• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
ہفتہ, مئی ۱۰, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم ادب نامہ

 تغافل کیوں؟؟

Online Editor by Online Editor
2023-01-28
in ادب نامہ
A A
FacebookTwitterWhatsappEmail
تحریر:سیدہ عطیہ تبسم
جب لفظ "تغافل” پڑھا جاتا ہے، لکھا جاتا ہے یا سنا جاتا ہے تو لا شعوری طور پر ہمارے جزبات اور احساسات ذرا سے مدحوش ہو جاتے ہیں ۔ خیالات میں ایک نشا سا چھانے لگتا ہے ۔ دل ذرا سا نرم پڑ جاتا ہے۔ تغافل کے ہم معنی کٸ الفاظ ہیں جیسے بے خبری، کم توجہی یا پھر انگریزی کے کچھ دلکش الفاز جیسے Negligence ، hesitation، carelessness وغیرہ ۔  ماناکہ لغت کے اعتبار اس احساس کو کٸ الفاظ ادا کر سکتے ہیں ۔ مگر جو جزبہ چاشنی، گہراٸ، اور تھرل (thrill) اس لفظ میں ہے وہ کسی دسرے میں نہیں ہے۔
جب شاعر کو محبوب کی غفلت شعاری کو حسین تر بنانا تھا تو یوں کہ دیا :
"کبھی یک بہ یک توجہ کبھی دم بہ دم تغافل
مجھے آزما رہا ہے کوٸ رنگ بدل بدل کر”
مانا کہ محبت کی بنیاد توجہ اور پرواہ پر ہے مگر تغافل شاید وہ کڑی ہے جس کے بغیر "محبت” سے "عشق” تک کا سفر محال ہے ۔ آپ کو یہ جان کر حیرانگی ہو گی کہ "تغافل” کو "توجہ” سے عشق کی داستانوں میں اولین درجہ حاصل ہے۔ چونکہ ہر احساس کی قدروقیمت کا اندازہ اس کے متضاد احساس کو محسوس کر کے لگایا جاتا  ہے۔ تغافل نہ ہوتا تو توجہ کی کوٸ وقعت نہیں ہوتی۔
مجھے لگتا ہے اس تغافل کو ایک فن کی حیثیت سے دیکھنا زیادہ بہتر ہے۔ بس اس فن کی دلکشی کچھ اصول و ضوابط میں پنہا ہے۔تغافل اگر انا اور خودپرستی سے لبریز ہو تو اس سے بدبو آنے لگتی ہے ۔ جب یہی تغافل عاجزی کی چاشنی میں ڈبویا ہوا ہو تو اس سے خوشبودار کوٸ دوسرا احساس نہیں ہے ۔ شاعر نے اسی دلکش فن کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے
"عداوتیں تھی، تغافل تھا، رنجشیں تھی مگر
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا بے وفاٸ نہ تھی”
شاید تغافل کو انا سے منسلک کر کے بے وفاٸ کو رنگ دینا اس احساس اور فن دونوں کے ساتھ زیادتی ہے ۔ ہمیں جج بن کر فیصلہ سنانے سے پہلے یہ جاننا چاہۓ کہ ہر بار تغافل کرنے والا بے وفا اور تغافل سہنے والا بے وفا نہیں ہوتا ہے ۔عاشق ہو یا معشوق، محبوب ہو یا رقیب ہر شخص اور رشتے کی چہل پہل اور دلکشی فنِ تغافل میں پنہا ہے۔

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

معیاری تعلیم کو فروغ دیں

Next Post

  آہ! پروفیسر عبدالغنی ازہری:  شہر میں اِک چراغ تھا نہ رہا

Online Editor

Online Editor

Related Posts

خالد

آخری ملاقات

2024-12-22
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
’’میر تقی میر‘‘ لہجے کے رنگ

میر تقی میر کی سوانح حیات ”ذکر میر“ کا فکری اور تاریخی جائزہ

2024-11-17
ونود کھنہ: پشاور سے بمبئی تک

ونود کھنہ: پشاور سے بمبئی تک

2024-11-17
کتاب کا جائزہ: شہلا رشید کی -رول ماڈلز

کتاب کا جائزہ: شہلا رشید کی -رول ماڈلز

2024-11-13
روشنیوں کا تہوار، اردو شاعری کی نظر میں

روشنیوں کا تہوار، اردو شاعری کی نظر میں

2024-11-03
ادبی چوریاں اور ادبی جعل سازیاں

ادب ، نقاد اور عہدِجنگ میں ادبی نقاد کا رول

2024-11-03
موبائل فون کا غلط استعمال !

موبائل فون!

2024-10-20
Next Post

  آہ! پروفیسر عبدالغنی ازہری:  شہر میں اِک چراغ تھا نہ رہا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan