
گزشتہ دنوں جموں و کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی طرف سے دسویں، گیارہویں اور بارہویں جماعتوں کے لیے امتحانات کے ڑیٹ شیٹ ظاہر کیے گیے ۔ غالبا” ایسا وادی میں پہلی بار دیکھنے کو مل رہا ہے جب یہ امتحانات مارچ اور اپریل مہینوں میں منعقد کیے جارہے ہیں ۔ اس سے پہلے یہ امتحانات اکتوبر اور نومبر مہینوں میں لیے جارہے تھے اور ان کے نتائج جنوری یا فروری مہینوں میں ظاہر کیے جاتے تھے ۔ اس طرح مارچ میں جب تعلیمی ادارے سرمائی تعطلات کے بعد پھر سے کھل جاتے تھے تو طلبہ و طالبات بہار آنے کے ساتھ ہی اپنا تعلیمی سفر نئی امیدوں اور امنگوں کے ساتھ جاری و ساری رکھتے تھے ۔ لیکن یہ وادی کشمیر کے تعلیمی منظرنامہ میں ایک تاریخ ہی رقم ہورہی ہے جب روایات سے برعکس بچوں کے امتحانات اکتوبر نومبر مہینوں کے بجائے مارچ اور اپریل مہینوں میں لیے جارہے ہیں ۔ خیر خزان کے بجائے اگر یہ امتحانات اس سال بہار میں ہی منعقد ہورہے ہیں تو بچوں کو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑنے والا ہے ۔ امتحانات منعقد ہونگے، نتائج ظاہر ہونگے اور نیا تعلیمی سیشن پھر سے شروع ہوگا ہی ہوگا ۔ بات تھی ڑیٹ شیٹ کی ۔۔۔۔۔
فروری کی ۱۰ تاریخ کو شام کے وقت جب یہ ڑیٹ شیٹ انٹرنیٹ پر بڑی تیزی سے گردش کرنے لگا اور سوشل میڈیا کی تمام چنلوں ، پیجوں اور گروپوں نے جب اسے شئیر کرنا شروع کیا تو مجھے اپنا وقت یاد آیا جب میرے دور میں بھی یہ امتحانات کے ڑیٹ شیٹ ظاہر ہوتے تھے ۔ میں جب دسویں بارہویں اور گریجویشن کے سالوں میں زیر تعلیم تھا تو موسم خزان کے آتے ہی مجھے امتحانات کی فکر لاحق رہتی تھی کیونکہ امتحانات اکتوبر نومبر میں ہی لیے جاتے تھے ۔ ہم طلبہ آپس میں ایک دوسرے کو یہ بتاکے رکھتے تھے کہ جس کسی کو بھی ڑیٹ شیٹ کے بارے میں پہلے پتہ چلے گا تو وہ دوسروں تک کسی نہ کسی طریقے سے یہ انتہائی اہم خبر پہنچائے تاکہ بعد میں کسی کو بھی تعلیمی نقصان سے دوچار نہ ہونا پڑے ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب موبائل فون کا دور نہ تھا ۔ انٹرنیٹ کی سہولیات میسر نہ تھی ۔ زندگی اتنی تیز رفتاری سے آگے نہیں بڑھ رہی تھی بلکہ ڑیٹ شیٹ اور امتحانات کے بارے میں بازار جاکر ہی پتہ معلوم ہوتا تھا یا کسی دوست کے گھر جانا پڑتا تھا اگر اسے معلوم ہوتا تھا ۔ اخبارات بھی گاؤں میں نہیں پہنچتے تھے بلکہ بازار جاکر ہی حاصل ہوتے تھے ۔ آج کل تو دنیا بھر کے تمام ممالک کے اخبارات اور رسائل ہاتھ میں پکڑے ہوئے موبائل فون پر ہی دیکھے اور پڑھے جاسکتے ہیں ۔ میں گریجویشن کے سال دوم میں تھا ۔ یہ سال ۲۰۰۳ کا تھا جب مجھے ڑیٹ شیٹ کے بارے میں پتہ حاصل کرنے کے لیے چار بار اننت ناگ جانا پڑا ۔ ہر بار جب میں بازار پہنچتا تھا تو سیدھے اخبارات فروخت کرنے والے اننت ناگ کے مشہور نیوزایجنٹ الطاف نیوز ایجینسی کے پاس جاتا تھا اور ہر بار مایوس ہوکر یہ خبر لےکر واپس لوٹتا تھا کہ ابھی ڑیٹ شیٹ نہیں نکلی ہے ۔ نزدیکی باباپورہ نامی گاؤں کا ایک اور دوست میرے ساتھ ڈگری کالج کھنہ بل میں زیر تعلیم تھا ۔ پھر میں تین بار اس کے گھر بھی ڑیٹ شیٹ کے بارے میں پتہ حاصل کرنے کے لیے گیا لیکن اس نے یہی الفاظ دہرائے جو مجھے آج بھی برابر تازہ یاد ہیں اور کانوں میں گونج رہے ہیں ۔۔۔۔ ” میں تین بار اننت ناگ گیا مگر ابھی ڑیٹ شیٹ نہیں نکلی ہے "۔۔۔۔۔
گھر آکر میں تقریبا” دس روز تک امتحان کی تیاری میں مصروف رہا کیونکہ یہ توقع ہی ظاہر کیا جاتا تھا کہ آنے والے کچھ دنوں میں ہی ڑیٹ شیٹ ظاہر ہوگی اور امتحانات بھی اس کے کچھ دن بعد ہی شروع ہونگے ۔ دس روز بعد میں نے دربارہ اننت ناگ کی طرف رخ کیا ۔ جب الطاف نیوز ایجینسی کے پاس پہنچا اور اسے ڑیٹ شیٹ کے بارے میں پوچھا تو اس نے دو روپے کےعوض ڑیٹ شیٹ کی ایک کاپی جو اس نے اخبار کے ایک صفحے کو فوٹوسٹیٹ کرکے رکھی تھی میرے ہاتھ میں تھمادی۔ جب میں نے ڑیٹ شیٹ کو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ پانچ دن پہلے نکل چکی تھی ۔ گھر پہنچ کر اور گلابی نمکین چاے نوش کرکے میں سیدھے دوست کے گھر گیا اور اسے ڑیٹ شیٹ دکھائی ۔ ڑیٹ شیٹ دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا اور امتحان کی تیاری میں مزید مصروف ہوگیا ۔ یہ تھے وہ دن جب سائنس و ٹیکنالوجی کا موبائل فون ہماری زندگیوں میں غائب تھا اور ڈیجیٹل دور کا آغاز نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔۔
گزشتہ دنوں جب یہی ڑیٹ شیٹ دسویں گیارہویں اور بارہویں جماعتوں کے لیے انٹرنیٹ پر جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے لگی تو میں نے بھی اپنے کچھ دوست اقارب کو واٹسپ کے ذریعے یہ ڑیٹ شیٹ بھیجی تو مجھے منہ کی کھانی پڑی جب واپس میں یہ پیغام دیا گیا ۔۔۔۔ ” ہم نے یہ ڑیٹ شیٹ پہلے ہی نیٹ پہ دیکھی ہے ” ۔۔۔۔۔
