی ٹھوس حقیقتوں سے روشناس کیا اور ایک نئے شعری محاورے کو رائج کیا۔کشمیری شاعری کے روایتی قاری کے لیے یہ ڈیکشن نہ صرف یہ کہ غیر مانوس تھا بلکہ اک نئی سوچ اور نئے تخیل کا غمار بھی۔رحمان راہیؔنے اسی تخلیقی فضا اور شاعرانہ ماحول میں اپنی شاعرانہ شخصیت کو جلا بخشی اور اپنا ایک الگ نام پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کی۔(ماہنامہ آج کل جولائی 2007۔ص۔7 ) کشمیری ربان و ادب کو بین الاقومی سطح پر روشناس کروانے اور اس کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کروانے میں جو تاریخی کر دار پروفیسر رحمان راہی نے ادا کیا ہے۔اسے کون فراموش کرسکتا ہے بلکہ رحمان راہی کا نام کشمیری زبان و ادب کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
مسکراتا حسین چہرا،لبوں پر رنگ گہرا۔سر پر لمبے لمبے بال ،ادیب بے مثال۔آنکھوںپر شیشوں کا پہرا،جن میں ہے راز گہرا۔دماغ تخلیقات کا کارخانہ،دل محبت کا انمول خزانہ۔زبان پرمیٹھے میٹھے بول،حسن و اخلاق میں انمول۔بین الاقوای شہرت یافتہ ادیب ،وادی بے نظیر میں تہذیب و ثقافت کا نقیب ۔مادری زبان کی محبت کا اسیر ،یہ ہے میری بستی کا عبدالرحمان میر۔ اصلی نام عبدالرحمان میر ہے اور رحمان راہیؔ کے قلمی نام سے جانے جاتے ہیں۔6مئی25 19 میںشہر خاص کے ایک اہم زرخیز علاقے وازہ پورہ میں تولد ہوئے۔اپنے ہی علاقے یعنی اسلامیہ ہائی اسکول راجوری کدل سے ِ میڑک کا امتحان پاس کر کرنے کے بعد گورنمنٹ ایس پی کالج میں داخلہ لیا ۔گورنمنٹ ایس پی کالج سے بی اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد 1948 میںمحکمہ پبلک ورکس میں بحثیت کلرک بھی کئی مہینوں تک کام کیا۔اس کے بعد پھراپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھتے ہوئے جموں و کشمیر یونیورسٹی سے 1952میں فارسی اور 1962 میں انگریزی میں ایم کیا۔رحمان راہیؔ نے صحافت کے میدان میں قدم رکھ کر ’’روزنامہ خدمت ‘‘ کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔ اردو ربان و ادب کے معتبر رسالے ’’آج کل ‘‘ کی مجلس ادرات کے ساتھ سات سال تک وابستہ رہے۔انجمن ترقی پسند مصنفین (کشمیر ) کے جنرل سیکریٹری بھی رہ چکے ہیں۔اس ا نجمن سے شائع ہونے والے مجلہ ’’کونگ پوش ‘‘کے مدیر کے فرائض بھی انجام دئیے ہیں۔اس کے بعد راہی صاحب نے درس وتدریس کا پیشہ اختیار کیا اور کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ کشمیری سے پروفیسر کی حیثیت سے1985 میںسبکدوش ہوئے ۔ راہی صاحب نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز نویں جماعت سے کیا چناچہ لکھتے ہیں:’’تب میں نویں جاعت میں زیر تعلیم تھا۔جاڑے کے دن تھے۔میں نور محمد کی دکان سے کتابیں کرایہ پر لے کر پڑھا کرتا تھا۔ایک دن نور محمد نے ایک کتاب ے پہ مجھ سے سنجیدہ بات چیت کی۔اچانک ان کی نیلی آنکھوں میں لہراتی ہوئی چنگاروں نے میرے نا آشنا ڈھانچے پہ سحر ساکر دیا۔یہ لمحہ بڑا جادونی تھاجس نے میرے وجود کی کایا پلٹ دی۔انہوں نے غیر شعوری طور مجھے کتابوں کا ایک زبردست عاشق بنا دیا۔(شیرازہ شخصیت نمبر۔ص۔73 )راہی صاحب کا ابتدائی کلام ایس پی کالج کے میگزین’’پرتاپ ‘‘ میں شائع ہوا۔اس کے بعد ان کی شاعری کشمیرکے مختلف جرائد و اخبارات میں چھپنے لگیں جن میں آزاد، تعمیر،ہمارا ادب،شیرازہ،آلو،گاش،نیرپوش ،نیب ،نہج ،آش اور سنگر مال قابل ذکر ہیں۔راہی دبستان کشمیر کے عظیم اور معروف شاعرکی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔راہی صاحب کی اب تک ایک درجن کے قریب تصانیف منصہہ شہود پر آگئی ہیں ۔جن کے عنوانات کچھ اس طرح سے ہیں: سنہ ونی ساز ،صبحک سودا ،کلام راہی ،نوروز صبا ،سیاہ روداجارین منز،شہ رگ ویتھ ،لول یلی موتاس پھور ،کہہ وٹ ،شاعر شناس اور کدلہ ٹھٹس پیٹھ وغیرہ ہیں۔ حمان راہیؔ ؔنے اپنے گردونواح کو شاہین کی نظر سے دیکھا ہے۔انھوں نے اپنی شاعری کے لئے ایسے نادر استعارے تراش لیے جن کا انھیں فہم و ادراک حاصل تھا۔ رحمان راہی نے خواب و خیال کی باتیں یا پھر فکر فلسفے سے لبریز بوجھل مسائل کی طرف زیادہ دھیان نہیں دیا بلکہ نئے موسموںکی کہانی کو ایک ایک مصرع میں قید کر کے رکھا ہے چونکہ ان کے پاس موسموں کے مختلف تحربات اور مشاہدات کی کمی نہیں ہے۔کشمیر کی رعنائی اور اس کے تہذیبی پس منظر میں انھوں نے نظمیں لکھی ۔ایک شاعر ان موضوعات ومسائل پرتبھی اپنے قلم کو جنبش دیتا ہے یا کسی مخصوص علاقے کی تہذیب وثقافت،روایات،تاریح اور طرز زندگی پر خامہ فرسائی کرتا ہے جب کہ وہ خود اس ماحول کی نسوں میں اتر چکا ہو ہویا وہ تہذیب و ثقافت کی رنگ رلیاں اس نے خو د اپنی آنکھوں سے دیکھے ہو۔اور پھر رحمان راہی کی فکر کا تعلق ہوتو وہ ہمیشہ ادب برائے ادب نہ ہو کر ادب برائے زندگی پر یقین رکھتے تھے۔؎
میں نے آنگن کو غور سے دیکھا
پیڑ سب کے سب
ایک دوسرے کے دامن میں دبک گئے تھے
سوائے ایک کے ،جو مسجد کے روشن بلب تلے
سیکڑوں ہاتھ آسماں کی اور اٹھائے
پتھرا گیا تھا
میں ایک بار پھر اچھل کے گرا
ایسے کہ میٹرس کے نیچے
بچھی چٹائی کی رسیاں بدن میں چبھ گئیں
بیوی کو دیکھا سوئی پڑی تھی
کانٹے دار جھاڑی پر برف
بقول برج ناتھ واتل بیتاب:’’رحمان راہی ہمارے دور کے شاعر ہیں جہاں سڑکوں پر خون کی موجیں ہیں اوور ہم انہیں پانی پانی لکھ کر انسانی تہذیب کو پانی پانی نہیں کرسکتے ہیں۔ایسے حالات میں راہی صاحب کا قلم وسیع تر انسانی سروکاروں کو تمام تر انسانی دردمندی کے ساتھ بیان کرتا رہا۔((ماہنامہ آج کل جولائی 2007۔ص10 )
رحمان راہی کی شاعری میں فکر واحساس کا دریا اپنی دھرتی کی اعلی تمدنی ،تہذیبی اور علمی روایات کے ساتھ بہتا رہتا ہے ۔رحمان راہی ایک صاحب اسلوب شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک محب وطن بھی ہیں۔انہوں نے کشمیرکے چشموں،آبشاروں،لالہ زاروں، کہساروں،سر سبز وشاداب کھیتوں،زعفران زاروں کے نقوش بڑی فنکانہ مہارت سے علامتوں کے طور پر اپنی نظموں میں استعمال کیا اور انہیں مقامی سرحد سے نکال کر سے آفاقیت بخش دی ہے اور یہی خصو صیت ان کی شاعری کو ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ کشمیر کی یخ بستہ فضاء ان کے تشبیہات اور استعاروں سے ابھر کرسامنے آتی ہے۔یہ یخ بستہ فضائیں اپنے اندر ایک طرح کا جوش اور بدلائو کا عنصر لئے ہوئے ہیں۔رحمان راہیؔکی نظموں میں جوا ستعارے اور تشبیہات استعمال ہوئے ہیں وہ مقامی صورت حال اور یہاں کی تمدنی روایت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں اسی تاریخی اور تہذیبی اقدار کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بقول راہیؔ ؎
نیچے سڑک پر جب بھی کوئی سایہ گزرا
جی میں آیا اس پوچھوں
کدھر کا ارادہ ہے ؟
کیا ہو جو مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو
ادھر کہرا تھا
اور چپ
اور ٹھنڈ
میں پھر کچن کے کونے میں دبک بیٹھا
رحمان راہیؔ کا شعری سرمایہ اس بات کی گواہی دیتاہے کہ شاعر کا تعلق کشمیر اور کشمیری زبان کے حوالے سے گل سرسبد جیسا ہے۔ان کی غزلیں اور نظمیںپرّ کشش ہونے کے ساتھ ساتھ محسورکن بھی ہے۔ان کے کلام سے قارئین کے قلب وذہن پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے جس کے سبب پڑھنے والا ایک نئی دنیا کی سیر کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ درد وغم کی تمام صورتیں اس کے سامنے رقص کرنے لگتی
ہیں۔الغرض ’’ سیاہ موسیلا دھار بارش‘‘ میں اپنا شعری سفر کرنے والا گیان پیٹھ انعام یافتہ شاعر،استاد ،ناقد،زبان شناس اورمترجم پروفیسر رحمان راہی ؔزندگی کی خار دار راہوں کا سفر طے کر ایک اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے بعد 09 جنوری 2023 کو اصلی سفر پر روانہ ہوئے جس کی طرف انھوں نے خوداشارہ کیا ہے ؎
بہت آگے مگر ہم جیسے کم دیدور آئے
ہماری طرح جو ان کے لب ورخ تک گرز آئے
نہ جانے کس قدر راہوں کے پیچ و خم سے گرزے
کہیں پھر جا کے راہیؔ ہم کو آداب سفر آئے ہیں
