تحریر:فاضل شفیع فاضل
وسیم اپنی چار بہنوں میں اکلوتا بیٹا تھا جس کو گھر میں بہت پیار ملتا ہے۔ اس لاڈ پیار کی وجہ بس اتنی سی تھی کہ وہ چار بہنوں میں اکلوتا بیٹا تھا۔ یعنی جس معاشرے میں لڑکی کی پیدائش کو منحوس سمجھا جاتا ہے اور لڑکے کی پیدائش پر خوب خوشی منائی جاتی ہے۔ وسیم کی پیدائش ایک اسپتال میں ہوئی۔ وسیم پیدا ہوا تو گھر میں خوشی کا ماحول تھا۔ وسیم کا والد علی محمد ایک سرکاری نوکر تھا اور اس کی ماں حلیمہ گھر کا کام کاج دیکھتی تھی۔ وسیم کی پیدائش سے پہلے اس کی چار بیٹیاں ہوئیں جن میں عارفہ سب سے بڑی، ذہین اور دیندار لڑکی تھی۔ وسیم کی پیدائش سے گویا گھر میں ایک الگ سی خوشی طاری ہوئی۔ بہنوں کو بھائی اور علی محمد اور حلیمہ کو بڑھاپے کا سہارا ملا۔ اب علی بے فکر ہو گیا اور اللہ تعالی کی ذات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دو رکعت نفل نماز ادا کی اور ساتھ میں ہی ایک آستانہ عالیہ میں گیارہ سو روپے نذرانے کے طور پر ادا کیے جو کہ اس نے وسیم کی پیدائش سے پہلے نیت کی تھی۔
وسیم نے جب آنکھ کھولی تو سماج میں موبائل فون اور سوشل میڈیا نے اپنی جگہ بنانی شروع کی تھی یعنی وادی گل افروز میں اس کی ارتقا کا زمانہ کہا جاسکتا ہے۔ وسیم نے اب کھیلنے کے لئے کھلونوں کے بجاۓ موبائل فون پسند کیا اور دن رات اسی موبائل فون میں صرف کرنا، نہ کھانے کی فکر،نہ دودھ پینے کی اور ہاں حلیمہ بھی گھر کے کام کاج میں مصروفیت کی وجہ سے وسیم کے ہاتھ موبائل فون تھما دیتی تھی اور علی کو بھی بڑا فخر محسوس ہوتا کہ اس کا ننھا سا بیٹا موبائل فون چلانا جانتا ہے۔ عارفہ کو اس بات سے سخت نفرت تھی پر بھلا اس کی بات کون سنتا! الٹا علی اس کو ڈانٹا تھا۔
وقت گزرتا گیا اور وسیم جوانی کی آغوش میں چلتا بنا۔ اس کے اچھے دوستوں می موبائل فون اور پڑوس میں رہنے والی پنکی تھی۔ دونوں کی خوب بنتی تھی۔ دونوں ایک ساتھ اسکول جاتے اور اس طرح ان کی دوستی گہری ہوتی گئی۔ دونوں میں ایک چیز مشترکہ تھی اور وہ تھا موبائل فون سے پیار۔ دن رات موبائل پر گیم کھیلنا اور طرح طرح کی فلمیں دیکھنا ان کی عادت بن چکی تھی۔ وسیم اب اپنے والد سے روزانہ پیسے مانگنے لگا اور علی بھی بنا کسی روک ٹوک کے وسیم کو پیسے دیتا رہا اور کبھی یہ پوچھنے کی زحمت تک نہ کی کہ بھلا وہ ان پیسوں کا کرتا کیا ہے؟
ادھر پنکی اپنے گھر والوں سے پیسے مانگنے لگی اور پنکی کی ماں نوشادہ اپنی بیٹی کو روزانہ پیسے فراہم کرنے لگی۔ کبھی کسی نے نہ وسیم سے اور نہ ہی پنکی سے پوچھنے کی زحمت کی کہ آخر وہ یہ پیسے کہاں خرچ کر رہے ہیں۔ وسیم اور پنکی کی دوستی پیار میں بدل چکی تھی اور یہ بات نوشادہ کو تب پتا چلی جب اس نے اپنی ہی گھر کے کمرے میں وسیم اور پنکی کو باتیں کرتے ہوئے پکڑا اور جب نوشادہ نے باریکی سے کمرے کا جائزہ لیا تو وہاں نشیلی ادویات کے ساتھ ساتھ شراب کی بوتلیں بھی ملی۔ نوشادہ پر قیامت ٹوٹ پڑی اور وہ غش کھا کر بے ہوش ہو گئی۔
ادھر پنکی اور وسیم نشے کی حالت میں دھت مزے لیتے ہوئے کمرہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں گویا نشہ ان کی اب نہ چھوٹنے والی عادت بن چکی تھی۔ ادھر علی گھر سے صبح نکلتا ہے کہ اچانک ایک حادثے میں بری طرح زخمی ہو جاتا ہے۔ بچنے کی امید کم ہے اور علی ہسپتال میں اپنی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ وسیم کو اس بات کی اطلاع ہوئی توٹس سے مس نہ ہوا۔ اگلے دن وسیم ہسپتال پہنچتا ہے اور اپنے زخمی باپ سے پیسے طلب کرتا ہے حال چال پوچھنا تو دور کی بات تھی۔ جب اس کی بڑی بہن نے ٹوکا تو وسیم نے ایک زور دار تھپڑ عارفہ کے گال پر رسید کیا۔ ہسپتال میں تماشا کھڑا ہوا۔۔۔(جاری)
