از:فاروق فدا
۹ جنوری کو گیان پیٹھ ایواڈ یا فتہ شاعر نقاد اور ادیب پروفیسر رحمان راہی ؔکے انتقال کے ساتھ ہی ایک ایسا دور اپنے اختتام کو پہنچ گیا جو کشمیری زبان و ادب کے لحاظ سے نہایت بختاوری کا دور رہا ہے۔ راہی صاحب گرچہ زندگی کی کئی بہاریں دیکھ کر اب گھر تک ہی محدود تھے لیکن ان کے بغیر آج بھی ادبی محفلیںادھوری لگتی تھیں۔
۱۹۲۵ میں سرینگر کے ڈاون ٹاون علاقے میں جنم لینے والے راہی ؔنے کشمیر میں ڈوگرہ راج ، آزادی کی جدوجہد ، ہندوستان کا بٹوارہ، کشمیر میں شخصی راج کا خاتمہ ، ’’نیا کشمیرــ‘‘ کا نعرہ اور پھر ملی ٹینسی کی تین دہائیوں کا از خود مشاہدہ کیا ۔ اس دوران ان کا ادبی سفر مختلف مراحل سے گذرتے ہوئے اس مقام تک پہنچ گیا جہاں ان کو ہندوستان سب سے بڑا ادبی اعزاز ’’ گیان پیٹھ‘‘ عطا کیا گیا۔
رحمان راہی ؔنے ابتدائی تعلیم مقامی سکول میں حاصل کی ۔بعد میں انہوں نے فارسی ،اردو اور انگریزی زبانوں میںایم اے کیا ۔ ابتدائی طور ۱۹۴۷ میں پی ڈبلیو ڈی میں ایک کلرک کی حیثیت سے کام کیا جہاں ۳۵ روپے کی قلیل ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔ اس کے بعد اسلامیہ ہائی سکول میں بطور ٹیچر کام کیا۔ بعد میں کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ فارسی میں لیکچرر بنے۔ ۱۹۷۷ میں کشمیر یونیورسٹی میں کشمیری شعبہ قائم ہونے کے بعد بحثیت ریڈر کام کیا اور پھر ترقی پاکر پروفیسر کے عہدے سے ۱۹۸۴ء سبکدوش ہوگئے۔
کشمیری زبان و ادب کی بکھری زلفیں سنوارنے میں راہیؔ کا سب سے بڑا رول ہے اور ہر لحاظ سے منفرد ہے۔ بیسویں صدی کا آغاز عالمی سطح پر بڑی تبدیلیوں کے ساتھ شروع ہوا ، ادبی سطح پر یورپ سری اور روائتی رمانوی رحجانات کو چھوڑ کر اب ترقی پسندی اور حقیقت پسندی کے میدانوں کی سیر کو نکل گیا۔ ہندوستان میں سامراجی اور جاگیرداری نظام اس کے اداروں کے خلاف بغاوت کا جذبہ گرچہ انیسویں صدی کے چھٹے عشرے سے شروع ہوکر بیسویں صدی کی پہلی دو دہاہیوں ہنددوستان کی بڑی زبانوں میں ایک نئی ادبی تحریک بن کر ابھرا ۔ کشمیری زبان وادب میں پیرزادہ غلام احمد مہجو ر ، عبدالاحد آزاد ،دینا ناتھ نادم اور دوسرے کئی شعراء نے ترقی پسند تحریک سے متا ثر ہوکر بغاوت اور عوامی جوشہ جذبہ کو اپنی شاعری کا ایک مستقل موضوع بنایا ۔ رحمان راہی ؔ نے اس نئی تبدیلی کو اپنی شاعری کا موضوع بنانے میں ایک منفرد انداز اختیار کیا ۔ اس کے بعد ان کی شاعری نے ایک الگ رنگ لیا ۔ انہوں نے اپنے زمان ومکان میں اپنے ذاتی تجربات ، مشاہدات اور احساسات کو نئی زبان ، نیا لب و لہجہ ، نئی ہیت دے کر اعلیٰ شاعری کے لعل وگوہر بکھیر دئیے۔ ان کا ادبی سفر شاعرانہ سطح پر نہایت پر اثر رہا۔
وہ جب بھی کسی مجلس یا تقریب میں گفتگوفرماتے، لگتا تھا کہ یہ ایک فرد نہیں ایک زندہ قوم کی زندہ زبان اپنی تمام تر تہذیبی، تمدنی ،ثقافتی ،سماجی روایات کو فکرو نظر کی نئی وسعتوں کے ساتھ خود کو پیش کررہی ہے۔ انہوں نے نئے استعارات اور علامات کو اپنے شاعر انہ تجربے کی بھٹی میں پختہ بنا کر کشمیری زبان کو ایک مضبوط اور اہم شعری محاورہ فراہم کیا۔
راہیؔ کی شعری تخلیقات کا بیشتر حصہ نظم کی صورت میں سامنے آیا۔ وہ کشمیری زبان میں جدید شاعری کے سرخیل رہے ۔ انہوں نے قافیہ بند، بے قافیہ ، پابند، اور کہیں کہیں روائتی عروض سے انحراف کرکے نظمیں لکھیں ۔ وہ شاعری کے لئے زبان کی کھوج میں نکل کر الفاظ کے ایسے لعل وگوہر ڈھونڈ کر لاتے ہیں گویا ایک ڈرامائی کیفیت آنکھوں کے سامنے رقصاں ہوجاتی ہے ۔کشمیری نظم کو بام عروج پر لانے کا سہرا صرف اور صرف راہی ؔ کے سر جاتا ہے۔ غزل میں بھی ان کا لب و لہجہ روایت سے ہٹ کر نئے موضوعات کو بیان کرنے میں منفرد اور اعلیٰ ہے ۔ یہاں بھی زبان کی ندرت اپنے کمال فن میں نظر آرہی ہے۔
راہی نے تنقید میں کئی غلط فہمیوں کا ازالہ کرکے گویا تنقید کی نئی راہیں کھول دیں۔ ـــ اس لحاظ سے ان کی مشہور تنقیدی کتاب ’’ کہوٹ‘‘ کئی لحاظ سے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ ’’شعر شناسی ‘‘ میں صوفی شعراء کے کلام کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ۔ رحمان راہی ؔکے درجنوں مقالات کشمیری زبان وادب کے شہہ پارے تخلیق ہوئے ہیں
’’نور روزصبا،‘‘ ’’ سیاہ رود جرین منز ‘‘ ان کے اہم شعری مجموعے ہیں ۔ اس کے علاوہ ’’ عروض تہ کاشرہ وزنک صورتحال ‘‘ نام کی کتاب میں کچھ اہم عروضی مباحث چھیڑ کر ایک اہم موضوع پر بات کی ہے۔
رحمان راہی کو کئی ایک ریاستی اور قومی سطح کے اعزازت سے نوازا گیا۔ جن میں ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ، پدم شری ، ایمیرئٹس ایواڈ اورملک کا سب سے بڑا قومی ادبی اعزاز گیان پیٹھ شامل ہیں ۔
رحمان راہی ؔ کا ادبی قد اتنا قد اتنا اونچا ہے کہ ان کو الفاظ کے سانچے میں ڈالنا نا ممکن ہے۔ ان کے انتقال سے لگ بھگ اصدی پر محیط ایک ایسا دور اپنے اختتام کو پہنچا جو کشمیری زبان وادب اور شاعری میں صرف اور صرف راہی کا دورمانا جائے گا۔ رحمان راہیؔ آج ہمارے درمیان موجو د نہیں لیکن ان کا ادبی سرمایہ آنی والی نسلوں کے لئے فکرو نظر کی بلندیاں اور شعور کی نئی وسعتیں فراہم کرتا رہے گا۔اللہ مغفرت فرمائے۔ عجب مرد قلندر تھا۔
