تحریر:رئیس احمد کمار
زندہ روزنہ باپتھ چھی مران لوکھ ژہ مرکھ نا،
لوتی پاٹھی چیکھا پیالہ کہو اُف تی کرکھ نا۔
ممتاز شاعر، نغمہ نگار، نقاد، ماہر تعلیم، مترجم اور نامور ادیب پروفیسر رحمان راہی چند روز قبل 98 سال کی عمر میں مختصر علالت کے بعد ان کی ویچر ناگ سری نگر میں واقع رہائش گاہ پر انتقال کر گئے۔ راہی صاحب کا جانا کشمیری زبان و ادب کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔ پروفیسر رحمان راہی اپنی شاعری میں حقیقی معنوں میں تجربہ کار اور آلہ کار تھے۔ اگر ہم انہیں کشمیری شاعری کا غالب کہیں گے تو میرے خیال میں اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے بلکہ وہ اس لقب کے بالکل مستحق ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں انسانیت کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کیاہے ۔ پروفیسر راہی ان سینکڑوں ادبی کارکنوں کے لیے تحریک اور مشعل راہ تھے جو کشمیری ادب اور زبان کے فروغ اور ترقی کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں ایک منفرد اسلوب تھا اور یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں ادیب اس کی تقلید پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ یہ کشمیری ادب کی عمارت کا واقعی بہت بڑا نقصان ہے۔ پروفیسر رحمان راہی کا انتقال واقعی ادب کے ایک دور کا خاتمہ ہے، ایک بڑے ثقافت دان اور سب سے بڑھ کر ایک ہمی جہت شخصیت کا انتقال ہے۔ پروفیسر راہی نے جو منفرد اسلوب کا استعمال اپنی تخلیقات میں کیا اور اپنے خیالات کے اظہار کے لیے جو اپنے محاورے تخلیق کیے تھے، اس وجہ سے وہ اپنے ہم عصروں سے ایک الگ مقام رکھتے تھے۔ کشمیری ثقافت، زبان اور ادب کے فروغ کے حوالے سے ان کا ایک منفرد اور مخصوص انداز تھا۔ ان کی فنی صلاحیتوں اور کمالات نے کشمیری زبان و ادب کی شاعری کی دنیا کو وسیع کر دیا ہے۔ پروفیسر راہی نہ صرف وادی بلکہ پورے برصغیر کے بلند پایہ شاعر تھے۔ وہ عظیم ہندوستانی ہم عصروں میں سے تھے اور کشمیری ادب کے ایک آفتاب تھے۔ کشمیری زبان و ادب کو قومی سطح پر عزت دینے کا سہرا بھی مرحوم راہی کو ہی جاتا ہے ۔ انہوں نے کشمیری ادب اور زبان کی ترقی اور ترویج کے لیے بے مثال خدمات انجام دیں۔ ان کا انتقال کشمیریوں کے لیے ایک المیہ سے کم نہیں ہے کیونکہ وہ ہمارا فخر تھے۔ ہم ان کے بہت مقروض ہیں۔ راہی ترقی پسند ذہنیت کے حامل ایک مشہور ادیب تھے جیسا کہ راہی کے ان اشعار سے سمجھا جا سکتا ہے۔
زمانس چھ کم کم صبح شام ہاون،
چھ وینہ زندگی کیتھ رنگ آزماون۔
پروفیسر رحمان راہی ایک زندہ دل شاعر تھے جن کی شاعری اور دیگر میٹھی غزلیں ہماری ثقافت، روایت اور اخلاقیات کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان کے گیت اور بول مشہور گلوکاروں نے گائے ہیں۔ راجہ بیگم، راجہ بلال اور وجے کمار ملہ نے اپنی غیر معمولی اور سریلی آوازوں کے ذریعے ان کے کاموں کو مزید نکھار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رحمان راہی کے گانے ہماری خواتین شادیوں، دھان کی کاشت اور فصل کی کٹائی کے وقت گاتے ہیں۔ رحمان راہی سے پہلے کشمیری ادب میں رومانیت، لوک داستانوں اور تصوف کی عکاسی ملتی تھی لیکن راہی کی کاوشوں اور شاعرانہ افق پر ابھرنے سے کشمیری ادب کا دائرہ مزید بڑھ گیا اور وسیع تبدیلی لا کر رحمان راہی نے کشمیری ادب کو باقی دنیا میں ایک پہنچان بنانے میں ایک اہم رول ادا کیا۔
دل چھو پرانن کتھن سنان بازے،
سینہ منز نارہ کول اناں بازے ۔
وہ 20ویں صدی کے ایک عظیم اور ترقی پسند شاعر ہیں۔ 1925 میں سرینگر میں پیدا ہونے والے پروفیسر رحمن راہی نے اپنی تعلیم اسلامیہ ہائی اسکول سرینگر سے حاصل کی۔ انہوں نے اپنی پہلی پوسٹ گریجویشن فارسی میں مکمل کی اور ایک دہائی بعد جموں کشمیر یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایک اور پی جی کیا۔ ان کی تقرری پہلے محکمہ پی ڈی ڈی میں کلرک کے طور پر ہوئی اور پھر ایک کالج میں لیکچرر تعینات ہوئے۔ کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ فارسی میں پڑھاتے رہے۔ ان کی متحرک قیادت اور رہنمائی میں ہی کشمیر یونیورسٹی میں کشمیری کا ایک مکمل شعبہ 1977 میں قائم کیا گیا۔ پہلے وہاں سے ایک ڈپلومہ کورس ہی کرایا جاتا تھا لیکن بعد میں اس شعبہ نے اس حد تک ترقی کی کہ کشمیری میں پوسٹ گریجویٹ کورس بھی متعارف کرایا گیا اور طلبہ جوک در جوک شعبہ میں تعلیم کی غرض سے داخل ہونے لگے ۔ راہی نے کشمیر یونیورسٹی میں کشمیری کا شعبہ ایک ایسے غریب شخص کی طرح قائم کیا جو مختلف مقامات سے بھیک کے ذریعے جمع کیے گئے سامان سے اپنی رہائش گاہ بناتا ہے۔ مرحوم راہی نے اپنی ریٹائرمنٹ 1983 تک شعبہ کشمیری میں اپنی خدمات انجام دیں۔ رحمان راہی کو وادی کے تمام اسکولوں اور کالجوں میں پرائمری سے یونیورسٹی کی سطح تک کشمیری کو ایک مکمل لازمی مضمون کے طور پر متعارف کرانے کے لیے ان کی بہادرانہ کوششوں کے لیے بھی یاد رکھا جائے گا۔ کشمیری زبان کے فروغ کے لیے ان کی خدمات ان لوگوں کے لیے چشم کشا ہیں جو مادری زبان کے فروغ کی راہ میں غیر ضروری رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ انگریزی، فارسی اور اردو پر عبور رکھتے تھے لیکن انہوں نے اپنی مادری زبان کشمیری کو اپنے خیالات اور رائے کے اظہار کا ذریعہ منتخب کیا۔
بلبلن وون گلس حسن چھوی پور
کہیا ونیہ زیو چھیے نہ یہ چھوی قصور
رحمان راہی بچپن سے ہی شاعری کی طرف راغب تھے اسی لیے وہ عالمی شاعر کے مقام پر فائز ہوئے اور درجنوں کتابیں تصنیف کیں۔ ہماری دھرتی کے اس عظیم فرزند کو ان کے مثالی کاموں پر متعدد انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا۔ انہیں 1961 میں ان کے شعری مجموعہ "نوروز صبا” کے لیے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ انہیں 2000 میں پدم شری اور 2007 میں ان کے شعری مجموعے "سیاہ رود جیرن منز” کے لیے ملک کے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ گیان پیٹھ سے نوازا گیا۔ درحقیقت وہ کشمیر سے یہ سب سے بڑا ادبی ایوارڈ حاصل کرنے والے واحد شخص ہیں۔ رحمان راہی کے پاس الفاظ کا زخیرہ اور خزانہ موجود تھا اور وہ ان کا مناسب وقت اور جگہ پر استعمال کرنا بخوبی جانتے تھے۔ جس کا اندازہ ان کے اس شعر سے کیا جا سکتا ہے ۔
سو گلاب روئے ڑیونٹھم بیہ از گلاب چھاوان،
مے چھی ونی مسالہ منز رمبہ ون خیال راوان۔
پروفیسر رحمن راہی اب ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کی میراث زندہ رہے گی کیونکہ یہ شاعری اور ادبی میدان میں اپنی قسمت آزمانے والی آنے والی نسلوں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرتی رہے گی۔ اللہ رحمان راہی صاحب کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین ۔۔۔۔
